میرے سامنے ایک تصویر ہے۔ وفاقی وزیر اسحاق ڈار درمیان میں بیٹھے ہیں۔ ان کے دائیں طرف پی ٹی آئی کا دایاں پلڑا یعنی جہانگیر ترین اور بائیں جانب بایاں پلڑا یعنی شاہ محمود قریشی تشریف فرما ہیں۔یہ تصویر گوگل کرتے ہوئے سامنے آئی۔ یہ تینوں ایک پریس کانفرنس کر رہے ہیں جس میں گزشتہ برس کے اوائل میں دھاندلی کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔یہ اتفاق رائے دھرنا شروع ہونے کے آٹھ ماہ بعد ہوا۔ اس دوران بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ گیا لیکن پی ٹی آئی کو بالآخر پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا پڑا۔ جب یہ جماعت دھرنا شروع کرنے جا رہی تھی اور لاہور میں زمان پارک پر لوگ جمع ہو رہے تھے تو وزیراعظم نواز شریف ٹی وی پر نمودار ہوئے اور دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا۔ مگر میں نہ مانوں کی رٹ لگائے پی ٹی آئی نے طے شدہ پلان کے تحت اسلام آباد پر چڑھائی کر دی۔ لوگوں نے بہت کہا ایسے تو کوئی بھی گروہ پارلیمنٹ کے سامنے جمع ہو کر اپنے مطالبات منوا سکتا ہے اور اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو کوئی حکومت محفوظ نہیں رہے گی۔ لیکن ان باتوں کی کسے پروا تھی۔ طے شدہ ایجنڈے سے پیچھے ہٹنا ممکن نہ تھا کیونکہ بعض قوتوں نے ہلہ شیری دے رکھی تھی۔ یہ بھی کہا تھا شیروانی تیار رکھیں‘ آپ جلد وزیراعظم بننے والے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کو آگے کرنے کا مقصد صرف حکومت پر کیچڑ اچھالنا اور اسے بیک فٹ پر لانا تھا۔ بالآخر کمیشن بنا اور 23جولائی 2015ء کو کمیشن کی رپورٹ بھی آ گئی جس میں صاف کہا گیا کہ الیکشن منصفانہ تھے اور قانون کے تقاضوں کے مطابق منعقد کئے گئے تھے۔ جوڈیشل کمیشن قائم کرتے وقت حکومت نے معاہدے میں صاف لکھا تھا کہ دھاندلی ثابت ہو گئی تو حکمران حکومت سے علیحدگی اختیار کر لیں گے۔ یہ تمام شقیں تحریک انصاف نے ہی معاہدے میں شامل کروائی تھیں۔ عمران خان نے جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ قبول کر لیا اور یوں ایک معاملہ جو دھرنے کے بغیر بھی حل ہو سکتا تھا‘ بالآخر حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کی روشنی میں ایک جوڈیشل کمیشن کے قیام پر منتج ہوا۔
اس وقت ایک نیا مسئلہ درپیش ہے اور ایک نئے جوڈیشل کمیشن کی جستجو جاری ہے۔ پاناما لیکس میں وزیراعظم کے بچوں سمیت اڑھائی سو پاکستانیوں کے نام آئے جس کے بعد جس تیزی سے بھونچال آیا‘ اسی تیزی سے اس کی گرد بیٹھ رہی ہے۔ وزیراعظم نے یک رکنی جوڈیشل کمیشن کا اعلان کیا جسے مسترد کر دیا گیا۔اپوزیشن جماعتیں کسی ایک نام پر متفق ہو نہیں پائیں۔ پی ٹی آئی اس ایشو کو ایک مرتبہ پھر سیاسی فوائد کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتیں بھی احتساب چاہتی ہیں لیکن ایک ایسے میکانزم کے تحت جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ خان صاحب نے حسب معمول رائے ونڈ پر چڑھائی کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس پر دیگر جماعتیں تو چھوڑیں‘ خود ان کی اپنی جماعت
پوری طرح راضی نہیں ہے۔ جس طرح دھرنے میں دس لاکھ لوگوں کو لے جانے کا دعویٰ چند ہزار کی شکل میں نکلا‘ رائے ونڈ دھرنا بھی اس سے مختلف نہیں ہو گا۔راولپنڈی اسلام آباد میں تحریک انصاف کے تین رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ یہ لوگ ایک ایک لاکھ لوگ بھی لاتے توصورتحال مختلف ہوتی۔ چنانچہ لاہور میں بھی دھرنے سے سوائے عام لوگوں کو مشکلات کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ جہاں تک خاں صاحب کی بات ہے ‘ وہ صرف جوش و جذبہ دلانے کی حد تک ذمہ داری سر انجام دے رہے ہیں۔ لوگ البتہ اس انداز سیاست سے اُکتانے لگے ہیں۔ ان کی طبیعت میں جو احتجاج پسندی اور جلد بازی ہے‘ شاہ محمود قریشی جیسے لوگ اس سے بالکل مختلف ہیں۔گویا پی ٹی آئی میں پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کی پالیسیاں اور جراثیم بدرجہ اتم موجود
