مصطفی کمال کے بارے میں یہ کہنا کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ لائی‘ اس لیے درست نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ان کے ذریعے کچھ ایسے انکشافات کرائے جاتے جن کا حکومت ِ وقت یا اسٹیبلشمنٹ کو براہ راست فائدہ ہوتا۔انہوںنے رحمان ملک کے سوا‘ جو کچھ بھی کہااس میں کوئی بات ایسی نہ تھی‘ کوئی الزام ایسا نہ تھا جو ان سے قبل کسی اور نے نہ لگایا ہو۔ حتیٰ کہ پارٹی کے اندر سے بھی ایسی آوازیں اٹھتی رہیں۔یہ اور بات ہے کہ اگر مصطفی کمال کے ان دہرائے گئے انکشافات سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ ہو جاتا ہے ‘ سندھ بالخصوص کراچی امن کا گہوارہ بن جاتا ہے اور ایم کیو ایم اپنا احتساب خود کرنا شروع کر دیتی ہے تو اس کا کریڈٹ بہر حال مصطفی کمال کو جائے گا۔ رہا یہ سوال کہ ایم کیو ایم کو ان الزامات سے کوئی سیاسی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو سکتا ہے‘ تو ایسا نہیں ہو گا کیونکہ اس سے قبل صولت مرزا نے جب پھانسی گھاٹ سے اپیل کی تھی کہ ایم کیو ایم نے ان کی زندگی تباہ کر دی‘ اس بیان کے باوجود ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہوئی اور آج بھی اس کا اچھا خاصا ووٹ بینک اپنی جگہ موجود ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہ دیکھو کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے‘ یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے۔ مصطفی کمال کے بارے میں سب یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کون کہہ رہا ہے۔ وہ شخص جس نے کراچی کا نقشہ تبدیل کر دیا‘ جسے دنیا کا بہترین میئر کسی ملکی ادارے نے نہیں بلکہ عالمی ادارے نے قرار دیا‘ اگر وہ شخص کچھ کہہ رہا ہے تو اس کی بات ردی کی
ٹوکری کی نذر نہیں کی جا سکتی ۔ سب سے اہم یہ کہ ایم کیو ایم کے دیگر لیڈران کے برعکس ان پر کرپشن‘ دہشت گردی یا دھوکہ دہی کا کوئی الزام موجود نہیں۔ وہ خود کہہ چکے ہیں جب انہوں نے ملک چھوڑا‘ ان کے پاس کوئی شادی ہال‘ پٹرول پمپ‘ زمینیں حتیٰ کہ اپنا گھر تک موجود نہیں تھا۔ میں نے مصطفی کمال کی پریس کانفرنس بغور دیکھی ہے۔ وہ انتہائی بدلے ہوئے انسان نظر آ رہے تھے۔ ایسا لگتا ہے جلاوطنی کے دوران کسی مذہبی شخصیت سے ان کی قربت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دوران خطاب بار بار دینی حوالے دے رہے تھے۔ مثلاً یہ کہ سب نے اپنی اپنی قبر میں جانا ہے۔ میں نے اپنا حساب دینا ہے‘ الطاف حسین اور دیگر نے اپنا دینا ہے۔ ایک ٹاک شو میں انہوں نے جیب سے ایک کاغذ نکال کر ایک آیت اور اس کا ترجمہ بھی پڑھا جس میں کہا گیا تھا کہ انسان کی موت و حیات کا مالک اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ وہی رزق دیتا ہے اور وہاں سے دیتا ہے جہاں سے انسان گمان بھی نہیں کر سکتا۔ انہوں نے سچ کہا کہ دین کو سمجھنے کے لئے انسان کا مولوی ہونا ضروری نہیں۔ کوئی بھی ذی ہوش چاہے وہ پڑھنا لکھنا بھی نہ جانتا ہو‘ اگر چاہے تو دین کی اصل روح کو سمجھ سکتا ہے۔ ان کی پریس کانفرنس کے یہی پہلے دو حصے دل کو چھو لینے والے تھے۔ یہ سیاستدانوں بلکہ ہر شخص کے لئے تھے۔ ہر اس شخص کے لیے جو اپنے فائدے کے لئے کسی کا نقصان کرتا ہے‘ اپنے بچوں کو رزق کھلانے کے لئے کسی کے بچوں کے منہ سے رزق چھینتا ہے اور اپنی جان بچانے کے لئے کسی اور کی جان لیتا ہے‘ آنسووئوں سے بھرے ان کے اس خطاب کا اثر ان علما و خطبا سے کہیں زیادہ تھا‘ جو فرقہ پرستی کی آڑ میں دین فروشی کا کاروبار کرتے ہیں‘ خود کسی بات پر عمل نہیں کرتے لیکن دوسروں کو تلقین کرتے ہیں۔ سچ سچ بتائیں مصطفی کمال نے جو کہا‘ اس میں کیا غلط ہے۔ ہم لوگ جب گناہ کی کسی ڈگر پر چل پڑتے ہیں‘ توکیا شیطان ہمارا بھرپور ساتھ نہیں دیتا؟ اور جب ہم اس راہ سے ہٹنے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا وہ ہمارے راستے میں کھڑا نہیں ہو جاتا؟ ہم میں سے کتنے ہیں جو برائی کو برائی کہتے ہیں‘ جو جھوٹ بولنے والے کو منہ پر جھوٹا کہتے ہیں‘ جو غیبت زدہ محفل سے
