"ACH" (space) message & send to 7575

ٹائم پاس کریں!

وزیراعظم نواز شریف کے دورئہ امریکہ سے دو روز قبل ''عوامی رائے عامہ‘‘ کے ایک سروے میں اُن کی ریٹنگ 75 فیصد کی ریکارڈ توڑ سطح تک پہنچ گئی۔یہی نہیں بلکہ وزیراعلیٰ شہبازشریف72فیصد ریٹنگ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ عمران خان کی ریٹنگ 49فیصد جبکہ زرداری صاحب کی27فیصد قرار پائی۔ ''عوامی ‘‘رائے عامہ سروے میں مزید بتایا گیا کہ کارکردگی کے اعتبار سے مسلم لیگ (ن) کی 70فیصد‘ پی ٹی آئی44فیصد اور پیپلزپارٹی کی 36 فیصد رہی۔یہ سروے جس ادارے نے کیا میں اس کا نام جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا کیونکہ یہ سروے کس بنیاد پر کئے جاتے ہیں‘ یہ کن لوگوں سے مل کر ان کی رائے جانتے ہیں‘ یہ معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا۔ البتہ یہ اطلاعات ہیں کہ پنجاب کے سات سیکرٹری گزشتہ ماہ سروے جاری کرنے والے اس ادارے کے ساتھ ایک میٹنگ میں موجود تھے جس میں باقاعدہ طور پر انہیں سرکار کی طرف سے یہ احکامات جاری کئے گئے کہ انہوں نے سروے جاری کرنے والوں کے ساتھ کس طرح تعاون کرنا ہے اور حکومتی اقدامات کو کس طرح اُجاگر کرانا ہے۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ ایسے پروجیکٹس جو گھاٹے اور کرپشن کی نذر ہو رہے ہیں ‘ ان پروجیکٹس کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ ایسا لگے کہ یہ نہ صرف فائدہ مند ہیں بلکہ اس کے سامنے اپوزیشن کی تنقید بھی بے معنی لگے۔ ان پروجیکٹس میں نندی پور‘ قائد اعظم سولر پارک بہاولپور‘ میٹرو بس اور اورنج لائن وغیرہ کے منصوبے شامل ہیں۔ علاوہ ازیں حالیہ دنوں ایک اور چمتکار دیکھا گیا کہ چند ہفتوں میں حکومت نے ''ہیٹھ اُوپر‘‘ بجلی کے دو تین منصوبوں کا افتتاح کیا اور 2017ء کے 
آخر تک لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی نوید بھی سنائی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ ان پروجیکٹس سے اتنے سو ارب روپے کی بچت ہو گی۔ ایسا ہی بچت کا ایک اعلان این اے 122کے ضمنی الیکشن سے ایک روز قبل لاہور میں وزیراعظم نے صحافیوں سے ملاقات میں بھی کیا۔ اس طرح کی بچت کا سن کر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک بندہ کسی پٹھان سے کمبل خریدنے گیا۔ اس نے سولہ سو روپے والے کمبل کی قیمت سولہ ہزار بتائی۔ خریدار نے قیمت کم کراتے کراتے پٹھان سے کمبل آٹھ ہزار روپے میں خرید لیااور خوشی خوشی گھر لے جا کر بتایا کہ وہ سولہ ہزاروالا کمبل آٹھ ہزار میں لے آیا ہے۔ یوں اس نے پورے آٹھ ہزار روپے بچائے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ اس کی بیوی کہتی ہے کہ میں نے تویہ کمبل چار ہزار میں نہیں خریدا تھا نگوڑے۔ حکومت کے بجلی کے نئے منصوبوں میں اربوں روپے بچانے کے دعوے بھی اسی قسم کے ہیں۔ جو منصوبہ پچاس ارب میں مکمل ہو سکتا ہے‘ اس کے بارے میں عوام کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ ڈیڑھ سو ارب میں مکمل ہونا تھا لیکن ہم نے ایسی کمپنیاں منتخب کیں‘ ہم نے ایسی ''شفاف ‘‘ ڈیل کی کہ یہ منصوبہ اب صرف سو ارب میں مکمل ہو گا لہٰذاقوم کو مبارک ہو‘قوم کے قیمتی پچاس ارب روپے بچالئے گئے ہیں۔ نیلم جہلم پروجیکٹ کو ذرا یاد کیجئے۔ یہ منصوبہ 1988ء میں 34 ارب روپے سے شروع ہوا۔ بیس برس بعد2008میں پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو اس کی لاگت بڑھانے کی سمری بنی جو 277 ارب تک پہنچ گئی۔ اب وفاقی حکومت نے منصوبے کی لاگت میں اضافے کی سمری ایکنک کو ارسال کی ہے جس کے تحت اس میں 138ارب روپے کا اضافہ کیا جائے گا یوں اس کی نئی لاگت 416ارب روپے تک پہنچ جائے گی۔ 
