میں نے اپنی زندگی میں ایسے نوجوان بہت کم دیکھے ہیںجو دین اور دنیا کا بہترین امتزاج ہوں‘ جو دورِ جدید کے تقاضوں سے آشنا ہوں اور آخرت کی یاد سے جن کی آنکھیں بھیگ جاتی ہوں‘ جو جدید ٹیکنالوجی اور جدید سائنس میں ترقی کے خواہاں بھی ہوں اور جو اپنی صبحوں اور اپنی شاموں کو قرآن و حدیث سے منور بھی کرتے ہوں ۔ ڈاکٹر سبیّل اکرام ان چند نوجوانوں میں سے ہیں‘ آج جنہیں ہمارے بچے‘ ہمارے نوجوان فالو کر سکتے ہیں۔ دین اور دنیا کے بہترین امتزاج کے حامل‘دراز قامت‘ وجیہ صورت اور سب سے بڑھ کر ایسے شیریں ‘ پُرسوز اور خوش الحان قاری کہ جو بھی ان کی تلاوت سنے‘ اس پر ایسا وجد اور ایسا سحر طاری ہو جائے کہ دل کی ہر دھڑکن قرآن کے ایک ایک حرف کے ساتھ دھڑکتی محسوس ہو۔
ایسے ذہین نوجوان کے حالاتِ زندگی سامنے آ جائیں تو کتنوں کو مہمیز ملے گی‘ یہ سوچ کر میں نے ڈاکٹر سبیّل اکرام کی جانب قدم بڑھائے‘ چند منٹ اُن سے مستعار مانگے۔ جب علم ہوا‘ وہ جیّد عالم دین علامہ احسان الٰہی ظہیر ؒکے نواسے اور علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کے بھانجے ہیں‘ تو ان کی قسمت پر رشک بھی ہوا۔ ایک ایسے خانوادے سے تعلق بذاتِ خود ایک اعزاز ہے جو خانوادہ توحید کا پرچم سر بلند رکھنے کے لئے اپنی جان تک کی بازی لگانے سے دریغ نہیں کرتا۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کی شہادت کے بعد جو سمجھتے تھے‘ یہ باب یہیں بند ہو جائے گا‘ ابتسام الٰہی ظہیر اور ڈاکٹر سبیّل اکرام کو دیکھ کر انہیں اپنی رائے تبدیل کرنا پڑے گی۔ جناب سبیّل ڈاکٹر اکرام شیخ کے صاحبزادے ہیں۔ ڈاکٹر اکرام سعودی عرب کے ایک ہسپتال سے منسلک ہیں۔چھبیس سال قبل سبیل کی لاہور میں پیدائش کے بعد سعودیہ ہجرت کر گئے۔
قرآن سے محبت‘ لگائو اور شغف اس قدر تھا کہ آتے جاتے‘ اٹھتے بیٹھتے تلاوتَ قرآن حکیم سنتے۔ سفر پانچ منٹ کا ہو یا پانچ گھنٹے کا‘ گاڑی میں جب بھی کہیں جاتے تو امام کعبہ عبدالرحمن السدیس اور جناب سعود الشریم کی کیسٹس بلند آواز میں لگا لیتے۔ تین چار برس کے بچے کی ابتدائی ساعتیں جب ہر وقت اللہ کے ذکر سے لبریز ہوتی رہیں تو باقی زندگی میں انتہائی مددگار اور بابرکت ثابت ہوئیں۔ زندگی کے دس برس مکمل ہوئے تو فیصلہ ہوا کیوں نہ بچے کو حفظ کروا دیا جائے۔ چنانچہ پانچویں جماعت کے بعد سکول سے اٹھا کر مدرسے داخل کروا دیا۔ اب سبیّل کے معمولات بدل چکے تھے۔ وہاں صبح آٹھ سے دوپہر بارہ بجے تک سبق یاد کرتے۔ ظہر کے بعد آرام کرتے۔ عصر کے بعد سعودیہ میں مقیم قاری ارشد قاسمی گھر آجاتے اور دو گھنٹے سبق سنتے۔ پندرہ لائنوں والے قرآن سے حفظ کیا۔ ایک صفحہ قاری صاحب سے یاد کرتے اور ان کے جانے کے بعد دو صفحے والد صاحب کو سناتے۔ اس کے لئے وہ جناب السدیس اور الشریم کی تلاوت بار بار سنتے ۔ اس کا فائدہ انہیں یہ ہوا کہ جب وہ سبق یاد کرتے تو انہیں منٹوں میں یاد ہو جاتا۔ اس طرح کوئی پندرہ روز میں ایک پارہ یاد کر لیتے۔ یوں دس ماہ کے قلیل عرصے میں حفظ قرآن مکمل کیااور تراویح کی ادائیگی شروع کی۔ دوبارہ سکول میں ساتویں جماعت میں داخلہ بھی لے لیا۔تیرہ برس مسلسل سعودی عرب میں ہر سال تراویح کی امامت کروائی۔ اس دوران پاکستان آتے جاتے رہے۔ ایف ایس سی کے بعد کراچی میں ڈائو میڈیکل کالج میں داخلہ ہو گیا۔ قرآن کی برکت
کے باعث اب وہ فوٹوگرافک میموری کے مالک ہو چکے تھے لہٰذا
پڑھائی میں کوئی خاص مشکل پیش نہ آئی۔ جب رمضان کا مہینہ آتا تو ہر قسم کی مصروفیات ترک کر دی جاتیں اور یہ مہینہ قرآن کے نام کر دیا جاتا۔ اس دوران اپنی والدہ محترمہ کی دعائوں کا بڑا ساتھ رہا۔ وہ جب بھی کوئی کام کرنے لگتے‘ میڈیکل کا کوئی امتحان ہوتا یا تراویح کی نماز ادا کرنی ہوتی وہ سب سے پہلے اپنی والدہ کو فون کرتے‘ ان کا حال پوچھتے‘ ان کی دعائیں لیتے اور اس کے بعد ابتدا کرتے۔ بتاتے ہیں‘ میڈیکل کی تعلیم کے دوران سرجری کا امتحان تھا‘ معمول کے مطابق انہوں نے والدہ کو فون ملایا لیکن وہ کسی مصروفیت کی بنا پر فون اٹینڈ نہ کر سکیں‘ امتحان شروع ہوئے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا لیکن سبیّل کی خواہش تھی‘ پہلے ماں جی سے بات ہو جائے پھر پیپر دوں گا‘ کوئی آدھے گھنٹے بعد ان کا فون آیا تو جان میں جان آئی‘ بسم اللہ پڑھنے اور ماں سے دعا لینے کے بعد امتحان گاہ میں داخل ہوئے ۔ بتاتے ہیں‘ اس امتحان میں میرے بہترین نمبر آئے۔ پاکستان آ کر ایک برس کراچی اور ایک برس ٹائون شپ لاہور کی مسجد میں تراویح پڑھائی اور اب مسلسل تین برس سے مرکز لارنس روڈ لاہور پر نماز تراویح کے روح پرور اجتماع کی امامت کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا‘ میں نے بہت سے قاری حضرات کی تلاوت سنی ہے‘ لیکن آپ کی تلاوت کا انداز روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے ‘انسان خود کو ہوائوں میں اڑتامحسوس کرتا ہے۔ کہنے لگے:شروع کے سات آٹھ برس میرا اپنا کوئی انداز نہ تھا۔ میں سعود الشریم اور السدیس صاحب کو کاپی کرتا‘ پھر میرا اپنا انداز اس وقت سامنے آیا جب میں نے قرآن کے ترجمے اور اس کی روح کو سمجھنا شروع کیا۔ جب انسان کو قرآن سمجھ آنا شروع ہو جائے تو وہ اسے محسوس کر سکتا ہے اور جب محسوس کرتا ہے تو اسے اپنے انداز میں بیان بھی کر سکتا ہے۔ قرآن کو صرف زبانی یاد کر لینا کافی نہیں ہوتا۔ جب تک آپ اس کی تعلیمات سے گہرائی میں جا کر واقف نہیں ہوں گے‘ آپ تلاوت کا حق ادا نہیں کر سکتے اور آپ کی ادائیگی میں وہ تاثیر بھی نہیں آ سکتی جو ایک سامع آپ سے توقع رکھتا ہے۔
