کل بلاول نے پہلی مرتبہ ایسا بیان دیا جس سے لگا وہ سیاست کو سمجھنے لگا ہے۔ وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے ملنے ان کے چیمبر میں پہنچے تو بدقسمتی سے میڈیا کا کیمرہ بھی ساتھ تھا۔ انہیں دیکھ کر خورشید شاہ کھڑے ہوئے تو بظاہر یہی نظر آ رہا تھا کہ دونوں ہاتھ ملائیں گے یا گلے ملیں گے‘ جو ہماری تہذیب ہے۔ پرویز رشید جیسے ہی خورشید شاہ کے پاس پہنچے‘ یکدم نیچے کی طرف جھک گئے۔ یوں لگا جیسے ان کی جیب سے پین یا موبائل گر گیا ہے جسے اٹھانے کے لئے وہ جھکے ہیں۔ لیکن یہ دیکھ کر سب بھونچکے رہ گئے کہ وہ خورشید شاہ کے سامنے اتنے جھکتے چلے گئے کہ ان کے ہاتھ شاہ صاحب کے گھٹنوں سے بھی نیچے جاتے دکھائے دئیے۔ اسی منظر پر بلاول بھٹو کا فوری ٹویٹ آیا کہ نون لیگ والے مشکل میں ہوں تو ہمارے پائوں پکڑتے ہیں اور جیسے ہی مشکل سے نکلتے ہیں گلا پکڑنے کو آتے ہیں۔اس ٹویٹ نے سوشل میڈیا پر بھی دھوم مچا دی۔ یہ تصویر مختلف تبصروں کے ساتھ زیرگردش رہی کہ دیکھ لو‘ نون لیگ والے کیسے پیپلزپارٹی والوں کو سڑکوں پر گھسیٹ رہے ہیں۔پرویز رشید کا کہنا تھا کہ وہ احتراماً انہیں جھک کر ملے ہیں لیکن وہ جو بھی کہیں‘ نون لیگ یہی سمجھ رہی ہے کہ اگر انہیں پاناما سے کوئی نکال سکتا ہے تو وہ پیپلزپارٹی ہے۔ کل ذرائع سے یہ بھی خبر چلی کہ اپوزیشن کی چند جماعتوں سے حکومتی رابطے ہوئے ہیں اور انہیں پانامہ مسئلے پر رام کر لیا گیا ہے۔ چند روز قبل عمران خان نے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا تھا کہ نون لیگ چھانگا مانگا کی سیاست کرنے جا رہی ہے ۔ اس گرما گرم موسم میں ڈاکٹر طاہر القادری بھی وارد ہوا چاہتے ہیں۔ وہ سترہ جون سے
مال روڈ پر دھرنا اور تحریک شرو ع کرنے والے ہیں۔ٹی او آرز کمیٹی کی بلا نتیجہ ملاقاتوں کے بعد عمران خان نے بھی عید کے بعد عوام کو سڑکوں پر لانے کی دھمکی دے دی ہے چنانچہ اس گرم سیاسی ماحول میں پرویز رشید اور خورشید شاہ کی شہرت یافتہ تصویر اور ملاقات بے معنی نہیں۔ بڑوں کی ملاقاتوں میں باڈی لینگوئج خاص طور پر دیکھی جاتی ہے ۔ معاملہ البتہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نون لیگ کی اس سے زیادہ مدد نہیں کر سکتی کہ اس معاملے کو اگلے دو سال لٹکائے رکھے یہاں تک کہ الیکشن آ جائے ۔دوسری جانب ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ کا ایک اور مک مکا ہو چکا ہے ۔زرداری صاحب نے بعض شرائط پر اگلی باری خود لینے کی بجائے نون لیگ کو دینے کی ہامی بھر لی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ پیپلزپارٹی کے پاس وزارت عظمیٰ کیلئے کوئی مضبوط امیدوار موجود نہیں۔ زرداری صاحب ملک سے باہر ہیں ۔ سابق وزیراعظم گیلانی اور راجہ پرویز اشرف ابھی تک عدالتوں میں کرپشن سکینڈل بھگت رہے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کے ساتھ جو کچھ ہوا‘اس کے بعد زرداری صاحب کو امید نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ آئندہ انتخابات میں ان کی کوئی مدد کرے گی۔آخری امید ان کی بلاول بھٹو سے ہے لیکن بلاول ابھی اتنے میچور نہیں ہوئے کہ عملی سیاست میں حصہ لے سکیں۔ ابھی ان کے قدم ٹویٹر اور فیس بک سے نیچے نہیں اترسکے۔ وہ کسی ٹی وی پروگرام میں حصہ لینے یا صحافیوں کو لائیو انٹرویو دینے کے بھی قابل نہیں۔ جلسے میں ایک تقریر کے لئے وہ کئی کئی ہفتے تیاری کرتے ہیں اور پھر جس طرح پڑھتے ہیں کوئی انہیں سنجیدہ نہیں لیتا۔ دوسری وجہ تحریک انصاف ہے۔ پیپلزپارٹی کو معلوم ہے گزشتہ انتخابات میں اگرچہ تحریک انصاف دوسرے نمبر پر ووٹ لینے کے باوجود زیادہ سیٹیں نہیں لے سکی لیکن ہر مرتبہ ایسا نہیں ہوتا۔ عمران خان نے بیس سال قبل جو تحریک شروع کی تھی‘ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ کبھی سر بھی اٹھا سکے گی لہٰذا پیپلزپارٹی الٹا لٹک جائے تب بھی پہلی یا دوسری پوزیشن پر نہیں آ سکتی۔ اس کے لئے عافیت یہی ہے کہ وہ کرپشن کے معاملات میں خود کو بچائے اور اپوزیشن کا محاذ سنبھال کر تحریک انصاف کو الجھائے رکھے۔ اگر تحریک انصاف اپوزیشن میں اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو یہ نون لیگ کو اگلی مرتبہ مزید ٹف ٹائم دے سکتی ہے چنانچہ دونوںروایتی جماعتوں کی یہی کوشش ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ان دونوں میں سے کسی ایک کے پاس ہی رہے تاکہ وہ ملک اور مخالفین کو یونہی رگڑا لگاتے
رہیں۔ کرپشن کے جو الزامات نون لیگ پر ہیں‘ کرپشن کی گنگا میں پیپلزپارٹی اس سے بھی زیادہ ڈوبی ہوئی ہے لہٰذا اگلا الیکشن تحریک انصاف بمقابلہ دیگر جماعتیں کی بنیاد پر لڑا جائے گا اور اس کے آثار آپ کو اگلے چند ہفتوں میں نظر آنے لگیں گے ۔اگر عمران خان نے شاہ محمود قریشی سے نجات پا لی تو پانامہ کی تحریک اپنے اصل رنگ میں نظر آئے گی۔ اس ایشو سے زہر نکالنے کا ٹاسک پیپلزپارٹی کو ملا تھالیکن اس میں خان صاحب کے مہربان آڑے آ گئے۔ جب لوہا گرم ہو تو اسے کسی بھی طرف موڑا جا سکتا ہے۔ آئس لینڈ کے وزیراعظم سے استعفیٰ لینے میں عوام کو تین دن لگے۔ یہاں اس ایشو کو اتنا لٹکا دیا گیا کہ اس کا رنگ ہی پھیکا پڑ گیا۔ تحریک انصاف کا موقف تھا کہ ہم اگر اپوزیشن کے ساتھ نہ چلیں تو ہمیں کہا جاتا ہے یہ سولو فلائٹ کر رہی ہے چنانچہ ہم نے اسی لئے مل کر کوشش کی۔