ہیں۔ رہی بات خاں صاحب کی تو انہوں نے تو پرویز مشرف کو بھی سر آنکھوں پر بٹھالیا تھا اور پھر ان کے خلاف ہو گئے۔ جسٹس وجیہ الدین کی نیک نامی پر کون شک کر سکتا ہے؟ ان کو موصوف اپنی پارٹی میں لائے تو کھڈے لائن لگا دیا‘ کس کے کہنے پر اور کیوں؟ آج حالات یہ ہو چکے کہ جو سیاسی بندہ ان کی جماعت چھوڑے یہ اسے بکری کہہ کر پکارنے لگتے ہیں۔ میں حیران ہوں کراچی میں امجد اللہ خان کو پی ٹی آئی سے بہتر جماعت ایم کیو ایم نظر آئی۔ حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے‘ کون جانتا تھا۔کچھ دن قبل عمران خان کہہ رہے تھے نون لیگ میں برداشت نہیں۔ کیا خاں صاحب کو دھرنے کے دوران کی باتیں بھول گئیں جب ٹی وی چینلز تک کو تنقید کرنے پر نشانہ بنایا گیا ۔دو سال جب دھرنے اور اِدھر اُدھر کی باتوں میں گزار لئے تو موصوف نے فرمایا‘ اب میں خیبرپختونخوا پر پوری توجہ دوں گا۔ کیا بہتر نہ تھا کہ یہی زور اپنے صوبے کو چمکانے دمکانے پر لگایا جاتا؟
کسی گائوں کے ایک ڈیرے میں اکٹھ لگا تھا۔ کسی اہم مسئلے پر بحث جاری تھی۔ سامعین میں ایک بندہ بڑھ بڑھ کر لقمے اور مشورے دے رہا تھا۔ ہر بات میں کیڑے نکالتا اور ہر کسی کا منفی پہلو سامنے لاتا۔ گائوں کے بڑوں نے جب اسے اس طرح اچھلتے کودتے دیکھا تو کہا‘ آپ ذرا منصف کی کرسی پر آ جائیں اور بتائیں یہ مسئلہ کیسے حل ہو گا؟ جیسے ہی وہ کرسی پر بیٹھا اور اس نے سینکڑوں سامعین پر نظر ڈالی تو اس کی زبان میں گھنگنیاں پڑ گئیں۔ وہی شخص جو اُچھل اُچھل کر ہر کسی پر تنقید کر رہا تھا‘ ایک لفظ تک اس کے منہ سے نہ نکلا اور کچھ ہی دیر میں رفوچکر ہو گیا۔ اپوزیشن بالخصوص پی ٹی آئی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ میری دُعا ہے کہ یہ جماعت اگلی مرتبہ حکومت میں آئے‘ چاہے ایک اور دھرنے کے ذریعے دھاوا بول کر یا پھر الیکشن کے ذریعے‘ ہم دیکھیں گے کہ یہ کیا گُل کھلاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ آج اگر اس نے پاناما لیکس پر بھی دھرنے والی سیاست کرنی ہے اور اس کے کمیشن کا فیصلہ بھی شاہ محمود اور جہانگیر ترین نے ہی بالآخر اسحاق ڈار کے ساتھ بیٹھ کر کرنا ہے اور جسٹس وجیہ الدین اور چودھری سرور جیسوں کی زبان بندی رکھنی ہے تو پھر احتجاج اور دھرنوں کے نئے ڈھول بجاکر عوام کو کیوں بیوقوف بنایا جارہا ہے؟ ایک طرف موصوف احتجاج کی دھمکی دیتے ہیں‘ دوسری طرف بعد میں اپنے ہی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو آگے کر کے روایتی کمیشن اور معاہدوں پر راضی بھی ہو جاتے ہیں‘ یہ آدھے تیتر‘ آدھے بٹیر والا معاملہ کب تک چلے گا؟پہلے کی بات اور تھی۔ عوام کے پاس پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے علاوہ کوئی آپشن نہ تھی۔تحریک انصاف کی شکل میں لوگوں کو ایک نئی جماعت نظر آئی۔ اس نے تبدیلی کا نعرہ بھی لگایا۔نوجوان بالخصوص اس کے سحر میں مبتلا ہو گئے۔ لیکن یہ تبدیلی نظر بھی تو آنی چاہیے۔ کرپشن کا پیسہ بھی واپس آنا چاہیے۔ اس کے لئے کم از کم پی ٹی آئی کو سولوفلائٹ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ایک ایسے جوڈیشل کمیشن پر حکومت اور اپوزیشن کو متفق ہونا چاہیے جو بااختیار اور طاقتور ہو اور یکطرفہ جھکائو نہ رکھے۔ احتجاج اور دھرنے کی سیاست سے گریز رکھ کر یہ کام ہو جائے تو اور کیا چاہیے؟