پی ٹی آئی کا سمن آباد کا جلسہ اتنا تباہ کن تھا کہ اُسی رات بارہ بجے اُن دو حکومتی وزیروں کو ہنگامی پریس کانفرنس کرنا پڑی کہ جن سے این اے 122 کی انتخابی مہم میں حصہ لینے پر ریٹرننگ آفیسر نے چھ اکتوبر کو جواب طلب کرلیا ہے ۔ ان وزرا میں ماروی میمن بھی شامل ہیں۔ ریٹرننگ آفیسر کے مطابق وزراء انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتے اور انہیں امیدواروں کی حمایت میں تقریر کرنے کی اجازت نہیں۔ ریٹرننگ آفیسر کا اعتراض اپنی جگہ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں وزارتیں ویسے بھی عوام کے لئے کر کیا رہی ہیں۔ ایک وزارت بجلی و پانی کی ہے جس کا کام نیپرا رپورٹ کے مطابق جان بوجھ کر لوڈشیڈنگ کرنا اور مہنگی بجلی دینے کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری وزارت ریلوے کی ہے جس کی ٹرینیں نام بدل بدل کر چلانے کو محکمہ چلانے کا فارمولا بنا لیا گیا ہے۔ تیسری وزارت یوتھ قرضہ سکیم کی ہے جس میں ابھی تک شاید ہی کسی حقیقی درخواست گزار کو قرضہ ملا ہو۔یہ تو بڑا ''ظلم‘‘ ہے کہ جو وزرا اپنے اپنے محکموں میں عوام اور ملک کے مفاد کے لئے کوئی کام نہیں کر سکتے انہیں اپنے لیگی ساتھیوں کی انتخابی مہم چلانے سے بھی روک دیا جائے۔ ابھی کل روزنامہ دنیا ہی کی خبر تھی کہ جس میں وزیراعلیٰ پنجاب کے پارٹی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آئی جس کے مطابق انتظامی مشینری کو بھرپور طریقے سے الیکشن جیتنے کے لئے استعمال کرنے کا حکم دیا گیا اور اس پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ ماروی میمن کی اس مہم میں موجودگی اس لئے بھی اچنبھے کی بات تھی کہ وہ بینظیر انکم سپورٹ اور قرضہ سکیم کی سربراہ ہیں اور ان کا الیکشن مہم میں شریک ہونا
معنی خیز ہے۔ اسی طرح وزیر ریلوے سعد رفیق بھی ضابطے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں لیکن نون لیگ ضابطوں کو مانتی کب ہے۔ نظم ‘ میں نہیں مانتا ‘ وزیر اعلیٰ پنجاب متعدد مرتبہ گا کر سنا چکے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ بھی حکمران جماعت کی طرف سے کئی بار کیا جا چکا ہے ۔جسٹس باقر نجفی نے ماڈل ٹائون سانحے کی رپورٹ میں بعض اہم لوگوں کو ذمہ دار قرار دیا تو نون لیگ نے میں نہیں مانتا‘ کی رٹ لگا کر یہ رپورٹ سامنے لانے سے انکار کر دیا اور مرضی کی نئی جے آئی ٹی بنا ڈالی۔میں نہیں مانتا ‘ کی یہ ایک مثال نہیں‘ ایسی درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن فی الوقت ہم سمن آباد واپس آتے ہیں جہاں کا جلسہ دیکھ کر بہت سوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکمران جماعت کسی جلسے کو تب تک کامیاب نہیں مانتی جب تک اس میں اساتذہ‘پٹواریوں‘ مالیوں اور کلرکوں کو ٹرکوں میں بھر بھر کرنہ لایا گیا ہو۔ شاید اسی لئے زعیم قادری کو یہ کہنا پڑا کہ تحریک انصاف جلسے کے لئے دس ہزار افراد بھی ''اکٹھے‘‘ نہ کر سکی۔ ایک سو چھبیس دن کے دھرنے اور پورے ملک میں کامیاب جلسوں کے بعد بھی زعیم قادری کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ تحریک انصاف کو جلسے کے لئے لوگ ''اکٹھے‘‘ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ لوگ خود ہی کھنچے چلے آتے ہیں۔ تحریک انصاف کے جلسے کے مقابلے میں نون لیگ کی جلسی کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ شاید تمام پٹواری اور مالی عید کا گوشت کھا کھا کر بیمار پڑے ہوئے ہیں جو نون لیگ دو ہزار بندے بھی ''اکٹھے‘‘ نہ کر سکی۔
سوال یہ ہے کہ آخر عمران خان نے جلسے میں ایسا کیا نیا کہہ دیا کہ جب دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے جلسے اور دل کا بوجھ ہلکا کر لیا تو رات گیارہ بجے خواجہ سعد رفیق ‘ عابد شیر علی اور سردار ایاز صادق کو
