انہیں کون سمجھائے‘ جنگیں جھوٹ ‘بوکھلاہٹ اور بدحواسیوں کے بل پر نہیں جیتی جاسکتیں۔
مانا‘ کہ سردی خاصی بڑھ گئی تھی لیکن کیا پہلی مرتبہ؟ کیا گرمیوںمیں جب لُو سے بچے جھلس رہے ہوتے ہیں ‘ کبھی حکومت نے اس طرح چھٹیاں دیں؟ کیا گند کو پلنگ کے نیچے کر دینے سے کمرہ صاف ہو سکتا ہے؟ سردی کی آڑ لینے کی بجائے سچ بولا جاتا تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا۔ سب یہی پوچھتے‘ڈیڑھ برس میں بھی سکیورٹی انتظامات مکمل کیوں نہ کئے۔ اتنی سبکی تو نہ ہوتی۔ سبھی جانتے ہیںتعلیمی اداروں سمیت پورے ملک کو سکیورٹی خطرات لاحق ہیں۔ اے پی ایس کے بعد ایک سال تعلیمی ادارے محفوظ رہے۔ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ہوا تو ملک بھر میں سکیورٹی کے ازسر نو انتظامات یقینی امر تھا۔ اس سے کوئی سر پھراہی انکار کر سکتا تھا۔ لیکن اس قدر بے دلی اور بدانتظامی کا مظاہرہ ہو گا‘ خاص طور پر پنجاب حکومت کی طرف سے‘ کبھی سوچا نہ تھا۔ اورنج لائن کا معاملہ ہو یا پھر میٹرو بس منصوبہ‘ حکمرانوں کی پھرتیاں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔بڑی سے بڑی رکاوٹیں یوں دُور کی جاتی ہیں گویا دشمن ملک فتح کیا جا رہا ہو۔ اندھے سڑکوں پر رُلتے رہیں‘ معذور نوکریوں کا کوٹہ لینے کو ترستے رہیں‘ اساتذہ پولیس کے ڈنڈے کھاتے رہیں‘نرسیں چار چار راتیں مال روڈ پر گزار دیں‘خادم اعلیٰ چند کوس دور موجود ہونے کے باوجود بعض اوقات‘ سامنے آتے ہیں نہ ایکشن لیتے ہیں۔ اسی جذبہ اور اسی کمٹمنٹ کے ساتھ اگر دہشت گردی کی جنگ لڑی جاتی تو سکولوں کو مقفل کرنا پڑتا‘ نہ سردی کے کمبل کے پیچھے چھپنا پڑتا۔ کمال کی بات یہ ہے‘ جس روز چھٹیاں
ہوئیں‘ اس سے اگلے روز موسم کھلنا شروع ہو گیا۔ سردی کا زور ٹوٹنے لگااور دھوپ کی شدت بھی بڑھ گئی تو پھر جس طرح آدھی رات کو ایک ایس ایم ایس پر صوبائی وزیر تعلیم نے سکول بند کرائے‘ کیا دھوپ نکلنے پر کھلوانے کا اعلان نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سالانہ امتحانات سر پر ہیں۔ ایسے میں ایک ایک دن اہم ہوتا ہے۔اکٹھی آٹھ دس چھٹیاں۔ خدا کی پناہ ہے ‘ طالبعلموں کا بیڑہ غرق کرنے کا ارادہ ہے؟ تعلیمی معیار پہلے ہی گراوٹ کا شکار ہے‘ رہی سہی کسر حکمران نکال رہے ہیں۔بچوں کو تو چھٹیوں سے غرض ہوتی ہے۔ اس مرتبہ وہ بھی حیران تھے۔ وجہ پوچھتے رہے۔ بھائی یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ لوگوں کے اندر کا لاوا لمحہ بہ لمحہ یہاں نکلتا ہے۔پل بھر میں یہ خبر آگ کی طرح وائرل ہو گئی کہ حکمرانوں نے سکیورٹی انتظامات کے باعث چھٹیاں کی ہیں۔ جس قوم کے بچوں کو آپ بچے سمجھ رہے ہیں‘ یہ اگر مگر اور فرینڈلی قسم کی سیاست خوب جان چکے ۔اس سے کہیں بہتر تھا کہ حکومت اعلان کرتی کہ والدین اور سول سوسائٹی سکیورٹی انتظامات بہتر بنانے کے لئے اپنی اپنی تجاویز پیش کریں۔ مگر ان کا بوجھ تعلیمی اداروں اور والدین پر لادنا کیسے مناسب ہے۔ کیا پانچ مرلے میں قائم سکول جی ایچ کیو سے زیادہ سکیورٹی رکھتا ہے؟یہ کام تو نیشنل ایکشن پلان کے تحت ترتیب پانا ہے۔جو کام سیاستدانوں کے کرنے کے ہیں‘ وہ اس طرح کھچ مار کر کریں گے تو لامحالہ یہ ذمہ داری بھی فوج کو ادا کرنا پڑے
گی۔ پھر یہ چیخیں گے کہ فوج سول معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ تو پھر اس طرح کی ٹامک ٹوئیاں مار کر یہ کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں؟ قوم کو؟ طالبعلموں کو؟ شہیدوں کے ورثا کو؟ کس کو؟
