اس نے سفوف کی چٹکی بھری۔ بائیں ہاتھ کی انگلی سے اپنا بایاں نتھنا دبایا‘ کریم رول کی شکل کے کاغذ کو ناک کے قریب لائی اور میز پر پڑے سفوف پر جھک گئی‘ لمبا سانس کھینچا اور ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔ یہ عمل اس نے چھ سات مرتبہ دہرایا‘ سانس باہر نکالنے کے بعد وہ سر کرسی کے ساتھ لگا کر چند سیکنڈز کیلئے آنکھیں بند کر لیتی۔ یہ ساراعمل تین سے چار منٹ میں مکمل ہو گیا۔اب وہ خود کو بہت ریلیکس محسوس کر رہی تھی۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ میں نے والدین کے حوالے سے کالم لکھا تھا۔ یہ کالم اس لڑکی نے پڑھا اور مجھے فون کرکے ملاقات کا وقت مانگنے لگی۔ میں مسلسل انکار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ اس نے مجھے ملاقات کا مقصد بتا دیا۔ کہنے لگی ‘ وہ اپنے ممی پاپا کے بارے میں مجھے کچھ بتانا چاہتی ہے۔ وہ ان کے برتائو سے تنگی محسوس کر رہی تھی؛ تاہم اس کی یہ حرکت دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔وہ بولی '' مجھے معلوم ہے یہ آپ کیلئے حیران کن ہے لیکن میرے لیے نہیں اور میں ہی نہیں بلکہ پوش علاقوں کے سینکڑوں لڑکے لڑکیاں روزانہ اپنی محرومیاں‘ تنہائیاں اور اداسیاں ایسے ہی دور کرتے ہیں۔ ‘‘ میں نے کہا '' لیکن تمہیں اس راستے پر لگایا کس نے‘‘ وہ ہنس کر بولی ''میرے ممی پاپا نے ‘‘ میں نے تقریباً چیخ کر پوچھا '' کیا مطلب ‘‘ ۔ کہنے لگی '' ہمارے پاس سب کچھ ہے۔ گھر‘ گاڑیاں‘کاروبار‘ زمینیں ‘ سب کچھ۔ ممی پاپاآئے رو زشاپنگ کے لئے دبئی ‘ لندن اور سنگاپور جاتے ہیں ‘ گھر میں نوکروں کی فوج ہے جو کھانا پکانے سے لے کر ڈرائیونگ تک ہر کام کرتی ہے‘ پانی پینے کے لئے بھی ہمیں ہاتھ تک نہیں ہلانا پڑتا‘ ہر کمرے میں بڑی بڑی ایل سی ڈیز اور سائونڈ سسٹم موجود ہے‘ ہر
کوئی اپنے موبائل اور ٹی وی میں کھویا رہتا ہے ‘ ہمارے پاس سب کچھ ہے لیکن ایک چیز کی کمی ہے۔ وہ محبت ‘ وہ پیار اور وہ چاہت جو والدین اور بچوں کا رشتہ مضبوط کرتی ہے‘ وہ موجود نہیں۔ پاپا کو اپنا کاروبار بڑھانے‘ بزنس میٹنگز کرنے اور بیرون ملک جانے سے فرصت نہیں اور ماما...ماما کو اپنی اولاد سے زیادہ اپنی سہیلیاں‘ کلب اور آئوٹنگ عزیز ہے۔ وہ بولی '' آپ نے درست لکھا۔ بچوں کو والدین کی خدمت اور اطاعت کرنی چاہیے لیکن جو والدین اپنے بچوں کو اس طرح اکیلا چھوڑ دیں‘ وہ بچے کہاں جائیں۔ اگر ان کی تربیت میں کوئی کسر رہ جاتی ہے تو یہ کس کا قصور ہو گا۔ جن بچوں کے والدین انہیں ٹائم نہیں دیتے‘ ان کی پرابلمز نہیں سنتے اور انہیں اِگنور کرتے ہیں تو ایسے بچے پھر ایسے ہی راستوں کے مسافر بن جاتے ہیں‘ وہ انہی چیزوں میں حل تلاش کرتے ہیں‘ انہی میں سکون پاتے ہیں۔میں آپ کو بتائو ں پوش علاقوں میں تو یہ سب ویسے بھی اب فیشن بنتا جا رہا ہے۔ جگہ جگہ کیفے اور آئس کریم پارلر کھل گئے ہیں۔ بچے اپنے والدین سے دور ہو چکے ہیں اور مختلف قسم کے گینگز جو ہر پارلر ‘ تعلیمی ادارے‘ ریسٹورنٹ اور سوشل میڈیاپر نظر رکھتے ہیں‘اس دوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘ وہ بچوں اور نوجوانوں کے قریب ہو کر ان کی محرومیوں اور اداسیوں کو کیش کرواتے ہیں‘ ان سے ہمدردی جتاتے ہیں اور بعدمیں اس ہمدردی کو ایسی خوفناک دلدل میں تبدیل کر دیتے ہیں جس سے باہر نکلنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ ٹھیک ٹھاک پیسے بھی بٹورتے ہیں ‘بلیک میل بھی کرتے ہیں اور غلط کام تک کروانے سے باز نہیں آتے جبکہ بچہ جو اس دلدل میں ایک بار پھنس جائے ‘ وہ بدنامی اور خوف کے باعث خاموش رہتا ہے۔ میں نے بات کاٹتے ہوئے پوچھا '' کیا تمہارے ممی پاپا کو علم ہے تم یہ سب کر رہی ہو‘‘ اس نے ایک اور قہقہہ لگایا اور سگریٹ سلگاتے ہوئے بولی '' ممی پاپا کو کیا۔ ہم مریں یا جیئیں۔ انہیں تو صرف اپنے سٹیٹس‘ اپنے بزنس اور اپنی پرسنیلیٹی سے غرض ہے۔ انہیں پارٹیاں اٹینڈ کرنے‘ شاپنگ اور مصنوعی دنیا سے فرصت ملے تو وہ ہمارے بارے میں سوچیں۔ آپ میری داستان ان فیملیوں تک پہنچا دیں جہاںوالدین بچوں سے لاپروا اور اپنی زندگی میں مگن ہیں۔وہ