یہ کہہ کر اٹھ جاتے ہیں کہ قرآن کہتا ہے یہ گناہ اپنے سگے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے‘ ہم میں سے کتنے ناپ تول کی کمی کو گناہ شمار کرتے ہیں‘ کیا آج ہمارے تاجر‘ ہمارے کاروباری ادارے ‘ ادویہ ساز کمپنیاں قرآن پر حلف اٹھا کر کہہ سکتی ہیں کہ وہ جو بیچ رہے ہیں‘ وہ خالص ہے‘ ملاوٹ سے پاک ہے‘ اس میں غیر معیاری اور حرام اشیا کی آمیزش نہیں؟ کل سعودی عرب میں ایک پاکستانی پر یہ جرم ثابت ہوا کہ وہ کتے کا گوشت بیچتا تھا۔ کیا ہم اتنا گر گئے ہیں کہ دوسروں کے بچوں کو گدھوں اور کتوں کا گوشت کھلا رہے ہیں‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سے غلیظ اور حرام کاروبار کوئی اور ہو نہیں سکتا‘ ہم شیطان کی بتائی ہوئی ڈگر پر چلتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں مصطفی کمال پہلے کیوں نہیں بولا جب وہ اقتدار میں تھا‘ میں کہتا ہوں‘ اقتدار میں وہ بولتا تو اس کے پاس پروٹوکول بھی ہوتا اور جاہ و جلال بھی جو اسے بچانے کو آتا‘ آج وہ کرائے کے مکان میں بیٹھا ہے‘ نہ اس کے پاس سینیٹرشپ ہے‘ نہ وہ کراچی کا میئر ہے‘ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے اس کی رکنیت تک ختم کر دی ہے‘ آج وہ تن تنہا کھڑا اس الطاف حسین اور اس ایم کیو ایم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بول رہا ہے‘ جس کا نام لیتے ہوئے آج سے ایک سال قبل ہر کوئی دائیں بائیں دیکھتا تھا‘ کہ کوئی سن ہی نہ لے تو یہ بہادری اور عظمت نہیں تو اور کیا ہے؟اس نے پاکستان کے جھنڈے کو اپنی سیاسی جماعت کا جھنڈا کہا۔ یقینا اس نے یہ علامتاً کہا۔ مطلب یہی تھا کہ سب سیاسی جماعتیں‘ سب سیاستدان اگر اس جھنڈے کے نیچے آجائیں تو وہ اس پاکستان کی تعبیر پا لیں گے جس کا خواب محمد علی جناح ؒنے دیکھا تھا۔ آج اگر وہ قوم کو اکٹھا کرنے کی نیت سے پاکستان کا جھنڈا اٹھا کر سڑکوں پر آتا ہے تو ملک کا کوئی قانون ‘ کوئی آئین اسے اس سے روک نہیں سکتا اور ایک وہ لوگ ہیں جو اسے حکومت کا آلۂ کار قرار دے رہے ہیں۔ ہم کراچی سمیت ملک بھر میں امن بھی چاہتے ہیں‘ ہم سیاستدانوں کو حق اور سچ کی راہ پر چلتے دیکھنا چاہتے ہیں‘ ہمیں ایماندار‘ مخلص اور کرپشن سے پاک لیڈر بھی چاہئیں لیکن اپنی جان دائو پر لگا کر وطن واپس آنے والے کرائے کے مکین سے ہم کیڑے بھی ڈھونڈ رہے ہیں۔ کل وہ ایم کیو ایم کا بندہ تھا تو اسے دشمن ملک کا ایجنٹ ‘دہشت گردوں کا ساتھی اور کراچی کے امن کا دشمن قرار دیتے تھے‘ آج وہ اسی ایم کیو ایم کے خلاف ببانگ دہل آوازِ حق بلند کر رہا ہے تو اسے اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ‘ سازشی تھیوری کا کردار اور چودھری نثار کی نئی چال قرار دے رہے ہیں‘ کیا ہماری عقلوں کو دیمک چاٹ گئی ہے؟
اگر ہم واقعی نیا پاکستان چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے لوگ چاہئیں جو قابل بھی ہوں‘ بے داغ بھی ہوں اور جو زندگی‘ موت اور رزق کا حقیقی مالک اپنی سیاسی جماعت کے لیڈر کو نہیں بلکہ اللہ کی ذات کو سمجھتے ہوں‘ ہمیں ایسے صرف ایک سو مصطفی کمال چاہئیں‘ اس ملک کی کایا پلٹ جائے گی!