عمران خان کی ہیٹ ٹرک اور جہانگیر ترین کے حلقے میں تحریک انصاف کے موقف کی فتح اپنی جگہ لیکن اس فیصلے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ یہاں انصاف کا حصول کس قدر مشکل اور طویل ہے۔ جہانگیرترین نے دھاندلی کے حوالے سے رٹ ڈھائی سال قبل دائر کی تھی۔ وہ اس کیس کے حوالے سے ایک سو بتیس مرتبہ پیش ہوئے‘ صرف یہ جاننے کیلئے کہ ان کے حلقے میں دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں‘ انہیں غالباً اڑھائی کروڑ روپے خرچ کرنا پڑے ۔ جس کیس کا فیصلہ ایک سو بیس دن کے اندر ہو جانا چاہیے تھا‘ اس کا فیصلہ آنے میں نو سو دن لگے۔یہیں سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں ایک عام آدمی کا کیا حال ہو گا۔ اس کے باوجود حکمران مصر ہیں کہ ان کے دور حکومت میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں اور عوام سے دولت ہے کہ سنبھالی نہیں جاتی۔
الیکشن ٹریبونل کے معزز جج کے بارے میں حکمران جماعت کا موقف قابل افسوس بھی ہے اور قابل مذمت بھی۔ قابل حیرت اس لئے نہیں کہ ان کا ماضی ایسی ہی مثالوں سے بھرا ہے۔ یہی لوگ تحریک انصاف پر الزام لگاتے تھے کہ وہ عدالتی فیصلوں کا احترام نہیں کرتی اور ہر فیصلہ اپنے حق میں چاہتی ہے لیکن اب وہ خود وہی روش اپنا رہے ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ این اے 122کا فیصلہ آنے سے قبل پی ٹی آئی کی طرف سے واضح طور پر کہا گیا تھا کہ وہ جو بھی فیصلہ آیا‘ اُسے تہہ دل سے قبول کریں گے اور ناجائز تنقید نہیں کریں گے۔ اس سے قبل جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو بھی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ٹھنڈے دل سے قبول کر لیا۔ لیکن اب حکمرانوںکو کیا ہوا ہے
کہ خود وہی کام کر رہے ہیں جس کی کل تک دوسروں پر تنقید کر رہے تھے۔ ایک معزز جج کے خلاف ریمارکس دینا کون سی اخلاقیات کے زمرے میں آتا ہے۔ تحفظات سب کو ہوتے ہیں لیکن مفادات اٹھانے کا الزام لگانا اور وہ بھی ایک جج پر‘ بالکل الگ معاملہ ہے۔یہی فیصلہ اگر تحریک انصاف کے خلاف آیا ہوتا اور اس کے لیڈروں نے معزز جج یا ٹریبونل پر اس قسم کی تنقید کی ہوتی تو یہی نون لیگ اور یہی حکمران ان کے لتے لے رہے ہوتے۔ شاید حکمران جماعت کو معلوم ہی نہیں کہ جسٹس کاظم ملک جیسے باضمیر اور نہ بکنے والے اس ملک میں اب بھی موجود ہیں‘ جو دبائو اور لالچ پر میرٹ اور انصاف کو ترجیح دیتے ہیں۔ ماضی میں حکمران جماعت اور عدلیہ کے درمیان ''محبت‘‘ کی پینگیں کس نے نہیں دیکھیں۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت پر جس انداز میں دھاوا بولا گیا تھا‘ اس کی ویڈیوز آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ وہ چہرے صاف دیکھے جا سکتے ہیں جو آج عدلیہ کی آزادی کے چیمپئن بن رہے ہیں لیکن اپنے خلاف فیصلہ آنے پر آج بھی منصفوں کو معاف نہیں کر رہے۔ یہ ان کی خام خیالی ہے کہ انصاف فراہم کرنے والے ان کا دبائو قبول کرلیں گے اور مستقبل میں ان کے خلاف فیصلے دینے سے باز رہیں گے۔ جسٹس کاظم ملک کا ''گناہ‘‘اگر یہ ہے کہ انہوں نے دبائو اور لالچ کے باوجود اپنے ضمیر کی آواز سنی اور انصاف کے تقاضوں کو پوراکیا تو یہ ''گناہ‘‘ ہر جج کو کرنا چاہیے۔
مجھے یاد ہے جن دنوں عمران خان نے دھرنے کا اعلان کیا تھا‘ حکمران تو حکمران عام لوگ بھی یہی کہتے پائے گئے کہ دھاندلی کون سی نئی بات ہے‘ یہ تو ہر الیکشن میں ہوتی ہے۔ لوگ دھاندلی کو الیکشن کا مستقل حصہ تسلیم کر چکے ہیں۔ حکمران بھی یہی چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں عوام ہمیشہ دھاندلی زدہ حکمرانوں کو اسی طرح قبول کرتے رہیں جیسے وہ دیگر چیزوں مثلاً گندے پانی‘غیرمعیاری تعلیم و صحت اور امن و امان کی خراب صورتحال کو قبول کر چکے ہیں۔ آج ملک میں اسی فیصد سے زائد مقامات پر موجود پانی پینے کے قابل نہیںاور عوام اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر حلق سے اتارنے پر مجبور ہیں۔ یہی حال صحت کا ہے۔ سرکاری ہسپتال ذبح خانے بن چکے ہیں اور نجی ہسپتالوں کی لوٹ مار کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔سرکاری ہسپتالوں میں سی ٹی سکین ‘ایکسرے مشینیں‘ جان بچانے والی دوائیاںحتیٰ کہ ڈاکٹر تک موجودنہیں ہوتے