چلیں لمحہ بھر کو سچ مان لیتے ہیں کہ یہ سروے درست ہے اور وزیراعظم کی مقبولیت 75فیصد تک بڑھ گئی ہے تو پھر ہم چند انڈیکیٹرز کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ اگر یہ انڈیکیٹرز اس سروے سے میچ کر جاتے ہیں تو اس سروے کو درست مان لیں اور اگر الٹ نکلیں تو جمہوریت کا حسن سمجھ کر نظر انداز کر دیجئے۔ کسی سے نہیں بلکہ خود سے چند سوالات کر لیں۔ آپ دیکھیں کہ اڑھائی سال قبل جب سے موجودہ حکومت آئی ہے آپ کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ اگر حکمرانوں اور حکمران جماعت کی مقبولیت بڑھ گئی ہے تو لامحالہ آپ کے حالات زندگی پر بھی کچھ نہ کچھ فرق پڑا ہو گا۔ ہمیں علم ہے کہ حکومت کا کام آئین کی روشنی میں عوام کو بنیادی حقوق کی بلا امتیاز فراہمی ہے۔ ان حقوق میں اہم ترین تعلیم ہے۔ آپ دیکھیں اگر تو آپ کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں‘ انہیں وہاں مفت اور معیاری تعلیم‘ مفت کتابیں اور
سہولیات میسر آ گئی ہیں‘ سکولوں میں گھوڑوں اور خچروں کی جگہ استاد اور طالبعلموں نے لے لی ہے اور یہ تعلیم کے ساتھ واقعی انصاف کر رہے ہیں تو یہ سروے سو فیصد درست ہے۔ اگر آپ بیمار ہوتے ہیں اور سرکاری ہسپتال میں جا کر خود کو مطمئن پاتے ہیں‘ آپ کو وہاں معیاری طبی سہولیات مفت اور بروقت ملتی ہیں اور ڈاکٹر ہڑتال کرنے کی بجائے آپ کا علاج کرنے کو ترجیح دیتا ہے تو یہ سروے واقعی درست ہے۔ اگر آپ پینے کا پانی بازار سے خرید کر نہیں لاتے‘ آپ کے گھر کے نل سے ہی صاف پانی آتا ہے اور آپ یہ پانی پی کر ہیپاٹائٹس اور پیٹ کی بیماریوں کا شکار نہیں ہوتے تو یہ سروے بالکل سچ ہے۔ اگر آپ کے ساتھ کوئی ظلم ہوتا ہے ‘ آپ تھانے جاتے ہیں اور تھانے میں ایس ایچ او آپ کو اُلٹا کر کے رولر پھیرنے کی بجائے آپ کی ایف آئی آر لکھ دیتا ہے اور آپ کو انصاف بھی دلاتا ہے تو مان لیںیہ سروے درست ہے۔ اگر آپ پٹواری کے پاس جاتے ہیں اور وہ رشوت مانگے بغیر آپ کا کام کر دیتا ہے تو یہ سروے درست ہے۔اگر آپ ٹیکس دیتے ہیں‘ ہر سال ریٹرن جمع کراتے ہیں اور اس کے بدلے حکمران غیرملکی دوروں میں مہنگے ترین ہوٹلوں کی بجائے سادہ قیام گاہوں میں ٹھہر کر آپ کے ٹیکس کا پیسہ بچاتے ہیں اور یہ پیسہ بعد میں آپ کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں تو یہ سروے درست ہے۔اگر آپ کی طرح آپ کے حکمران بھی گھر کا خرچ عوام کے پیسوں کی بجائے اپنی تنخواہ سے کرنے لگے ہیں تو یہ سروے بالکل ٹھیک ہے۔ اگر ڈھائی سال قبل آپ کی ماہانہ تنخواہ سے اخراجات کے بعد کوئی پیسے نہیں بچتے تھے اور اب بچنے لگے ہیں تو یہ سروے درست ہے۔ اگر آپ چنگ چی رکشہ چلاتے ہیں‘ ٹریفک وارڈن آپ کا بلاوجہ چالان نہیں کرتا اور آپ وارڈن کے رویے سے تنگ آ کر اپنے ہی رکشے کوآگ نہیں لگا لیتے تو یہ سروے درست ہے۔اگر آپ کے صوبہ میں کوئی وزیر کرپشن کرتا ہے اور اس کی ویڈیو ریکارڈ ہو کر پورے میڈیا پر پھیل جاتی ہے اور حکمران اپنے اس وزیر کو بچانے کی بجائے اسے جیل کا راستہ دکھاتے ہیں تو یہ سروے درست ہے۔ اگر آپ ووٹر ہیں اور آپ کے ووٹ آخری وقت میں حلقے سے باہر نہیں ٹرانسفر کئے جاتے‘ آپ کے شناختی کارڈ پر کوئی اور ووٹ نہیں ڈال آتا تو یہ سروے درست ہے۔آپ ماڈل ٹائون کے رہائشی ہیں‘ پولیس آپ پر گولیاں برسا دیتی ہے اور اُلٹا آپ پر پرچہ نہیں کاٹتی بلکہ پولیس کو گولیاں چلانے کا حکم دینے والوں کو پکڑ لیا جاتا ہے تو فوراً یقین کر لیں سروے ٹھیک ہے اور اگر آپ گوجرانوالہ کے رہائشی ہیں اور آپ کے سامنے گوندلانوالہ کا ایک محنت کش گوجرانوالہ کے سول ہسپتال میں اپنی بیوی کو لے جاتاہے اور ڈاکٹر اسے دیکھنے سے انکار یا تاخیر نہیں کرتے اور اس کی بچی ہسپتال کے صدر دروازے پر کھڑے رکشے میں پیدا ہو کر فوت نہیں ہوجاتی تو مان لیں یہ سروے درست ہے۔ 
چلیں چھوڑیں ان باتوں کو۔آج کل بڑی مزے مزے کی ویڈیوز آئی ہوئی ہیں۔ موبائل اٹھائیں‘ فیس بک کھولیں اور ٹائم پاس کریں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں