تحریک انصاف نے بہر حال کمال کر دیا۔ یہی سمجھا جا رہا تھا کہ انتہائی جارحانہ مہم چلا کر پی ٹی آئی نے نون لیگ کو بدحواس کر دیا ہے لیکن علیم خان اور ایاز صادق کے ووٹوں کا معمولی فرق دیکھ کر تو صاف نظر آ رہا ہے کہ پی ٹی آئی نے ووٹوں کے معاملے میں بھی نون لیگ کے پھٹے اکھیڑ دئیے ہیں۔ محض چوبیس سو ووٹوں سے ایاز صادق کی ''جیت‘‘ سے عمران خان کا موقف بھی سچ ثابت ہو جاتا ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں اس حلقے میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کی گئی تھی۔ اس وقت ایازصادق کے مقابلے میں عمران خان تھے ۔ ایاز صادق کو ساڑھے آٹھ ہزار ووٹوں سے کامیابی ملی تھی۔ امیدواروں کی مقبولیت کا موازنہ کیا جائے تو عمران خان اور علیم خان کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اس لحاظ سے تو گزشتہ روز کے الیکشن میں علیم خان کو کم از کم چالیس سے پچاس ہزار ووٹوں سے شکست ہونی چاہیے تھی لیکن شکست کا یہ مارجن ساڑھے آٹھ ہزار سے کم ہو کر چوبیس سو کیسے رہ گیا‘ یہی وہ سوال ہے جس پر نون لیگ جیتنے کے باوجود متفکر اور خوفزدہ ہے۔ جو لو گ یہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے غلط امیدوار کا انتخاب کیا تھا‘ وہ بھی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اگر یہی چوبیس سو ووٹ علیم خان کے زیادہ ہوتے تو کبھی بھی کوئی یہ نہ کہتا کہ امیدوار غلط چنا گیا۔ کمزور امیدوار ہوتا تو اس کا وہی حال ہوتا جو پی ٹی آئی کے اشرف سوہنا کا اوکاڑہ میں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس مرتبہ مقابلے میں عمران خان اترتے تو کیا پھر بھی یہ فرق چوبیس سو ووٹوں کا رہتا؟ علیم خان اگر میدان میں نہ اترتے تو چودھری سرور کو اتارا جاتا۔ تب بھی کلوز فائٹ ہی
ہوتی۔ اصل معمہ تو یہ ہے کہ جب عمران خان میدان میں نہ تھے تو یہ فرق بڑھنے کی بجائے کم کیسے ہو گیا۔ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ عام انتخابات میں پچاس سے ستر ہزار ووٹوں کی دھاندلی ہوئی تھی۔ دھاندلی اس مرتبہ بھی ہوئی ہے لیکن یہ پری پول انجینئرڈ دھاندلی تھی۔ اسے پکڑنا اتنا آسان نہیں۔ اور بھی چمتکار ہوئے۔ سمن آباد سنٹرل ماڈل سکول میں ایک خاتون ووٹ ڈالنے گئی تو معلوم ہوا کہ اس کا ووٹ تو پہلے ہی ڈل چکا ہے۔ اس خاتون کو غالباً ہراساں بھی کیا گیا اور باہر آنے سے کافی دیر تک روکا گیا۔ چھبیس ہزار کے قریب ووٹ دیگر حلقوں سے اس حلقے میں منتقل کئے جانے کی بھی خبریں ہیں۔ حکمران لیگ اس لحاظ سے ماسٹر ہے۔ اسے انتخابی کمزوریوں کا اچھی طرح علم ہے جس کا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ دوسرا یہ کہ ضمنی انتخابات کو ویسے بھی حکومتوں کے یک طرفہ الیکشن کہا جاتا ہے اور ماضی کے نتائج بھی یہی ثابت کرتے ہیں کہ حکمران جماعت کو ہمیشہ بڑے مارجن سے کامیابی حاصل ہوئی۔ گزشتہ روز نون لیگ کی طرف سے مسلسل یہی کہا جاتا رہا کہ ہم تیس چالیس ہزار ووٹوں سے جیتیں گے۔ نون لیگ کے کلین سویپ کے تمام تر دعوے غلط نکلے۔ سردار ایاز صادق شکست سے بال بال بچے جبکہ اسی حلقے سے نون لیگ کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار اور بیگم کلثوم نواز کے بھتیجے محسن لطیف ایک ورکر کلاس سے
تعلق رکھنے والے شعیب صدیقی سے شکست کھا گئے۔ ان کی شکست نے ثابت کیا ہے کہ نون لیگ کے ووٹر بھی سڑکوں اور میٹروبسوں کے لالی پوپ سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ بھوک مٹانے کے لئے سڑکیں کھا سکتے ہیں نہ ہی میٹروبس میں سفر کرنے سے ان کے بچوں کا مفت علاج ہو سکتا ہے نہ ان کے تعلیمی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ میٹروبس یا اورنج ٹرین انہیں ہسپتال تک تو پہنچا سکتی ہے لیکن وہاں علاج کون کرے گا اس کا جواب حکمران دینے کو تیار نہیں۔ بار بار سڑکیں اکھاڑ کر دوبارہ بنانے سے حکمرانوں کی جیبیں تو بھر سکتی ہیں لیکن نون لیگ سمیت دیگر ووٹروں کے گھروں میں لوڈشیڈنگ کے اندھیرے اس سے نہیں ختم ہو سکتے۔ وزیراعظم کے قریبی عزیز محسن لطیف کے کام نہ تو میٹرو بس آ سکی نہ ہی وہ اورنج ٹرین جس کے منصوبے کی تفصیلات وزیراعظم نواز شریف ضمنی انتخاب سے ایک روز قبل پریس کانفرنس میں بتاتے رہے۔ جس حلقے میں الیکشن ہو رہا تھا ‘ اورنج لائن ٹرین نے بھی کم و بیش انہی