لیکن عوام اس کے بھی عادی ہو چکے ہیں۔ سرکاری سکولوں کی حالت اور ان کے تعلیمی نتائج سب کے سامنے ہیں۔ لوگ محلے کے تھرڈ کلاس نجی سکول میں بچوں کو بھیج دیتے ہیں لیکن سرکاری سکول میں بھیجنے کو آمادہ نہیں ہوتے۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کو سستی اور معیاری تعلیم فراہم کرے۔سرکاری سکول کھنڈر اور جانوروں کے باڑوں میں بدل چکے اور عوام اس کو بھی قسمت کا لکھا سمجھ بیٹھے ہیں۔ پوری دنیا میں پولیس عوام کے تحفظ کے لئے ہوتی ہے۔ہمارا واحد ملک ہے جہاں لوگ چوروں اور ڈاکوئوں حتیٰ کہ دہشت گردوں سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا پولیس کے پاس جاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ کسی کا موبائل چھن جائے‘ گاڑی چوری ہو جائے حتیٰ کہ کوئی ڈاکوئوں کے ہاتھوں زخمی بھی ہو جائے تب بھی وہ تھانے نہیں جاتا کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ تھانیدار نے جب رپٹ لکھنے کے لئے پنسل اور کاغذ بھی اسی سے مانگنا ہے اور پرچہ بھی الٹا اسی کے خلاف درج کرنا ہے تو پھر اس کا دماغ خراب ہے کہ وہ اوکھلی کے منہ میں سر دے دے۔پولیس عوام کے پیسوں پر چلتی ہے لیکن عوام کو تحفظ نہیں دیتی اور عوام اسے بھی اپنی تقدیر کا لکھا مان چکے ہیں۔ یہ چند مثالیں تھیں۔ پورا ملک ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے لیکن عوام ہر برائی کو طوعاً و کرہاً قبول کر چکے ہیں۔ وہ ان کے عادی بھی ہو چکے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ یہ ملک ایسے ہی چلے گا اور ہمیں اپنی ذات اور ملکی نظام میں تبدیلی کی توقع کی امید ہی ختم کر دینی چاہیے؟ حکمران تو یہی چاہیں گے ۔ہم کیا چاہتے ہیں یہ ہمیں سوچنا ہے۔
حکومت عام آدمی کے ساتھ کر کیا رہی ہے‘ اس کی ہلکی سی جھلک میں آپ کو دکھا دیتا ہوں۔ گیارہ اگست کواچھرہ تھانے کے ساتھ واقع
گولڈ مائن پلازہ میں آگ بھڑک اٹھی۔ یہ آگ ٹرانسفارمر پھٹنے سے لگی جو سڑک کی بجائے پلازہ کے اندر رکھا ہوا تھا۔ نو منزلہ عمارت میں آگ اور دھواں پھیل گیا اور دس بارہ لوگوں نے جانیں بچانے کیلئے چھلانگیں لگا دیں۔ ان میں سے ایک مسیحی نوجوان موقع پر جاں بحق ہو گیا جبکہ دوسرا نوجوان دو ہفتے بعد گزشتہ روز ہسپتال میں چل بسا۔ جو زخمی ہوئے وہ ابھی تک موت و حیات کی کیفیت میں ہیں لیکن حکمرانوں نے نہ تو اس پلازہ کے خلاف کسی ایکشن کا اعلان کیا‘ نہ کوئی جے آئی ٹی بنائی اور نہ ہی جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے لئے کسی مالی امداد یا علاج معالجے کا اعلان کیا۔ اپنا دل کیا تھا تو 2010ء میں کیانی کمیشن بنا کر سیاسی مخالفین کے پلازے تہس نہس کر دئیے تھے۔ جو لوگ عمران خان کے دھرنے کی مخالفت کرتے ہیں وہ خود بتائیں کہ کیا ریاست کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو مرنے کے لئے چھوڑ دے۔ مرنے والے دو مسیحی افراد کے لواحقین کہاں سے انصاف مانگیںْ۔ کیا احتجاج اور دھرنے کے بغیر ان کی بات کوئی سنے گا؟ کیا وزیراعلیٰ پنجاب سے نیچے کوئی ذمہ دار موجود نہیں جو روز مرہ کے معاملات کا نوٹس لے اور انہیں حل کر سکے۔ مرنے والے مسیحی نائب قاصد جیسی معمولی نوکریوں پر فائز تھے اور اپنے پیچھے چھوٹے چھوٹے بچے اور مسائل کے پہاڑ چھوڑ گئے ہیں۔ملک کے عوام کی بھاری اکثریت اس قسم کے نظام سے نالاں ہے اور اسے تبدیل کرنے کیلئے بے تاب ہے۔ ان کا یہ خواب اسی صورت شرمندئہ تعبیر ہو گا جب ہمارا انتخابی نظام شفاف ہو گا اور جب انتخابی عذرداریوں کے فیصلے 900ایام تک نہیں لٹکائے جائیں گے۔