چلیں ‘ دہشت گردی کی جنگ پہلے نہ تھی‘ مان لیتے ہیں آہستہ آہستہ یہ اس سے نمٹنے کا طریقہ سیکھ لیں گے لیکن معیشت سے تو یہ پہلی مرتبہ نہیں کھیل رہے۔ دو مرتبہ پہلے بھی بیڑہ غرق کیا۔ اب تیل کی قیمتوں سے عوام کی چِھل اتارنے میں لگے ہیں۔ وزیراعظم مسرت کے ساتھ فرماتے ہیں‘ عوام کو پانچ روپے کا ریلیف دے دیا۔کیا اوگرا بھارتی ادارہ ہے یا اس کا دماغ چل گیا تھا کہ اس نے گیارہ روپے کمی کی سمری بھیجی اور آپ نے چھ روپے کاٹ لئے اور پانچ روپے سے حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی۔ جس وقت پٹرول ستتر روپے بک رہا تھا‘ آپ تب بھی تیس سے چالیس روپے فی لٹر اس غریب آدمی سے کما رہے تھے جو سارا دن رکشہ یا موٹر سائیکل چلا کر بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی اکٹھی کرتا ہے۔ہر مرتبہ آپ بڑاحصہ رکھ کر چند دانے عوام کے سامنے پھینک دیتے ہیں گویا یہ انسان نہیں بلکہ بے زبان جانور ہوں۔چلیں مان لیتے ہیں‘ حکومتیں اسی طرح چلتی ہیں۔یہ سارا پیسہ حکومتی خزانے میں جاتا ہے۔ اس سے قرضے اتارے جاتے ہیں‘ سرکاری مشینری اور سرکاری ادارے چلتے ہیں‘ تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں اور انفراسٹرکچر پر یہ پیسہ صرف کیا جاتا ہے لیکن جناب! ایک طرف تو آپ کی حکومت اطلاعات تک رسائی کا قانون نافذ کرنے میں لگی ہے دوسری جانب ‘آپ کے وزیرخزانہ نے کبھی ان معاملات کی تفصیل دینا مناسب سمجھا؟ کیا عوام کو بتانا پسند فرمائیں گے کہ گزشتہ ایک برس میں جب خام تیل کی قیمت 88سے 28ڈالر فی بیرل پر آ گئی تو حکومت کے خزانے میں کتنی رقم اکٹھی ہوئی؟ پٹرولیم کا ریلیف عوام کو کم سے کم دینے کے لئے دوسری طرف ٹیکسوںکی جو شرح بڑھائی گئی‘ وہ پیسہ کہاں استعمال ہوا؟ ایک عام شخص جس کی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار ہے‘ وہ اوسطاً مہینے کا چھ ہزار کا پٹرول ڈلواتا ہے اور اس میں سے حکومت کو تین ہزار روپے ٹیکس دے رہا ہے یعنی سال کے چھتیس ہزار۔ تو کیا یہ چھتیس ہزار اسے کسی سہولت کی شکل میں واپس ملتے ہیں؟کیا وہ سرکاری ہسپتال جاتا ہے تو اس کا مفت نہ سہی‘ قابل قبول علاج ہوتا ہے؟ کیا سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی طبی آلات ‘ عملہ اور ادویات موجود ہیں؟ کیا اس کے بچے سرکاری سکولوں میں نجی معیارجیسی بہترین تعلیم حاصل کر سکتے ہیں؟ گزشتہ ایک سال میں سفر کی مقامی سہولیات بہتر ہوئیں؟ صرف اور صرف تیل کی قیمتوں کے فرق سے ایک برس میں حکومت کو جو کھربوں اکٹھے ہوئے‘ ان سے ایک عام آدمی کی زندگی میں کیا فرق پڑا‘ وہ کس قدر خوشحال ہوا‘ اسے روزگار کے کتنے نئے مواقع میسر ہوئے‘ مہنگائی کتنی کم ہوئی‘ کتنی نئی صنعتیں لگیں‘ لوڈشیڈنگ میں کیا فرق پڑا‘ آخر کچھ تو بتائیں عوام کو کہ ان کی جیب سے لُوٹا گیا پیسہ آخر جاتا کہاں ہے اور کیا حکومتی خزانے بھرنے کا ایک یہی راستہ ہے کہ عوام کی ضروریات پر جبری اور بالواسطہ ٹیکسوں کا سانپ بٹھا دیا جائے؟
نہیں جناب نہیں‘ جھوٹ اور بوکھلاہٹ سے نہیں‘ جنگیں اخلاص‘ کمٹمنٹ اور سچ کے ہتھیاروں سے جیتی جاتی ہیں۔ عوام کی آنکھوں میں یوں دُھول نہیں جھونکی جا سکتی‘ البتہ دہشت گردوں کو ہلہ شیری ضرور ملتی ہے۔ اس طرح کے ڈنگ ٹپائو اعلانات سے بچوں کی نفسیات پر تو جو اثر پڑے گا‘ وہ پڑے گا‘ کیا دہشت گرد اس اندازِحکمرانی پر ہنس نہ رہے ہوں گے؟ ہماری کمزوریاں اور نالائقیاں کیا ان کے حوصلے نہ بڑھا رہی ہوں گی؟ بدحواسیاں اور قلابازیاں بنے بنائے قلعے زمین بوس تو کر سکتی ہیں لیکن اس طرح فصیلیں مضبوط نہیں ہوتیں۔ جو ڈبل مائنڈڈ حکمران دہشت گردی اور تیل کی قیمتوں سے بھی اپنے سیاسی فائدے ڈھونڈیں‘ جو ساٹھ ہزار شہیدوں کے خون کو بہانوں اور بیانوں سے مٹانے کی کوشش کرنے لگیں‘جو آدھی رات کو جلد بازی میں اوٹ پٹانگ اور ہونق قسم کے فیصلے کریں اور ان فیصلوں پر سردی گرمی ‘چونکہ چنانچہ کا تڑکا لگانے کی کوشش کریں‘ان کے بارے میںآج بچہ بچہ یہی کہہ رہاہے ...کیا یہ لڑیں گے دہشت گردی کی جنگ؟