راستوں سے گزر کر جانا ہے۔ ٹرین نے تو نہ جانے کب ان راستوں پر سے گزرنا ہے لیکن وزیراعظم ایک روز قبل ان تمام راستوں سے خود گزرے بلکہ پریس بریفنگ میں بھی ایک ایک علاقے کا نام لیا۔ ان میں این اے 122کے ایک درجن سے زائد علاقے بھی شامل ہیں۔ حکمران بھلا یہ کیوں مانیں گے کہ ان کی اس بریفنگ اور خاص طور پر اورنج ٹرین کے علاقوں کا نام لینے کا مقصد ضمنی انتخاب پر اثرانداز ہونا تھا۔ممکن ہے وہ اس بات سے ''لا علم‘‘ ہوں کہ اگلے روز ‘ اسی شہر میں ضمنی انتخاب کی تاریخ کا سب سے بڑا معرکہ ہونے جا رہا ہے۔ عمران خان کی دوسری کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے انتخابی عمل کو شفاف بنانے میں زبردست کاوشیں کی ہیں۔اگرچہ انتخابی عمل اب بھی سو فیصد فول پروف نہیں لیکن اگر عمران خان انتخابی اصلاحات کا مسئلہ نہ اٹھاتے‘ وہ دھاندلی کے حوالے سے اپنے موقف پر نہ ڈٹتے تو آج اتنے پرسکون انداز میں یہ الیکشن کبھی نہ ہوپاتا۔ ضمنی انتخاب میں جس طرح تشہیری رقم خرچ کی گئی‘ الیکشن کمیشن کو اس کا نوٹس لینا ہو گا۔ کہا جا رہا ہے کہ جتنے پیسے علیم خان کے اس مہم میں خرچ ہوئے‘ اس سے دوگنا سردار ایاز نے خرچ کئے جبکہ حکومتی ڈراوے‘ دھمکیاں اور لالچ اس کے علاوہ ہیں‘ جن کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ تحریک انصاف کی خوش نصیبی ہے کہ اس کے پاس چودھری محمد سرور ہیں‘ اس لئے انہیں کسی دھمکی‘ لالچ اور ووٹ خریدنے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ چودھری سرور نے جس طرح اتنے کم وقت میں پارٹی کو منظم اور فعال کیا‘ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو تحریک انصاف آئندہ انتخابات میں بہت بڑا اپ سیٹ بھی کر سکتی ہے۔اگر حکومت پانچ چھ ہزارفیکٹری ملازمین کو زبردستی نئے ووٹرز بنا کر اس حلقے میں نہ لاتی تو علیم خان آرام سے جیت جاتے۔جن ووٹروں کے گزشتہ الیکشن میں اس حلقے میںووٹ بنے تھے‘ نئی حلقہ بندیاں بنا کر ان کے ووٹ دیگر حلقوں میں ٹرانسفر کر دئیے گئے اور یہی ووٹ سردار صاحب کی''جیت‘‘ کا باعث بنے۔حلقہ بندیاں تبدیل کرتے وقت ووٹوں کو آگے پیچھے کرنا دھاندلی کا پرانا طریقہ ہے۔اس سے الیکشن کمیشن اور حکمران جماعت واقف تھے لہٰذا دونوں نے مل کر ایسا چمتکار دکھایا کہ حلقے کے اصل ووٹر اپنا ووٹ تلاش کرتے رہ گئے جبکہ باہر سے ٹرکوں میں آئے ہوئے ووٹر اپنا ووٹ ڈال کر چلتے بنے۔
جس طرح ضمنی انتخاب کی مہم کے دوران لیگیوں کے پائوں اکھڑے ہوئے تھے ‘ اسی طرح ان کے لیڈر اور سیاستدان جیتنے کے باوجود سہمے سہمے دکھائی دے رہے تھے جیسے انہیں اپنی جیت پر یقین ہی نہ آ رہا ہو ۔ انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ تحریک انصاف ان کے برابر آ کھڑی ہوئی ہے اور وہ بھی اس حلقے میں جہاں سے ان کا مضبوط ترین امیدوار اور سپیکر الیکشن لڑ رہا تھا۔ گزشتہ روز جتنی مشکل سے ایاز صادق نے گلے میں پھنسی ہڈی نگلی‘ جس تیزی سے کرپشن اور بیڈ گورننس کے کارنامے حکمران اپنے نام کر رہے ہیں اور جس انداز میں حکمران ضمنی انتخاب سے صرف ایک روز قبل ڈیڑھ سو ارب کی اورنج ٹرین کا لاکھوں ٹن وزن اپنے امیدوار کے پلڑے میں ڈال کر بھی محض چوبیس سو ووٹوں کی مونگ پھلی سمیٹ سکے ہیں‘ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ اگر تحریک انصاف نے اپنی چند بنیادی خامیوں پر قابو پا لیا ‘ اگر وہ حکمران جماعت کی انجینئرڈ دھاندلیوں کو بروقت سمجھنے میں کامیاب ہو گئی تو آئندہ عام انتخابات میں نون لیگ کا حشر پیپلزپارٹی سے بھی برا ہو گا۔