دوبارہ ٹی وی پر آ کر تحریک انصاف کو لتاڑنا پڑتا۔ یہ کام تو وہ پہلے ہی جلسے میں کر چکے تھے تو پھر اپنی نیند خراب کر کے یہ وضاحت دینے کی کیا ضرورت تھی کہ وزیراعظم نے اس سال بیالیس لاکھ ٹیکس دیا۔ اگر یہ بتایا تھا تو پھر یہ بھی سمجھا دیتے کہ چار سال قبل انہوں نے صرف پانچ ہزار ٹیکس کیوں دیا تھا اور ان کے کاروبار میں اچانک کون سا چمتکار ہو گیا جو عام کاروباری شخص کے نہیں ہوتا کہ صرف چار سال میں کاروباری حجم اتنا بڑھ گیا کہ ٹیکس پانچ ہزار سے بیالیس لاکھ تک پہنچ گیا۔ شاید نون لیگ عمران خان کے اس مطالبے پر چکرا گئی جس میں
انہوں نے فوج سے انتخابی نتائج منتقل کرانے کا مطالبہ کیا۔اگر نون لیگ کی تیاری بہتر ہے اور وہ لاہور کو اپنا قلعہ کہتی ہے تو پھر اسے فوج کی تعیناتی پر اعتراض ہونا چاہیے نہ پریشان ہونا چاہیے۔ میں خود سمجھتا ہوں گرائونڈ پر اب بھی نون لیگ کا ہوم ورک زیادہ ہے۔ ان کے لوگ گھر گھر جا رہے ہیں‘ بار بار جا رہے ہیں۔ شیر کو ووٹ دینے کی درخواست تو کر ہی رہے ہیں لیکن ساتھ میں یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کون سا خاندان کس کو ووٹ دیتا ہے۔ وہ غالباً اپنا ایک ڈیٹا بینک تیار کر رہے ہیں جس سے انہیں معلوم ہو سکے کہ حلقے میں ان کی اصل پوزیشن کیا ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف ہے جس کے قائدین کا زیادہ تر انحصار میڈیا مہم پر ہے۔نیچے جن لوگوں کی ڈیوٹیاں لگنی چاہئیں وہ یا تو اپنا کام ایمانداری سے کر نہیں رہے یا پھر وہ اس زعم میں ہیں کہ دو تین جلسوں اور ٹی وی پر عمران خان کے بیانات ہی انہیں جتوانے کیلئے کافی ہیں۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کا کل کا جلسہ ہمیشہ کی طرح بہت کامیاب رہا‘ لوگ اس میں جوق در جوق شریک ہوئے اور اپنی مرضی سے شامل ہوئے لیکن سوال وہی ہے کہ جلسوں میں آیا ہجوم گیارہ اکتوبر کو ووٹ بینک کی شکل میں نظر آئے گا یا نہیں۔دوسری جانب نون لیگ کا جلسہ تھا جس میں لوگوں کے چہروں سے بیزاری عیاں تھی ‘ ان کی تعداد بھی کم تھی اور ان کا جوش و خروش بھی مصنوعی تھا لیکن نون لیگ الیکشن میں کامیابی کے لئے تمام تر انحصار جلسوں پر نہیں کرتی۔ اس کا گرائونڈ ورک زیادہ ہوتا ہے۔اس بار تو اس کے لئے ویسے بھی زندگی موت کا سوال ہے اس لئے انتظامی مشینری کا بھرپور استعمال دیکھنے کو ملے گا۔ جی بھر کربے ضابطگیاں ہوں گی جو ظاہر ہے بعد میں اگر چیلنج ہوئیں تو دھاندلی کے زمرے میں نہیں آئیں گی اور یوں حکمران جماعت فائدے میں رہے گی۔یہ کہنا کہ علیم خان اس حلقے سے نسبتاً کمزور امیدوار ہیں‘ درست نہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو کل صرف ایک جلسے سے گھبرا کر نون لیگ کے وزیروں کے ماتھے سے پسینہ نہ بہہ رہا ہوتا۔
حکمران جماعت نے سابق اور موجودہ دور میں کامیابیاں ہی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ سستی روٹی سکیم کے تیس ارب روپے کا ضیاع ہو‘ چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے ہوں‘دانش سکولوں کی ناکام منصوبہ بندی ہو‘ نندی پوری پاور پراجیکٹ کی لاگت میں بے تحاشا اضافہ ہو‘ ہسپتالوں میںانکیوبیٹرزکی عدم موجودگی سے شیرخواروں کی اموات ہوں‘ نفع بخش اداروں کی سستے داموں نجکاری ہو‘ مہنگی شرح سود پر پچاس کروڑ ڈالر بیچنے کا معاملہ ہو‘ مہنگے میٹرو بس منصوبے ہوں‘ جیل روڈ کو سگنل فری کرنے کے غیرضروری پروجیکٹ ہوں‘عوام کو گدھے کھلانے کا معاملہ ہو‘ کھانسی شربت اور دل کی جعلی ادویات سے ہلاکتیں ہوں یا نابیناؤں‘ معذوروں‘ کسانوں‘اساتذہ اور ڈاکٹروں کو ان کے جائز مطالبات کی پاداش میں سڑکوں پر گھسیٹنا ہو‘ اتنی ساری ''کامیابیاں‘‘ نون لیگ کے سینے پر تمغے کی طرح موجودہوں‘ ساری انتظامیہ‘ ساری پولیس‘ سارے پٹواری اور سارے محکمے ان کے گھر کی مرغی ہوں اور پھر یہ ڈوہنگی گرائونڈ کے صرف ایک جلسے سے گھبرا کر آدھی رات کو پریس کانفرنسیں کرنے لگیں‘ یہ کیا بات ہوئی؟