یہ بات یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن حکومت کے جال میں پھنستے چلے جانے کو کس نے کہا تھا۔ کس نے کہا تھا کہ جس دن وزیراعظم ایوان میں آئیں اس دن واک آئوٹ کر دو۔ اس طرح کی نادانیوں کے باعث یہ ایشو دبتا چلا جا رہا ہے۔کیا خان صاحب کو معلوم نہیں کہ جس تواتر کے ساتھ نون لیگ لوڈشیڈنگ کے بارے میں جھوٹ بول رہی ہے کہ 2018ء میں یہ ختم ہو جائے گی کیا اسی تسلسل کے ساتھ راجہ پرویز اشرف اعلانات نہیں کیا کرتے تھے؟ تو پھر اِن میں اور اُن میں کیا فرق ہے اور عمران خان کس کرشمے کے انتظار میں ہیں؟ دو چیزوں پر انہیں کمپرومائز نہیں کرناچاہیے۔ اپنی پارٹی کی ساکھ اور اپنے صوبے کی کارکردگی پر۔ پوری توجہ وہ صوبے پر مرکوز رکھیں‘ وہ کام پہلے کریں جو کم سے کم وقت میں نتائج ظاہر کریں۔ راقم نے پہلے بھی کہا تھا کہ تین سال میںخیبرپختونخوا میں جو کام بھی کئے گئے‘ چاہے وہ مکمل ہو چکے یا پائپ لائن میں ہیں‘ انہیں غیرملکی نیوٹرل نمائندوں کے سامنے رکھیں جو دنیا کو بتائیں کہ تحریک انصاف کتنے پانی میں ہے۔ جہاں تک سیاست کی بات ہے‘بدقسمتی سے خان صاحب کے پاس مشورے کے لئے شاہ محمود ہیں یا شیخ رشید۔ درمیان میں اگر کوئی ہے تو اس کی ان تک رسائی نہیں۔ شیخ رشید کا میرٹ یہ ہے کہ وہ جلسوں اور دھرنوں میں آگ لگانے اور جلائو گھیرائو پر اکسانے کے ماہرہیں۔شاہ محمود کے بارے میںکچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ چودھری سرور جیسا ہیرا ابھی تک مٹی سے اَٹا ہوا ہے۔ ان جیسے لوگوں کو پارٹی کے ہر قدم پر ساتھ رکھنا چاہیے۔ پنجاب میں محمود الرشید نے مایوس کیا۔ بجٹ کا تیسرا حصہ ترقیاتی اخراجات کے لئے مختص کر دیا گیا‘ اورنج ٹرین صحت سے بھی زیادہ بجٹ لے گئی لیکن محمود الرشید نے رسمی بیان پر اکتفا کی۔ وہ وزیراعلیٰ پنجاب کو کم از کم ایک ایسے ہسپتال کے قیام پر بھی قائل نہ کر سکے جس میں شریف برادران اور دوسری اہم شخصیات کا علاج ہو سکے۔خان صاحب جب تک کارکردگی اور اہلیت کی بنیاد پر فیصلے کریں گے‘عوامی پذیرائی انہیں ملتی رہے گی۔ جس طرح خورشید شاہ ایک میٹر ریڈر سے اپوزیشن لیڈر بن گئے‘ تحریک انصاف کو اپنے ہاں ترقیوں اور تنزلیوں کا ایسا معیار قائم نہیں کرنا چاہیے۔ خان صاحب کے پاس عمرِ نوح ؑ ہے نہ ہی عوام کے پاس مزید قوت برداشت باقی۔ کامیابی البتہ اُن کے بہت قریب ہے‘ اتنی قریب کہ نون لیگ والے خود کو بچانے کیلئے اپوزیشن لیڈر کے پائوں پڑ رہے ہیں۔ خان صاحب نے کافی حد تک سمت درست کر لی ہے‘ وہ یونہی ڈٹے رہے تو ملکی دولت لوٹنے والوںکو کوئی نہیں بچا سکے گا‘آصف زرداری بھی نہیں!