رات کا وقت تھا۔ ہر طرف سناٹا چھایا تھا۔ ایسے میں ایک سنسان سڑک پر ایک شخص کو ڈاکوئوں نے روک لیا۔ ایک نے اس پر بندوق تان لی‘ دوسرا تلاشی لینے لگا۔ ڈاکو مال سمیٹ کر جانے لگے تو ایک ڈاکو نے لٹنے والے کو پہچان لیا‘ پہلے تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا پھر اس نے موبائل کی ٹارچ روشن کی‘ قریب آیا اور اپنے شکار کا چہرہ دیکھا تو ہکا بکا رہ گیا۔ فوراً ساتھی کے قریب گیا اور آہستگی سے بولا: اس کا جو مال لُوٹا ہے‘ کیوں نہ اسے واپس کر دیں۔ یہ سن کر اس کا ساتھی آگ بگولا ہو گیا ‘ بولا: کیوں واپس کر دیں۔ ایسا تو ہم نے آج تک نہیں کیا‘ آخر ہم اپنی جان پر کھیل کر یہ کام کر رہے ہیں۔ ایسے مال واپس کرنے لگیں گے تو ہم تو بھوکے مر جائیں گے۔ پہلا ڈاکو بولا‘ بدبخت شخص‘ تجھے کیا معلوم۔ جب ہم کسی پولیس مقابلے میں مارے جائیںگے‘ تب ہمارے اپنے قریبی رشتہ دار بھی ہمیں پہچاننے اور لاش لینے سے انکار کردیںگے‘ تب کوئی ہمیںچھونے اور پاس تک آنے کو بھی تیار نہیں ہوگا اور اگرہم کسی بم دھماکے میں مارے گئے تو ہمارے چیتھڑے اڑ کر بجلی کی تاروں سے چپک جائیں گے‘ ہمارا بدن جل کر کوئلہ ہو جائے گا اور ہمارا دھڑ کسی درخت سے لٹکا ہوا ملے گا تو سب کے سب ناک پر رومال رکھ کر گزر جائیں گے‘ ہمارے کٹے پھٹے اعضا کی تصویریں کھینچ کر سوشل میڈیا پر ڈال دی جائیں گی لیکن یہ تصویریں کھینچنے والے ہمارے قریب آنے کی ہمت نہیں کریں گے اور اگر ہم کسی جرم کی پاداش میں جیل چلے گئے‘ ہم نے اپنی سزا مکمل کر لی اور جب چند ہزار روپے جرمانہ ادا نہ کر سکنے پر ہمیں مزید دس برس جیل میں رہنا پڑے گا تو کوئی ہماری مدد کو نہیں آئے گا‘ سب دوست رشتہ دار
ساتھ چھوڑ جائیں گے اور اگر ہمارے گھر کو آگ لگ گئی‘ گھر کا سارا سامان خاکستر ہو گیا‘ ہم اور ہماری بیوی آگ میں جھلس کر مرگئے تو کوئی ہمارے بچوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ تک نہیں رکھے گا‘ کوئی ہماری لاشیں تک نہیں دفنائے گا‘ ہمیں کسی ہسپتال کے مردہ خانے میں لاوارث سمجھ کر پھینک دیا جائے گا اور اگر خدانخواستہ ہمارے بچے کو کسی نے اغوا کر لیا‘ یہ بچہ کئی سال بعد رہا ہو کر کسی اور صوبے‘ کسی اور شہر میں پہنچ گیا تو کوئی اسے پناہ دینے والا نہ ہو گا‘ یہ سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہو گا یا پھر جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دے گا اور اگر ہماری زندگی کے بعد ہمارے بیوی بچے غربت کا شکار ہو گئے‘ یہ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہو گئے توکوئی انہیں کھانا دینے والا نہیں ہو گا اور جب یہ بیمار ہو گئے اور بخار کی دو گولیوں کے محتاج ہو گئے تو کوئی میڈیکل سٹور‘ کوئی ہسپتال انہیں بخار کی یہ گولیاں تک مفت دینے کو تیار نہیں ہو گا اور تب یہی آدمی‘ جسے ہم لُوٹ رہے ہیں‘ یہ شخص انسانیت کی خاطر آگے بڑھے گا‘ یہ ہمارے جلے کٹے اعضا اکٹھے کرے گا‘ یہ ہمارے دھڑ‘ بازو اور دیگر اعضا سے ہمارا جسم مکمل کرے گا‘ ہمیں ایمبولینس میں ڈالے گا‘ ہمارے گھر پہنچائے گا‘ ہمیں غسل دے گا‘ ہمیں کفن میں لپیٹے گا‘ ہمارا جنازہ پڑھائے گا‘ ہمیں قبرستان لے جائے گا‘ ہماری قبر تیار کروائے گا‘ ہماری تدفین کرے گا اورہمارا کوئی عزیز نشے کا عادی ہو گیا اور جب اس کے اپنے بھی اسے سنبھالتے سنبھالتے تنگ آ جائیں گے تب یہی شخص
اسے سڑک سے اٹھائے گا‘ علاج گاہ لے جائے گا‘ اسے دوبارہ زندگی میں واپس لائے گا‘ اسے انسان بنائے گا۔ اللہ کے بندے‘ یہی شخص جس کا مال ہم چھین رہے ہیں‘ یہی فرشتہ جیل میں خود چل کر آئے گا‘ ہمارا جرمانہ ادا کرے گا اور ہمیں پانچ دس برس جیل میں مزید سڑنے سے بچا لے گا‘یہ ہمیں رہائی دلائے گا۔ اے بیوقوف انسان!یہی شخص ہمارے بچوں کو سڑکوں پر بھیک مانگنے سے بچائے گا‘ یہ انہیں دارالامان پہنچائے گا‘ ان کے کھانے‘ ان کے علاج اور ان کی تعلیم کا انتظام کرے گا۔ اے ناسمجھ دوست! جس کا مال ہم لوٹ کر خوش ہو رہے ہیں‘ یہی شخص ایک دن ہمارے لئے مسیحا بن کر آئے گا‘ ہمارے زخموں پر مرہم رکھے گا اور اگر ہم نے آج اسے لُوٹ لیا تو ہم پھر کس منہ سے اس کا سامنا کریں گے اور جو مال ہم لُوٹ رہے ہیں وہ دراصل ہمارا اپنا مال ہے‘ جو یہ شخص سڑکوں پر بھیک کی صورت میں ہم جیسے عام لوگوں سے اکٹھا کرتا ہے اور ہمارے علاج‘ ہماری خوراک‘ ہماری رہائش‘ ہماری تدفین پر خرچ کر دیتا ہے‘ کیا ہم اتنے ظالم ہو گئے ہیں کہ ہم اپنے مہربان‘ اپنے مسیحا اور اپنے ہی مال کو لُوٹنے لگیں ‘کیا ہم ان پیسوں کو لُوٹ لیں جن سے کل کو ہماری قبر کھودی جائے گی‘ ہمارا کفن خریدا جائے گا‘جن سے ایمبولنس میں پٹرول ڈالا جائے گا‘ہمارے بچوں کو کھانا‘ علاج اور سر کی چھت میسر آئے گی‘ بیوائوں اور یتیموں کی پرورش ہو گی اور جن پیسوں سے کچرے کے ڈھیرسے لاوارث بچے اٹھا کر باعزت انسان بنائے جائیں گے‘ کیا ہم اتنے ظالم ہیں ‘ کیا ہم اتنے شقی القلب ہیں؟یہ کہتے ہوئے ڈاکو بچوں کی طرح رونے لگے‘ لوٹا ہوا مال واپس کیا‘ معذرت کی اور نکل گئے۔
یقین جانئے ہم تو ان ڈاکوئوں سے بھی کم تر ہیں جنہوں نے ایدھی صاحب کو پہچان لیا اور لُوٹا ہوا مال واپس کر دیا۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں ایدھی صاحب کے جانے کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے‘ کیا ایدھی صاحب ہوتے تو یہ سب پسند کرتے۔ وہ وی آئی پی شخصیات کی بجائے عام لوگوں میں گھلنا ملنا پسند کرتے تھے اور ہم نے ان کے جنازے کو وی آئی پیز میں قید کر دیا‘ انہوں نے زندہ ہوتے ہوئے بھی پروٹوکول نہیں لیا ہم نے ان کی میت کو پروٹوکول میں رکھ کر مقفل سڑکوں پر سے گزارا‘ وہ دکھاوے کے خلاف تھے‘ ہمارا ہر سیاستدان ان کے بارے میں رسمی بیانات دے کر اپنی جان چھڑا رہا ہے‘ ایدھی صاحب سڑک کنارے پڑے مفلوک الحال کے منہ میں دو بوند پانی ٹپکانے کو مقصد ِحیات سمجھتے تھے اور ہمارے حکمران ایوارڈوں‘ سڑکوں کے ناموں اور نوبل انعاموں کے ذریعے اپنے سر کا بوجھ اتارنا چاہتے ہیں۔ ذرا سوچیں‘ ایدھی صاحب کو ان کی والدہ دو پیسے دیتیں‘ ایک اپنے لئے اور ایک کسی غریب کیلئے‘ آج ہمارے درمیان کتنی مائیں ہیں جو بچوں کو ایسی ترغیب دیتی ہیں‘ ایدھی صاحب عید کے تیسرے روز فوت ہوئے‘ ہم میں سے کتنوں نے اپنے بچوں کو اپنی عیدی‘ جیب خرچ کا کچھ حصہ کسی ایدھی فنڈ‘ کسی غریب کی جھولی میں ڈالنے کیلئے کہا‘ ہم میں سے کتنوں نے خود سے وعدہ کیا ہم آئندہ مہنگے کپڑے بنوانے‘ پارلر سے سجنے سنورنے‘ نئی نت نئی جیولری خریدنے ‘موبائل فون‘ گاڑی اور فرنیچر بدلنے کی بجائے کسی ضرورت مند کا بوجھ اتاریں گے‘ کسی قیدی کا جرمانہ اداکریں گے‘ کسی مقروض کو قرض سے چھڑائیں گے‘ کسی بیمار کا علاج کرائیں گے ‘ کسی یتیم کی سکول فیس ادا کریں گے‘ کسی کی تدفین کے اخراجات کا ذمہ لیں گے یا کسی غریب کی بیٹی کی شادی کیلئے معاونت کریں گے؟ اگر ہم مستقبل میں بھی ایسا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے‘ اگر ہم اپنے بچوں کو ایدھی کے راستے پر چلنے کی ترغیب نہیں دلاتے تو پھر ہم کس منہ سے ایدھی کا نام لے رہے ہیں‘ پھر کیونکر ہم ایدھی کی تصاویر‘ ان کی ویڈیوز فیس بک پر فارورڈ کر رہے ہیں۔ فارسی کا محاورہ ہے ‘درویش اگر ایک روٹی کھاتا ہے تو وہ آدھی دوسرے کو دے دیتا ہے اور اگر ایک بادشاہ کے پاس ایک سلطنت ہو تو وہ ایک اور سلطنت کی خواہش کرتا ہے۔ہم لوگوں کا تعلق دوسرے طبقے سے ہے۔ ہم ایدھی صاحب کے فلسفے‘ ان کی شخصیت اور ان کے کارناموں کاشور تو مچا سکتے ہیں‘ ہم ان کا نام لے کر اپنا قد بڑا کرنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں مگر ان کے راستے پر چلنے اور دو میں سے ایک آنہ غریب کو دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ہم کیسے بدقسمت لوگ ہیں؟