والدین جو اپنی اولاد کے مسائل‘ ان کی خوشیوں‘ ان کے دکھوں کو شیئر نہیں کرتے اور جو انہیں صرف دولت اور سہولیات دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا‘ میری کہانی ایسے گھرانوں اور ایسے والدین کیلئے ایک سبق بھی ہے اور کھلی کتاب بھی ‘‘یہ کہہ کر لڑکی نے سگریٹ کا لمبا کش لیا اور ہونٹ گول کر کے دھواں فضا کی طرف اچھال دیا‘ رِنگ کی شکل میں دھوئیں کا ایک گولا گھومتا ہوا چھت کی طرف چلا گیااور میں اس گولے کو دیکھتا رہ گیا۔
گزشتہ روز کراچی سے ایک تیرہ سالہ بچی ملتان پہنچ گئی۔ بسوں کے ایک اڈے پر گھبرائی کھڑی تھی کہ کسی بزرگ نے پریشان دیکھ کر دارالامان پہنچا دیا۔ بتایا‘ وہ کراچی سے ملتان اکیلی آئی ہے اور اس کے گھر والوں کو اس بارے میںکچھ معلوم نہیں۔ گزشتہ ایک سال سے فیس بک پر ایک نوجوان لڑکے سے بات چیت کر رہی تھی ‘ یہ بات چیت دوستی میں بدل گئی۔ نوجوان نے اسے خواب دکھلائے تو وہ سکول بیگ لے کر اس سے ملنے ملتان پہنچ گئی۔ بیگ سے کلر پینسلز‘ ڈرائنگ کی کاپیز اور سٹیشنری کا سامان نکلا۔ ٹیوشن پڑھنے کے بہانے گھر سے نکلی اور پھر واپس نہیں گئی۔ میڈیا کے ذریعے خبر نکلی تو باپ فوراً ملتان پہنچا اور بچی کو لے کر روتا ہوا واپس چلا گیا۔ سوال یہ ہے کہ آج کی نسل اور وہ بھی اتنے چھوٹے بچے اس طرح کے کام کیوں کر رہے ہیں، منشیات کا استعمال اور عشق کا جنون نئی نسل کو کس طرف لے جا رہا ہے‘ یہ ان تمام والدین کے لئے سوچنے کا مقام ہے جو بچوں کو وقت نہیں دیتے ‘ جو ان سے بے پروا ہیں‘ جو بچوں کو کمپیوٹر‘ موبائل اور انٹرنیٹ دے کر سمجھتے ہیں
کہ شاید ان کا فرض پورا ہو گیا۔اب ایک نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔آج کل خصوصاً پنجاب حکومت کا سائبر ونگ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر آنے والے مواد کو باریک بینی سے دیکھ رہا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں پچاس کے قریب لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا اور سینکڑوں اکائونٹس بھی بلاک کئے گئے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ فیس بک پر جو مرضی لکھ دو یا فارورڈ کر دو‘ کوئی انہیں پکڑ نہیں سکے گا تو یہ ان کی بھول ہے۔ یہ بھی خدشہ موجود ہے کہ حکمران جماعت کے خلاف تنقید کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہو گااور ایسی ویڈیوز، تصاویر اور تحاریرجن میں حکمران خاندان یا اندازِ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہو گا‘ ان اکائونٹس کو بند اوراکائونٹ ہولڈر کو گرفتار کر لیا جائے گا۔اب والدین پر دہری ذمہ داری عائد ہوچکی ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ رابطے میں رہ کرانہیں سوشل میڈیا کے استعمال بارے سمجھائیں۔ داعش سوشل میڈیا کے ذریعے ہی نوجوانوں کو ورغلا رہی ہے چنانچہ اس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ خطرات کا دائرہ وسیع ہو چکاہے۔ حکومت کبھی جائز تنقید برداشت کرے اور کسی کے ساتھ ناجائز سلوک روا نہ رکھے ‘ عوام کی خفیہ نگرانی کرنے پر سارا زور نہ لگائے بلکہ اپنی گورننس کو بہتر بنانے کے لئے بھی وقت نکالے۔ فی الوقت پاکستان میں سوشل میڈیا پر پکڑ دھکڑ کا موسم آ چکا ہے۔والدین اور بچوں کے درمیان دوریاں بڑھ جائیں تو اولادبآسانی کسی فتنے یا فساد کا شکارہو سکتی ہے‘ یہ بات کسی مشکل میں پھنسنے سے قبل ہی سمجھ آ جائے تو بہتر ہے۔