جب ہم ایٹمی دھماکہ کرنے والے تھے تو ہمیں بتایا جا رہا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ملکی دفاع پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ہمیں بتایا گیا امریکہ تڑیاں لگا رہا ہے ہم پر وہ معیشت تنگ کر دے گا‘ طرح طرح کی پابندیاں لگ جائیں گی‘ دنیا میں ہم تنہا رہ جائیں گے‘ کوئی ہمارے ہاں سرمایہ کاری کرنے نہیں آئے گا‘ کوئی ہمیں قرض نہیں دے گا‘کوئی ہمارے ساتھ تجارت نہیں کرے گا۔ ہمیں کہا گیا بھارت نے خطے کا توازن بری طرح سے بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اگر پاکستان نے دھماکے نہ کئے تو بھارت سانڈ کی طرح ہم پر چڑھ دوڑے گا‘ یہ ہمیں ملیامیٹ کر کے رکھ دے گا چنانچہ اگر بھارت کو مزا چکھانا ہے تو اس کے لئے ایٹمی دھماکہ کرنا ضروری ہے لیکن اس صورت میں قوم کو برے ترین حالات کے لئے تیار ہو جانا چاہیے ۔ عوام کو پیٹ پر پتھر باندھنے کا کہہ کر دھماکے کر دئیے گئے ‘ دفاع بھی ''مضبوط‘‘ ہو گیالیکن گھاس کھانا صرف قوم کا مقدر بن گیا۔ جن لوگوں نے ایٹمی دھماکے کرنے کا کریڈٹ اپنے سر لیا ‘ وہ اٹھارہ کروڑ عوام سے سیانے نکلے۔ وہ اپنا پیسہ پہلے ہی ملک سے نکال کر لے جا چکے تھے ۔ انہیں علم تھا یہ دن کبھی نہ کبھی آنا ہے چنانچہ انہوں نے 93ء سے 98ء کے دوران ملک سے پیسے نکال لئے اور آف شور کمپنیاں بنا کر لندن اور دیگر ممالک میں اربوں پائونڈز کے اثاثے خرید لئے۔ کہا جاتا ہے وزیراعظم نواز شریف کو نوے کی دہائی کے آغاز میں علم ہو چکا تھا کہ بھارت چند سال بعد دھماکے کرنے والا ہے۔ یہ وقت پاکستان کیلئے بہت کڑا ہو گا چنانچہ وہ اپنا انتظام کر لیں۔ بھارتیوں کے ساتھ ہمارے محبوب وزیراعظم کی پیار کی پینگیں ڈھکی چھپی نہیں۔ انہوں نے بھی دوستی کا بھرم رکھا اور اپنے دوست وزیراعظم کو بروقت مطلع کر دیا جنہوں نے اپنے بیٹوں کے نام پر کمپنیاں بنوا لیں تاکہ کل
کلاں ان کا نام آئے تو خود یہ صاف بچ جائیں۔ سب جانتے ہیں وزیراعظم ایٹم بم چلانے کے معاملے پر دل سے آمادہ نہ تھے اور ایسی ہی ہچکچاہٹ کا اظہار کر رہے تھے جیسے کہ موجودہ دور میں بھارتی جارحیت کے خلاف بیان دیتے ہوئے کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ کاروباری گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں چنانچہ معاشی پابندیوں کا سن کر ان کا حوصلہ نہ پڑتا تھا۔ عوام اور ملک کی معیشت کا انہیں خیال ہوتا تو آج یہاں غربت اور مایوسیوں کے ویسے ہی اندھیرے نہ ہوتے جو آج سے بیس برس قبل تھے۔ ان کے کریڈٹ پر ہے کیا ؟ ایک موٹر وے‘ چند سڑکیں اور انڈرپاس؟ سی پیک پر فوج نہ پیچھے کھڑی ہوتی تو یہ بھی شروع نہ ہوتا۔ ایٹمی دھماکہ جس طرح کیا گیا‘ کیا وہ کہانی دہرانے کی ضرورت ہے؟ ایٹم بم بنانے کا اصل مقصد تو بھارت کو اس کی اوقات میں رکھنا اور ملک کو امن کا گہوارا بنانا تھا۔ لیکن جو حکمران آج بڑی شان و شوکت سے یوم تکبیر مناتے دکھائی دے رہے ہیں‘ انہوں نے اسی بھارت سے ذاتی تعلقات بڑھانے شروع کر دیئے۔ انہی کے ساتھ مزید ذاتی کاروبار کھول لئے اور انہیں ملک میں اپنی ہی فیکٹریوں میں جاسوس بن کر گھسنے کا موقع فراہم کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایٹم بم چلا کر جو تباہی بھارت نے اس ملک کی مچانی تھی‘ اس سے کہیں زیادہ نقصان ہمارا اس نے داخلی دہشت گردی اور پچاس ہزار پاکستانیوں اور فوجیوں کی شہادت کے طور پر کر دیا۔ بھارت کبھی ایم کیو ایم کو استعمال کر کے سندھ میں تباہی مچاتا اور کبھی بلوچستان میں دہشت گردی اور علیحدگی کی
آگ سلگاتا۔ رہی سہی کسر افغانستان کے حالات نے نکال دی۔ نائن الیون کے بعد افغانستان کا بیڑہ غرق ہوا تو بھارت کو پاکستان میں مداخلت کا نیا موقع مل گیا۔ اس نے طالبان کی پشت پناہی شروع کر دی اور پورے ملک میں خودکش اور بم دھماکوں کا ایسا بازار گرم کیا جس کی تپش ختم نہ کی جا سکی۔ لیکن مجال ہے کہ بھارتی سازشوں کے خلاف حکومتی سطح پر ذرا سی چوں بھی کی گئی ہو؟ سوال یہ ہے جس بھارت کو ناکوں چنے چبوانے کے لئے ایٹمی دھماکے کئے گئے‘ اسی بھارت کو ملک میں دہشت گردی پھیلانے کا موقع کس نے فراہم کیا۔ ہمارے حکمرانوں نے خود اپنی زمین دہشت گردی کے لئے اوپن کر دی۔ خود سوچیں کہ اگر پشاور سکول سانحہ نہ ہوتا تو عمران خان سمیت دیگر طبقات کا طالبان کے لئے نرم گوشہ کبھی ختم ہوتا؟ اس ساری صورتحال میں موجودہ حکمران ہر طرح سے مزے میں رہ گئے۔یہ حکومتوں کے بھی لوشے لوٹنے لگے‘ کاروبار بھی ان کے چل نکلے اور نیک پروین بھی خود کو کہلوانے لگے۔ رہے عوام تو وہ ان حکمرانوں کے جلسوں کی تعداد پوری کرنے کیلئے رہ گئے اور دوسری جانب اپوزیشن انہیں چوہے بلی کا کھیل دکھا کر بیوقوف بناتی رہی جیسے آج پاناماپیپرز پر بنا رہی ہے۔
آج ہم امریکہ کے ڈرون چلانے پر تو شور مچا رہے ہیں لیکن ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے حکمرانوں نے داخلی سلامتی کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں۔ چودھری نثار کو شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ چیک کرنے کا خیال اس وقت کیوں نہ آیا جب یہی ملااختر منصور مری مذاکرات میں پاکستان آیا تو اسی پاسپورٹ پر آیا جس کی وجہ سے ہر طرف کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ تب کس نے جا کر اس کا پاسپورٹ یا شناختی کارڈ چیک کر نا تھا؟ انہی اداروں نے کرنا تھا جو ہمیشہ سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک طرف ہم خود دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں‘ ان کے لئے دل نرم کرتے ہیں اور جب کوئی دوسرا آ کر کسی دہشت گردکو اپنے انجام تک پہنچاتا ہے تو ہم ملکی سالمیت کا رونا رونا شروع کر دیتے ہیں۔یہ ملکی سالمیت اس وقت کہاں ہوتی ہے جب بھارت ورکنگ بائونڈری پر کئی کئی ہفتوں تک گولہ باری کر کے معصوم پاکستانیوں کو شہید کرتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم جو وزیرخارجہ بھی ہیں‘ بھارتی جارحیت کے خلاف ایک لفظ تک منہ سے نکالنا گوارا نہیں کرتے لیکن پانامہ لیکس میں بچوں پر حرف آنے لگے‘ جب اقتدار جانے کا خطرہ ہو تو فوراً ٹی وی پر آ کر تین تین تقریریں فرما دیتے ہیں۔
اس طرح یہ ملک کتنی دیر چل پائے گا؟ پانامہ لیکس پر اپوزیشن کمیشن بنوانا چاہتی تھی اور اب ایک کمیٹی پر مان گئی ہے۔ ذرا سوچیں کہ جس کمیٹی کے بننے میں چار ہفتے لگ جائیں‘ وہ ٹی او آرز کی تشکیل کے لئے کتنا وقت لے گی اور جب ان ٹی او آرز پر بحث و تمحیص چل نکلے گی تو اس پر کتنے مہینے درکار ہوں گے اور جب ان ٹی او آرز پر عمل درآمد کا وقت آئے گا توان میں کتنے سال لگیں گے؟ کیا اس معاملے میں حکومت اپوزیشن کو بیوقوف بنا رہی ہے یا اپوزیشن پی ٹی آئی کو؟یا پھر یہ سارے مل کر عوام کو اُلو بنانے میں لگے ہیں۔
کل ایک بزرگ ملے۔ ان کا اکلوتا بیٹا لاہور کی بہترین یونیورسٹی کا گریجوایٹ ہے۔ ماسٹرز کرنے کے پیسے نہ تھے چنانچہ نوکریوں کی دلدل میں اتر گیا۔ تین چار سال لاہور سے بہاولپور تک دو تین نجی کمپنیوں میں رگڑا کھانے کے باوجود اتنے پیسے نہ بچا سکا کہ مکان کا قرض اتار سکے‘ یا پھر اپنا یا بزرگ والدین کا سہارا بن سکے۔ چاروناچار‘ ایک عرب ملک میں نوکری کے لئے اپلائی کیا ۔چند دنوں بعد روانگی ہے۔بزرگ والدین اسے بوجھل کندھوں کے ساتھ رخصت کرنے والے ہیں۔ میں تب سے سوچ رہا ہوں بیس برس قبل ایشین ٹائیگر کا نعرہ لگانے والوں نے بارہ کروڑ نوجوانوں کے مستقبل کا کیا شاندار انتظام کیا ہے کہ وہ انتہائی تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بھی اپنے ملک میں دو وقت کی روٹی کمانے سے قاصر ہیں۔ دھماکے کر کے ان حکمرانوں نے عوام کو تو گھاس کھانے پر مجبور کر دیا لیکن خود اندرون و بیرون ممالک اربوں ڈالرز کے اثاثے کھڑے کر لئے اور جس ملک کے یہ حکمران ہیں وہاں صاف پانی ہے نہ بجلی‘ روزگارہے نہ صحت ۔
بزرگ آنسوپوچھتے ہوئے بولے: میرا بیٹا مجھے چھوڑ کر چلا جائے گا۔اسے معاش اس کے اپنے ملک میں کیوں نہ ملا؟نہ جانے کل ہمیں کوئی دفن کرنے والا بھی ہو گا یا نہیں۔ میں نے سوچا‘ آج تو ملک دفاعی‘ معاشی لحاظ سے مضبوط ہو چکا‘ آج تو یوم تکبیر ہے تو پھر یہ آنسو؟؟