لوگ حیران ہیں زرداری صاحب کو آج اچانک سانحہ ماڈل ٹائون کہاں سے یاد آ گیا۔ یہ سانحہ اس شہر میں بپا ہوا جسے پیپلزپارٹی کبھی اپنا قلعہ مانتی تھی۔ کیسا وقت آ گیا ہے کہ اس قلعے میں سرعام خواتین اور بوڑھوں کو گولیوں سے بھونا جاتا ہے اور پیپلزپارٹی صرف اس لئے خاموش رہتی ہے کہ اس کا مسلم لیگ ن کے ساتھ میثاق جمہوریت کے تحت یہ مک مکا ہوا تھا کہ نہ تم ہمیں چھیڑو گے‘ نہ ہم تمہیں چھیڑیں گے ۔ شاید اسی لئے لاہور سے پیپلزپارٹی کا صفایا ہو چکا ہے کہ اسے نہ عوام کی پروا ہے نہ ریاست کی۔ ڈاکٹر عاصم گرفتار نہ ہوتے تو کیا سابق صدر کبھی ماڈل ٹائون سانحہ پر آواز اٹھاتے؟ وہ کبھی صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود کی ویڈیو کی بات کرتے؟ شاید کبھی نہیں۔ ایسا کر کے زرداری صاحب نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کی نون لیگ کے ساتھ میثاق جمہوریت میں جو کمٹمنٹ ہوئی تھی‘ اس میں سب سے اہم یہی شق تھی کہ جو فریق حکومت میں ہو گا وہ مرضی کا بادشاہ ہو گا‘اسے سات خون معاف ہوں گے ۔ وہ چاہے تو پولیس کے ذریعے عوام پر گولیاں برسائے اور چاہے تو ترقیاتی منصوبوں میں کک بیکس کمائے‘ دوسرا فریق کبھی بھی اسے ٹوکے گااور نہ ہی باز پرس کرے گا۔ آج زرداری صاحب نے ثابت کر دیا کہ وہ اور ان کی جماعت عوام کے نام پر ووٹ تو مانگ سکتی ہے لیکن عوام کے جان و مال کے تحفظ کی انہیں ذرّہ برابر پروا نہیں ہے۔ممکن ہے یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا اگر ضرب عضب کا دائرہ وسیع نہ ہوتا۔
پشاورسکول سانحے کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اعلان کیا تھا کہ شہید بچوں کا خون رائگاں نہیں جائے گا۔ وہ اُسی روز افغانستان پہنچے اور دہشت گردی میں ملوث افراد کو ان کے انجام تک پہنچانے کی کوششیں شروع کر دیں۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت یہ طے کیا گیا کہ دہشت گردی صرف طالبان کے بم دھماکوں یا خودکش حملوں کا نام نہیں بلکہ ملک میں ہر طرح سے جاری دہشت گردی کے خاتمے تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ آج بعض سیاسی لوگوں کی گرفتاری پر جن سیاستدانوں کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں‘ اس کی وجہ یہی ہے کہ اب ہر اس بندے کے دن گنے جا چکے ہیں جو کسی بھی طرح سے دہشت گردوں کا معاون رہا ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ نون لیگ کی باری نہیں آئے گی‘ ان کی سوچ پر حیرانی ہوتی ہے کہ اس جنگ میں سیاسی جماعتوں یا بندوں کی تفریق کرنا بچگانہ سوچ ہے۔ اگر کوئی بندہ تحریک انصاف میں بھی دہشت گردوں کا معاون پایا گیا‘ کوئی سہولت کار مسلم لیگ ق کا نکل آیا اس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا جو کسی اور جماعت کے بندے کے ساتھ ہونا چاہیے۔بم دھماکوں میں جو لوگ مرے ان میں سبھی لوگ تھے۔ فوجی بھی‘ عام لوگ بھی اور سیاسی کارکن بھی۔ دہشت گرد یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کسے مار رہے ہیں۔ لہٰذا دہشت گردی کرنے والے کے ساتھ بھی بغیر کسی تفریق کے ایسا ہی سلوک ہونا چاہیے۔ گزشتہ روز ایک ٹی وی ٹاک شو میں مسلم لیگ کی ایک نمائندہ خاتون جس طرح اس آپریشن کے حوالے سے سٹپٹائی ہوئی تھیں‘ اس سے حکمران جماعت کی بوکھلاہٹ کا بآسانی اندازہ لگا جا سکتا ہے ۔ یہ لوگ ابھی تک نوے کی دہائی میں جی رہے ہیں۔ حکمران جماعت کو اندازہ ہی نہیں کہ فوج اس وقت کتنے امتحان میں ہے۔ بیرونی خطرات کا مقابلہ وہ تبھی ڈٹ کے کر سکے گی جب اندرونی طور پر اسے بھرپور عوامی اور سیاسی تائید حاصل ہوگی۔ بھارت جس طرح پاکستان کو للکار رہا ہے‘ اس کا جواب پاکستانی فوج نے ہی اسے دینا ہے۔ اس وقت تو یہ حکمران نظر بھی نہیں آئیں گے۔ اگلے محاذ پر جانیں دیں گے تو یہی بہادر جوان دیں گے ۔ اگر اندرونی طور پر فوج دبائو میں رہی تو یہ کیسے دشمن کا مقابلہ کر سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی ہمدردیاں پوری طرح فوج کے ساتھ ہیں‘ جس طرح ستمبر 65ء کے وقت تھیں۔ یہی کام اگر سیاستدان کرتے تو عوام انہیں کندھوں پر اٹھا رہے ہوتے لیکن جو لوگ چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے صرف اس لئے کریں کہ انہیں اقتدار مل جائے ‘ وہ اس ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے کیسے چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔وہ میٹرو اور اورنج ٹرینیں تو چلا سکتے ہیں لیکن قوم اور ملت کی تعمیر ان کے بس کا روگ نہیں۔
جیسے جیسے چھ ستمبر کا دن قریب آ رہا ہے‘ عوام کے جوش و جذبے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ستمبر65ء میں ہمارا سامنا بھارت سے تھا۔ اب بھارت کے ساتھ اور بھی دشمنوں سے ہمیں نمٹنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک سائیکل چور کو دو دو سال کے لئے جیل میں جانا پڑ سکتا ہے تو پھر اربوں کھربوں لوٹنے والے کیوں نہیں؟ کیا یہ ملک اس لئے بنا تھا کہ کوئی تاجر آئے اور مسلم لیگ کے ساتھ اپنے نام کا پہلا حرف جوڑے اور ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کر دے۔ یا اس لئے کہ بھٹو کے نام پراس کے وارث ساری عمر عوام اور ملک کو نوچتے رہیں اور جب ان کے گرد گھیرا تنگ ہو تو یہ شور مچانا شروع کر دیں کہ ہمیں نہ چھیڑو ورنہ جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ جس ملک کی حالت آج یہ ہو چکی ہو کہ جہاں جان بچانے والی دوائیں تک جعلی مل رہی
ہوں وہاں لیڈر کیسے اصلی ہو سکتے ہیں۔ اب سمجھ آتی ہے کہ دیگر جماعتوں کی نظر میں عمران خان اس لئے کھٹکتا ہے کہ وہ کرپٹ نہیں ہے۔ حکمران جماعت نے اپنے تئیں پوری کوشش کر کے دیکھ لی۔ لیکن کچھ ہوتا تو سامنے آتا۔ عمران خان نے کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی بنا کر لوگوں کے دلوں میں جس طرح جگہ بنائی انہی کی دعائیں آج اسے یہاں تک لے آئی ہیں کہ اس کی جماعت دوسری بڑی جماعت بن چکی ہے اور سارے اکٹھے ہو کر بھی اس سے خوفزدہ ہیں۔ تحریک انصاف کو چاہیے کہ اس سے قبل کہ نیب یا ایف آئی اے اس کی صفوں میں سے کالی بھیڑوں کوآ کرپکڑیں‘ یہ خود انہیں کان سے پکڑ کر باہر نکال دے اور یہ ثابت کر دے کہ یہ جماعت اس وطن سے مخلص ہے نہ کہ اپنے کاروبار اور اپنی دولت اور اثاثوں سے۔یہی کام دوسری سیاسی و مذہبی جماعتوں کو کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کو بے جا نہیں پکڑا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ ان کے ہسپتال میں بعض مجرموں کا غیر قانونی طور پر علاج کیا جاتا تھا اور انہیں تحفظ دیا جاتا تھا۔ یعنی ایک طرف ڈاکٹر عاصم عوام کے ٹیکس سے حکومت کے مزے لے رہے تھے اور دوسری طرف وہ دہشت گردی میں بالواسطہ معاون بھی تھے۔ ٹیرر فائنانسنگ کرنے والوں کی فہرست تیار ہو چکی ہے۔ ایسے لوگ پنجاب میں ہوں یا سندھ میں‘ بلوچستان میں یا خیبر پی کے میں‘ ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہو یا مذہبی سے‘ ان کا یوم حساب آ چکا۔جو سب سے زیادہ شور مچائے‘ سمجھ لیں وہی چور ہے۔