دو خبریں پڑھیںاور بتائیں یہاں انسان بستے ہیں یا جانور؟یہ معاشرہ ہے یا جنگل؟
گزشتہ روز مظفر گڑھ میں پولیس اہلکاروں کی زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون نے انصاف نہ ملنے پر خود پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا لی۔ خاتون کو تشویشناک حالت میں پہلے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال مظفر گڑھ اور بعد ازاں ملتان کے نشتر ہسپتال ریفر کر دیا گیا۔ خاتون کے جسم کا اسی فیصد سے زائد حصہ جھلس گیا تھا۔ سونیا نے نزاعی بیان میں ڈاکٹروں کو بتایا '' اسسٹنٹ سب انسپکٹر اور کانسٹیبل نے مجھ سے زیادتی کی‘ میں نے ایس ایچ او کو کارروائی کے لئے درخواست دی مگر اس نے دھکے دے کر مجھے پولیس سٹیشن سے نکال دیا ‘ جس پر دلبرداشتہ ہو کر منگل کی صبح تھانہ صدر کے سامنے خود پر پٹرول چھڑک کر آ گ لگا لی‘‘۔ حسب معمول وزیراعلیٰ پنجاب نے واقعے کا نوٹس لیا جس کے بعد مقدمہ درج نہ کرنے پر ایس ایچ او انسپکٹر بلال کو (باتنخواہ) معطل کر دیا گیا۔
دوسری خبر:ملتان کے رکشہ ڈرائیور شہباز احمد کی سات بہنیں ہیں جن میں سے چار بیوہ ہو چکیں۔ شہباز رکشہ چلا کر ان کا اور بیوی بچوں کا پیٹ پال رہا تھا۔ اس کا برادری کے افراد سے چند مرلے زمین کا تنازع چل رہا تھا۔ وہ بارہا پٹواری اور تحصیلدار کے پاس گیا لیکن مخالفین تگڑے تھے لہٰذا پٹواری نے اس کی بات سننے کی بجائے مخالفین سے رشوت پکڑی اور شہباز کی ہمشیرہ کا مکان گرا دیا ۔ یہ احتجاج کے لئے تھانے پہنچے تو اُلٹا مقدمہ ان کے خلاف ہی درج کرا دیا گیا۔ شہباز اور اس کی ہمشیرہ عرصے تک مختلف محکموں کے در
کھٹکھٹاتے رہے لیکن شنوائی نہ ہوئی۔ تنگ آ کر شہباز گزشتہ روز ملتان پریس کلب جا پہنچا‘ خود پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا ئی اور پریس کلب میں گھس گیا۔ شور سن کر صحافیوں نے اسے اٹھایا اور نشتر ہسپتال داخل کرایا مگر وہ جانبر نہ ہو سکا۔ پولیس کے ''انصاف‘‘ کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ پولیس نے مرحوم کے خلاف خود سوزی کا مقدمہ بھی درج کر لیاا ور شہباز کے گھر پر حملہ کرنے والے غنڈوں کو بھی رہا کر دیا جنہیں مقامی ایم پی اے (جو یقینا حکمران جماعت کا نہیں ہو گا) کی سرپرستی حاصل ہے۔ شہباز کی بہنیں اس کی جلی ہوئی میت سے لپٹ لپٹ کر روتی رہیں‘ لیکن آسمان ٹوٹا نہ زمین پھٹی۔
سچ سچ بتائیں یہ خبریں پڑھ کر آپ کے دل پر کیا گزری۔ کوئی چوٹ محسوس ہوئی؟ یہ چوٹ ان پولیس والوں اور ان کے سرپرستوں کو کیوں محسوس نہیں ہو تی؟ حکمران اور افسران کیوں مٹی کے مادھو بنے بیٹھے ہیں؟ کیوں یہ ہماری جان نہیں چھوڑ دیتے؟ آپ کو یاد ہو گا کہ ڈیڑھ سال قبل اسی مظفر گڑھ میں کالج کی طالبہ سے زیادتی ہوئی تھی۔ وہ درخواست لے کر کئی مرتبہ تھانے گئی لیکن اس کا بھی یہی حشر ہوا جو سونیا بی بی کا ہوا تھا۔ جتوئی کے علاقے بیٹ میر ہزار خان میں اٹھارہ سالہ طالبہ کو پانچ ملزمان نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جس کا مقدمہ میر ہزار میں درج ہوا جس پر پولیس نے ایک نامزد ملزم کو گرفتار کر لیا۔ ایک ماہ تفتیش کے بعد ملزم کو پولیس نے مقدمے میں بے گناہ
قرار دے دیا جس پر انصاف کے حصول کے لئے دھکے کھانے والی فرسٹ ائیر کی طالبہ نے دلبرداشتہ ہو کر تھانہ کے داخلی دروازے کے سامنے خود پر تیل چھڑک کر آگ لگا لی۔اس واقعے کا سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس لیا تھا‘ میڈیا کو بھی ایک اور بریکنگ نیوز مل گئی تھی اور وزیراعلیٰ پنجاب بھی وہاں جا پہنچے تھے۔ معمول کے مطابق انہوں نے لواحقین کے سر پر ہاتھ پھیرا‘ انگلی ہلا ہلا کر پولیس کی سرزنش کی اور سخت ترین احکام دے کر واپس آ گئے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔اس کے بعد مظلوموں کے ساتھ کیا ہوا‘ مجرموں کو سزا ملی یا نہیں‘ حکمرانوں کی جانے بلا۔ ان کا کام اتنا ہی تھا جو انہوں نے کر دیا۔
