ہم مور دیکھنے کب جائیں گے؟ دادی جان کب آئیں گی؟یہ سوال چار سالہ آمنہ گزشتہ ایک برس سے مجھ سے پوچھ رہی ہے۔
جی ہاں‘ آج آٹھ مئی ہے۔ مائوں کا عالمی دن۔ ہم جیسے لوگ جن کی مائیں اسی دن رخصت ہوئیں‘ ان کیلئے یہ دن بہت بھاری ہے۔ ان کا غم دُہرا ہے۔ جن کی مائیں حیات ہیں‘ انہیں معلوم ہی نہیں‘ کتنے عظیم سرمائے کے وہ مالک ہیں۔ یہ دن کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ برس دس اپریل کو وہ دل کے عارضے کے باعث ہسپتال داخل ہوئیں۔ ایک ماہ زندگی اور موت کی کشمکش میں رہیں۔ کئی لمحات ایسے آئے جب لگا‘ وہ ٹھیک ہو رہی ہیں۔ اونچ نیچ کا یہ کھیل چلتا رہا۔ بالآخر آٹھ مئی جمعۃ المبارک کی شب موت جیت گئی... زندگی ہار گئی۔ ان کی وفات سے دو گھنٹے قبل یہی ننھی پری مجھے گلے لگا کر بولی: پاپا! آپ کیوں رو رہے ہیں۔ اللہ جی دادی جان کو ٹھیک کر دیں گے۔
اگلے روز جب میں انہیں لحد میں اتارکر لوٹا‘ وہ اپنے ننھے ہاتھوں سے میرے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی: پاپا‘ آپ کیوں روتے ہیں، دادی جان اللہ پاس چلی گئی ہیں‘ وہ انہیں ٹھیک کر دیں گے۔
جب کبھی میری والدہ سردیوں میں میرے پاس فلیٹ میں رہنے آتیںتو دھوپ کے لئے میںانہیں قریبی پارک لے جاتا۔ وہاں کارپارکنگ میں کمرہ نما پنجرے نصب ہیں جہاں مور اور دیگر خوبصورت پرندے رکھے گئے ہیں۔ ہم پارک کے باہر ہی دھوپ میں موروں کے بالکل سامنے گاڑی کھڑی کر دیتے۔ مور جب پر کھولتے تو اس کے رنگوں‘ اس کی بناوٹ اور قدرت کے کرشموں کو دیکھ کر حیران اور محظوظ ہوتے۔ ایک سال گزر گیا۔ اس پارک کا رُخ کرنے اور مور دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
ہم جانتے ہیں ہر کسی نے فنا کا جام پینا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ والدین کی جدائی کا غم بھی شدید ہے۔ ماں پاس ہو تو بڑے سے بڑا غم بھی معمولی لگتا ہے۔ آپ کو کسی نے ستایا ہو‘ کوئی چوٹ آپ کو لگے‘ آپ ماں سے شیئر کریں‘ اس کی چھائوں میں بیٹھ جائیں‘ وہ آپ کو پیار سے بلائے‘ آپ کا دکھڑا سنے‘ آپ کو لگے گا کوئی غم باقی ہی نہیں رہا۔ جب ماں ساتھ چھوڑ جائے تو انسان کو سمجھ ہی نہیں آتی‘ دل کی بات کرے تو کس سے کرے؟ جب ماں کو قبرستان چھوڑ کر گھر آیا تو کتنے ہی ہفتے یہ سوچتا رہا کہ زندگی تو ماں سے تھی‘ جب زندگی ہی چلی گئی تو باقی کیا بچا؟ ہسپتال میں پانچویں منزل تک میں سیڑھیاں دوڑ کر چڑھ جاتا تھا‘ اب حالت یہ ہے کہ ایک ایک قدم گھسیٹ کر چلنا پڑتا ہے۔ درحقیقت یہ اتنا بڑا صدمہ ہے کہ انسان کے سامنے یہ حقیقت نہ ہو تو اسے برداشت کرنا ممکن نہیں کہ ہر شے کو فنا ہے‘ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ مالک الملک کی ہے ۔
کئی مرتبہ سوچتا ہوں‘والدین کی کمی اور ان کی اہمیت کا احساس ان کے جانے کے بعد ہی کیوں ہوتا ہے۔ کیوں ہم ان کی زندگی میں ہی یہ سمجھ نہیں پاتے کہ کامیاب اور خوش قسمت ترین انسان وہ ہے جس کی زندگی میں اس کے والدین آ جائیں اور وہ ان کی خدمت کر کے جنت سمیٹ لے۔ کاش یہ سبق ہم اپنے بچوں کو ازبر کرا سکیں جسے اللہ نے قرآن میں فرما دیا''اور تم ماں باپ سے حسن سلوک سے پیش آیا کرو، اگر تمہارے پاس اُن میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو کبھی اُف تک بھی مت کہنا اور اُن کو نہ جھڑکنا اور اُن سے خوب ادب سے پیش آنا،اوراُن کے سامنے شفقت سے‘ انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان د ونوں پر رحمت فرما جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں پالا اور پرورش کی‘‘۔
