ریستورانوں پر چھاپے مارنے کے پیچھے آخر کیا راز تھا‘ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی عائشہ ممتاز نے بالآخر پردہ اٹھا دیا۔ عائشہ ممتاز نے کہا ہے کہ لوگ گھر میں دال سبزی کھا لیا کریں مگر باہر کھانا نہ کھایا کریں ‘ بازار میں کھانا غیر معیاری ملتا ہے جس سے لوگوں کی صحت خراب ہوتی ہے ۔ عائشہ ممتاز بھی کیا بات کرتی ہیں۔ جنہیں بازاروں کا چسکا لگا ہوا ہے اور جو گوشت کی قسم قسم کی ڈشیںکھا کھا کر دہرے ہو چکے ہیں وہ گھر کی دال روٹی کیسے کھا پائیں گے۔ ٹی وی پر گدھے کا گوشت دکھا دکھا کر گائے اور بکرے سے حکومت نے ویسے ہی عوام کو چالو کر دیا ہے۔ آ جا کر مرغی ہی رہ جاتی ہے۔ وہ صاف صاف یہ کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ عوام مرغی کھائیں اور وہ بھی رائے ونڈ کے پولٹری فارمز کی تاکہ حکمرانوں کے کاروباروں کو چار چاند لگ جائیں جس کے لئے یہ سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ آپ ذرا اس کی ٹائمنگ دیکھیں۔ جب لوگوں کو گدھے دکھا دکھا کر بے حال کر دیا گیا تو ساتھ ہی پولٹری پر لاہور میں تین روزہ نمائش کا اہتمام کر دیا گیا۔ یہ نمائش ایکسپو سنٹر لاہور میں ہوئی۔ سڑک پر لگے ہر اشتہاری بینر پر وزیراعلیٰ پنجاب کی تصویر آویزاں تھی۔ ساتھ لکھا تھا مرغی کا گوشت ہڈیوں اور دل کو مضبوط کرتا ہے۔ بندہ پوچھے جو برائلر مرغی خود اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہو سکتی وہ انسانوں کی ہڈیاں اور دل کیسے مضبوط کرے گی۔ ایک لمحے کو مان لیں کہ اگر اس سارے کھیل کے پیچھے اپنے کاروبار کو فروغ دینا مقصود نہیں تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمران اگر ریستورانوں کو سیدھا نہیں کر سکتے تو پھر حکومت کی رِٹ کہاں رہ جاتی ہے۔ صرف چھاپے مارنے سے معاملات سیدھے نہیں ہوتے۔ حکومت کا تو کام یہ تھا کہ وہ ریستورانوں کیلئے صفائی کے معیار کے قواعد و ضوابط طے کرتی‘ ان کی ٹریننگ کرتی‘ ایک ریستوران حکومت
خود بنا کر دکھاتی‘ یہ ماڈل ریستوران سارے میڈیا کے سامنے کھولا جاتا‘ لوگوں کو بریف کیا جاتا کہ کچن سے لے کر ڈائننگ تک صفائی کا کس طرح کا معیار ہونا چاہیے‘ چھوٹی برگر شاپس سے لے کر بڑے فائیو سٹار ہوٹلوں تک کو ایک دو تین کر کے اصول و ضوابط بھجوائے جاتے‘ اس کے ساتھ ہی انہیں دو ہفتوں کا وقت دیا جاتا ‘ اس دوران اگر وہ کسی قسم کی معلومات یا رہنمائی لینا چاہتے تو فوڈ اتھارٹی کی خصوصی ٹیمیں ان کی معاونت کرتیں‘ کھانے پینے کی اشیا کو مکھیوں اور گردو غبار سے کس طرح بچانا ہے‘پھلوں اور گوشت کو کتنی دیر اور کس درجہ حرارت پر محفوظ رکھنا ہے‘ یہ تفصیلات مہیا کی جاتیں اس کے بعد اگر کوئی اس پر عمل نہ کرتا تو اسے جرمانہ کیا جاتا‘ اگر پھر بھی کوئی عمل نہ کرتا تو اسے بھاری جرمانہ اور آخری وارننگ دی جاتی اور تیسری بار عمل نہ کرنے پر چاہے ریستوران سیل کر دیا جاتا۔ میں نے جتنے بھی اقدامات لکھے ہیں یہ کرنے کے لئے ایک پلاننگ اور حکمت عملی درکار ہوتی ہے۔ حکمرانوں کے پاس چند پوش علاقوں کی سڑکیں اکھاڑنے اور انہیں دوبارہ بنانے کے لئے پلاننگ بھی ہے اور پیسہ بھی لیکن عوام کی رہنمائی کیلئے ان کے پاس وقت ہے نہ صلاحیت اور نہ ہی نیت۔سوال یہ ہے کہ یہی حکمران امریکہ اور برطانیہ میں علاج بھی کراتے ہیں اور وہاں کے ہوٹلوں سے کھانے بھی کھاتے ہیں تو پھر یہ پاکستان کو ویسا کیوں نہیں بناتے؟ کیا وہاں کے ہوٹل چھاپوں سے سیدھے ہوئے تھے؟ ذرا سوچیں حکومت کی جارحانہ مہم سے ان لوگوں کے کاروبار کو کتنا نقصان پہنچا ہو گا جو صفائی بھی رکھتے ہیں اور حلال جانوروں کا گوشت
بھی استعمال کرتے ہیں۔چھوٹی برگر اور بار بی کیو شاپس والے ہزاروں دکاندارتو فاقوں پر آ گئے ہوں گے کیو نکہ میڈیا پر گدھے دکھا دکھا کر حکومت نے عوام کو بازاروں کے کھانے سے خوفزدہ اور اچاٹ کر دیا ہے۔ میں بازار کے کھانوں کی حمایت نہیں کر رہا لیکن یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ ساری دنیا میں بازاروں اور ریستورانوں میں کھانے ملتے ہیں‘ وہاں کے حکمران اور بیوروکریٹ یہ تو نہیں کہتے کہ بازار میں کھانا گندا ہے لہٰذا سارے ریسٹورنٹ سیل کر دئیے جائیں اور لوگ گھر کا کھانا کھائیں۔ آخر انہوں نے بھی تو کوئی سسٹم اپنایا ہو گا تو ہم کیوں نہیں اپنا سکتے۔اگرریاست ماں کی طرح ہوتی ہے تو ریاست کو ایسے لوگوں کی رہنمائی سے آغاز کرنا چاہیے ۔ ایسے کاروباروں والے زیادہ تر لوگ ان پڑھ ہوتے ہیں۔ انہیں صفائی کا ادراک ہی نہیں ہوتا۔ یہ کام حکومت کا تھا کہ وہ انہیں سیدھے راستے پر سیدھے طریقے سے لاتی۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ تاجر کبھی دوسرے تاجر کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتا۔ تاجروں کی موجودہ حکومت نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ امیر تو امیر کسی غریب کا کاروبار بھی نہیں چلنے دینا۔ اسی لئے ان کی حکومت میں آج ہر کوئی سڑکوں پر ہے چاہے وہ کسان ہو یا ڈاکٹر‘ وکیل ہوں یا معذور‘ گوالے ہوں یا اساتذہ‘ سب کے سب آج انصاف کے حصول کیلئے اداروں کے پاس جانے کی بجائے سڑکوں پر بیٹھے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اداروں سے انہیں کچھ ملنے والا نہیں۔ اگر حکمرانوں کو چھاپے مارنے کا اتنا ہی شوق ہے تو مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ موجودہ یا سابق دور میں آج تک پنجاب میں کسی سرکاری ہسپتال پر چھاپہ کیوں نہیں مارا گیا۔ اگر مارا گیا ہے تو مجھے بتا دیں۔ کیا سرکاری ہسپتالوں کی حالت ان کے علم میں نہیں ہے۔ کیا سرکاری ہسپتال لندن اور پیرس کے ہسپتال بن چکے ہیں جو وہاں حکمرانوں کو خامیاں نظر نہیں آتیں۔ ہم لکھ لکھ کر مر گئے‘ ٹی وی والے دکھا دکھا کر تھک گئے لیکن مجال ہے کسی کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔ کیا یہ سچ نہیں کہ لاہور‘ ملتان‘فیصل آباد اور وزیرآباد (دل ہسپتال)میں کئی سرکاری ہسپتال اور پراجیکٹس صرف اس وجہ سے ادھورے پڑے ہیں کہ ان کی تختی سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے لگائی تھی۔ آدھی آبادی کو تو یہ تک علم نہیں ہے کہ پنجاب کا وزیر صحت کون ہے۔ کون اس کا بجٹ جاری کرتا ہے۔ ڈاکٹروں کے الائونس اور ہسپتالوں کی مشینری کس کے دستخطوں کے محتاج ہیں‘ کسی کو پتہ بھی ہے تو وہ کیا کر لے گا۔ لوگ تنقید کر رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب بجلی کے منصوبوں میں وفاق کی کس طرح نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں اور انہی عالمی کمپنیوں سے میٹنگوں میں حکمرانوں کے بچے بھی موجود ہوتے ہیں ‘ میں پوچھتا ہوں جو محکمے خود ان حکمرانوں نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں‘ ان کو تو وہ ٹھیک طریقے سے چلا نہیں پا رہے تو بجلی اور دیگر منصوبوں کو کیا سنبھالیں گے ؟ کیا نندی پور پراجیکٹ حکمرانوں کی پھرتیوں کی بھینٹ نہیں چڑھا۔ ایسے منصوبوں کی میٹنگز ہوتی ہیں تو حکمران ان میں پیش پیش ہوتے ہیں‘ نندی پور کا فیتہ کاٹنا ہو تو یہ خود سب سے آگے تھے‘ اب جب سے کرپشن کا شور مچا ہے تو کہتے ہیں نیچے کسی افسر نے کی ہو تو پتہ نہیں‘ ہم البتہ بے گناہ ہیں۔ اب چھری سر پر آئی ہے تو ماڈل ٹائون سانحے کے پولیس افسروں اور گلو بٹ کی طرح نچلے افسروں کو قربانی کا بکرا بنا دیا جائے گا۔ خدا کی پناہ ہے۔ آج ہسپتالوں سے بہتر حالت تو چڑیا گھر کی ہے جہاں کم ازکم جانور تو سکون میں ہیں۔ کمال کے حکمران ہیں کہ خود برگر کی دکانوں پر چھاپے مار رہے ہیں اور میڈیا کا سرکاری ہسپتالوں میں داخلہ ممنوع کر رکھا ہے۔کون نہیں جانتا کہ میڈیا کے لوگ جب سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار ‘کرپشن اور مریضوں کے مسائل کو کیمروں کے ذریعے دنیا کے سامنے لاتے تھے تو کس کی سبکی ہوتی تھی؟ کس محکمے اور کس شخصیت کی طرف انگلی اٹھتی تھی؟ میں نے گزشتہ کالم میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کو چیلنج کیا تھا کہ وہ کوئی صاف ستھرا اور معیاری ریسٹورنٹ سامنے لائیں تو مانیں۔ وہ کبھی ایسا نہیں کر سکیں گے کیونکہ فوڈ اتھارٹی کی اسی کارکردگی اور ملی بھگت کی وجہ سے ہی تو بازاروں میں کھانے پینے کے معیار کا بیڑہ غرق ہوا ہے‘ چنانچہ وہ اپنے گلے پرخود چھری چلانے سے تو رہے۔ اب میں پنجاب حکومت کو چیلنج کرتا ہوں کہ اس کے حکمران اور بیوروکریسی میں سے کسی میں ہمت ہے تو ذرا پنجاب کے کسی سرکاری ہسپتال پر چھاپہ مار کر دکھائیں‘ کوئی اور ''دبنگ‘‘ عائشہ ممتاز سامنے آئے اور کسی سرکاری ہسپتال میں مشینری کی عدم دستیابی ‘ آپریشن تھیٹر میں اوزاروں اور صفائی کی حالت‘ ڈاکٹروں کا مریضوں سے رویہ اور ایک ایک بیڈ پر چار چار مریضوں کو پڑے دکھائے تب عوام مانیں گے کہ یہ سب ڈیش بازی اور شو بازی نہیں بلکہ واقعی گڈ گورننس ہے۔