اب سمجھ آئی کہ عوام کیوں ٹوٹ کر عمران خان کو چاہتے ہیں؟ کیوں دیوانہ وار اس کے پیچھے دوڑے چلے آتے ہیں؟ اس لئے کہ وہ سڑکوں اور پلوں سے زیادہ انسانوں کے کردار اور عزت نفس کی
تعمیر کو ترجیح دیتا ہے۔ اس میں ہزار خامیاں ہوں گی لیکن اس کی چند اچھائیاں ایسی ہیں جن کی عوام کو اشد ضرورت ہے اور جن پر کبھی دیگر سیاسی جماعتوں نے عمل نہیں کیا۔ آپ پولیس کی اصلاحات کو ہی لے لیں۔کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ کیوں خیبرپختونخوا کی پولیس کے جانب سے ایسے واقعات سامنے نہیں آتے؟ کیوں صرف پنجاب پولیس ہی بھیڑئیے کا روپ دھارے ہوئے ہے؟ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کا سب سے بڑا کارنامہ پولیس کو آزادکرنا ہے۔ دبائو‘ رشوت اور سیاسی استعمال سے آزادی کے بعدہی پولیس کچھ کر سکتی ہے۔تو پھر پنجاب کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ اگر ڈیڑھ سال قبل زیادتی کے مجرموں کو پولیس نہ چھوڑتی‘ انہیں سزا ملی ہوتی ‘ پولیس کو لگام ڈالی گئی ہوتی تو کیا آج یہ واقعہ پیش آتا؟ کیا کسی کو کسی اور کی بیٹی کی چادر تار تار کرنے کی ہمت پڑتی؟ یہ حکمرانوں کی پولیس دوست اور عوام دشمن پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج عوام حکمرانوں کے ظلم سے تنگ آ کر خود کو زندہ جلا رہے ہیں اور یہ چوتھی بار حکومت کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون میں جس طرح پولیس کو حاملہ عورتوں اور بوڑھوں کے منہ پر گولیاںٕ مارنے کے لئے استعمال کیا گیا‘ کیا اس کے بعد پولیس سے کسی انصاف اور نرمی کی توقع کی جا سکتی ہے؟ جب حکمران پولیس کو آلہ کار کے طور پر استعمال کریں گے تو لا محالہ ان کے جرائم پر پردہ بھی ڈالیں گے تو پھر یہ جمہوریت جمہوریت کے راگ کس کو سناتے ہیں؟ کیا اصل جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے؟ خدا کی پناہ ہے۔ تیسری مرتبہ یہ حکومت میں ہیں لیکن پولیس کو سیدھا نہیں کر سکے اور نہ ہی کریں گے جبکہ تحریک انصاف نے پہلی مرتبہ صوبائی حکومت ملنے پر سب سے پہلے پولیس کو ٹھیک کرنے سے آغاز کیا۔ کیا یہ سب نون لیگ کے متوالوں کو نظر نہیں آتا؟ خدا نہ کرے مظفرگڑھ جیسا واقعہ کسی کے ساتھ ہو لیکن جس کے ساتھ ہوا ہے کیا وہ ملتان ‘ لاہور یا اسلام آباد کی میٹرو بس کو جا کر چاٹے گا یا یہ دُعا کرے گا کہ پولیس اور عدلیہ کا نظام بہتر ہو؟جس کا بچہ سرکاری ہسپتال میں انکیوبیٹر یا سی ٹی سکین مشین نہ ہونے سے مرے گاوہ لاہور آ کر سگنل فری سڑکوں کے پھیرے لگائے گا یا حکمرانوں کو کوسے گا؟ وہ کیا کرے گا؟ ہم مراعات یافتہ طبقے کو غریبوں کے مسائل کا ادراک ہی نہیں۔ ذرا جا کر تو دیکھیں‘ سرکاری اور نجی ہسپتالوں‘ کچہریوں‘ پٹواریوں‘ تھانوں اور سرکاری سکولوں میں عوام کا حشر کیا ہو رہا ہے۔ جس رکشہ ڈرائیور نے ایم پی اے‘ پٹواری اور پولیس کے رویے سے تنگ آکر خود کشی کی‘ جو چار بہنوں اور درجنوں یتیم بچوں کی کفالت کرتا تھا‘ کیا وزیراعلیٰ پنجاب کاایک اور دورہ اسے اس کی زندگی واپس لوٹا سکتا ہے؟ کیا خودکشی کرنے والی طالبہ کے لواحقین کو انصاف مل سکتا ہے؟ کیا یہاں کبھی شخصیتوں کے سحر سے پاک کوئی آزاد سسٹم بن سکتا ہے؟ آخر کب تک ایسے نمائشی دورے ہوتے رہیں گے؟ کب تک حکمران پولیس کو عوام کو بھنبھوڑنے کیلئے استعمال کرتے رہیں گے؟کتنے اور ادوارشریف خاندان کو ملیں گے تو وہ پولیس ‘پٹواریوں اور اداروں کا قبلہ درست کرنے پر تیار ہوں گے؟ آخر کب تک عوام کے ووٹوں سے عوام ہی کی چمڑی ادھیڑنے اور انہیں جل جل کر مرنے پر مجبور کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا؟ کب تک؟