گزشتہ دنوں ایک تحقیق پڑھ رہا تھا۔ انسان کی صحت کو جو چیز سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے وہ کھانے کے دوران پڑھنا یا ٹی وی دیکھنا ہے۔ آج کل کے دور میں آپ موبائل فون کو بھی شامل کر لیں۔ انسان دن میں دو تین مرتبہ کھانا کھاتا ہے۔ محنت و مشقت اسی دو وقت کی روٹی کے لئے کرتا ہے لیکن عجیب بات ہے کہ اس کے پاس دو چپاتیاں سکون سے کھانے کے لئے بھی وقت نہیں۔اب ایک ہاتھ سے کھانا کھایا جاتا ہے اوردوسرا ہاتھ فیس بک پر ہوتا ہے۔ ہم گلہ کرتے ہیں‘ آج ہماری صحت وہ نہیں جو پہلے لوگوں کی تھی۔ پہلے لوگ اس طرح کی عادتوں سے بچے ہوئے تھے‘ اسی لئے صحتمند اور طویل زندگی پاتے تھے۔ میں کوشش کے باوجود اپنی اس عادت پر قابو نہیں پا سکا‘ اکثر اوقات کھانا کھاتا تو ساتھ اخبار کھول لیتا۔ وہ ڈانٹ کر کہتیں‘ اس سے معدے پر اثر پڑے گا‘ صحت خراب ہو گی۔ اس وقت معلوم نہ تھا‘ وہ ہمارے فائدے کی بات کر رہی ہیں۔
ہم لوگ زندگی سے آگے کچھ نہیں سوچتے اور ہم اپنے بڑوں سے بھی کچھ نہیں سیکھتے۔ میری والدہ نے تین مرتبہ اپنا کفن خرید ا۔ دو مرتبہ کسی اور کے کام آ گیا اور تیسرا اُن کے اپنے۔ یہ انہوں نے اس لئے کیا کہ انہیں معلوم تھا‘ انہیں ایک دن جانا ہے اور اس لئے بھی کہ تدفین سے قبل ان کے بچوں کو کفن کی تلاش میں بھاگنا نہ پڑے۔ دس بارہ برس قبل جب گھر بن رہا تھا تو انہوں نے خاص تلقین کی کہ کمروں کے دروازے کھلے رکھوانا تاکہ میت والی چارپائی آسانی سے گزر جائے۔ دوسری تلقین انہوں نے یہ کی: میرا وصال ہو تو فوراً گورکن کا انتظام کرنا‘ یہ نہ ہو کہ عین موقع پر گورکن نہ ملے اور قبر وقت پر تیار نہ ہونے کے باعث لوگوں کو انتظار کی زحمت اٹھانی پڑے۔ وہ مرنے کے بعد کی ہماری مشکلات بارے سوچ رہی تھیں اورہم زندگی کی بھول بھلیوں اور کھیل تماشے میں گم تھے۔
میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ ان کے ساتھ حج کروں۔ ایک موقع بھی ملا لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا ۔دس برس قبل ایک دن کہنے لگیں: میری طبیعت اب پہلے جیسی نہیں رہی ‘ دن بدن کمزوری بڑھ رہی ہے۔ زندگی کا بہت بڑا فرض ادا کرنا باقی ہے ۔ تم گھر میں سب سے چھوٹے ہو۔ بچپن سے آج تک میں جہاں بھی گئی تم میرے ساتھ ہوتے تھے۔ لیکن بیٹا! تم جانتے ہو آج کل تمہارے بڑے بھائی کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی ‘ میں چاہتی ہوں وہ میرے ساتھ جائے‘ ہم اللہ کے گھر سجدہ ریز ہوںگے تو وہ ضرور ٹھیک ہو جائے گا۔ میں مان گیا ۔وہ بھائی کے ساتھ حج پر چلی گئیں۔
والدہ کے انتقال کے چند دن بعد میری اہلیہ نے خواب دیکھا۔ میں اپنی والدہ کو بازوئوں میں اٹھائے کعبے کا طواف کرا رہا ہوں۔میری خواہش پوری ہو گئی۔
ایک اور تسلی گزشتہ دنوں ہوئی۔ والدہ کے قدموں میں جگہ موجود تھی۔ انتظامیہ سے کہہ کر فوراً اپنے لئے رکھوا لی ۔ اس لئے نہیں کہ ان کے قریب ہو جائوں گا بلکہ اس لئے تاکہ کل میرے بچے دُعا کے لئے میری قبر پر آئیں‘ تو ساتھ ہی میری والدہ کی قبر پر بھی دُعا کر دیں۔
کل قبرستان جاتے ہوئے ہم موروں والے پارک کے سامنے سے گزرے،ننھی پری بولی:پاپا! ایک سال گزر گیا۔ اللہ جی دادی جان کو ٹھیک کب کریں گے‘ وہ کب آئیں گی، ہم مور دیکھنے کب جائیں گے؟