تلاوت قرآن کا کتنا اثر ہوتا ہے‘ اس کا اندازہ آپ حضرت عمرؓ کے قبول ِ اسلام سے لگا لیجئے۔ایک دفعہ حضرت عمرؓ کو گھر سے باہر رات گزارنی پڑی۔وہ حرم تشریف لائے اور خانہ کعبہ کے پردے میں گھس گئے ۔اس وقت نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور سورۃ الحاقّہ کی تلاوت فرما رہے تھے ۔حضرت عمرؓ قرآن کی تلاوت سننے لگے اور اس کی تلاوت پر حیران رہ گئے ۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے اپنے جی میں کہا ''خدا کی قسم یہ تو شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں‘‘لیکن اتنے میں آپﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ إِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُولٍ کَرِیم،ٍ وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِیلًا مَا تُؤْمِنُونَ ۔ ترجمہ: یہ ایک بزرگ رسول کا قول ہے ۔یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے ۔تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔حضرت عمر ؓکہتے ہیں میں نے اپنے جی میں کہا: (اوہو) یہ تو کاہن ہے ۔ لیکن اتنے میں آپ ﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی: وَلا بِقَوْلِ کَاھِنٍ قَلِیلًا مَا تَذَکَّرُونَ۔ تَنزِیلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِینَ ۔ ترجمہ: یہ کسی کاہن کا قول بھی نہیں،تم لوگ کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔ یہ اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے اس وقت میرے دل میں ایمان جاگزیں ہو گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ حضرت عمر ؓکے دل میں اسلام کا بیج زندہ ہوا اور جب اپنی بہن اور بہنوئی کو بھی سورہ طہٰ کی تلاوت کرتے سنا تو گویا ان کی زندگی بدل گئی‘ قرآن کی چند آیات نے ان کے دل پر اتنا اثر کیا کہ ماضی کی زندگی کو خداحافظ کہہ کر دائرئہ اسلام میں قدم رکھ دیا۔
آج ہمارے پاس سب کچھ ہے‘ موبائل ‘ ٹی وی ‘ سوشل میڈیا ہے‘ ہر طرح کی رونقیں ہیں لیکن پھر بھی ہم بے سکون اور بے قرار کیوں ہیں؟ کیوں یہ ساری ٹیکنالوجی‘ یہ رونقیں ہماری زندگی میں ایک پل کا بھی چین نہیں لا سکیں ؟ شاید اس لئے کہ ہم نے قرآن سے اپنا ناتا توڑ لیا ہے‘ ہم نے مدارس کو صرف نادار بچوں کا مسکن سمجھ لیا ہے‘ ہم بچوں کو جدید تعلیم تو دلاتے ہیں لیکن قرآن سے ان کا تعلق استوار کرنے کو تیار نہیں ہوتے‘ وہ قرآن جو ہماری کامیابیوں کا ضامن ہے‘ جو ہماری نجات‘ ہماری مغفرت اور ہماری رحمت کا ذریعہ ہے‘ آج ہمیں اپنی طرف بلا رہا ہے۔ کاش کہ ہم اس کی پکار کو سمجھ سکیں‘ ہم بھی اپنے بچوں کو ڈاکٹر سبیّل اکرام کی طرح بہترین نوجوان بنا سکیں!آج انتیسویں کی رات ایک مرتبہ پھر وہ تکمیل قرآن کی سعادت حاصل کر لیں گے‘ اللہ ایسی سعادت اور ایسا فرمانبردار بیٹا ہر کسی کو عطا فرمائے ۔آمین!