ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان اس عید الفطر کے بعد الگ الگ برطانیہ پہنچے تھے۔ خان صاحب کی کچھ نجی مصروفیات تھیں اور غالباً شوکت خانم ہسپتال کی کچھ تقریبات تھیں جن کے لئے یہ دورہ رکھا گیا۔دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری تحریکی مصروفیات کے باعث لندن پہنچے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ دونوں دو سال قبل دھرنے سے پہلے بھی لندن میں ایسے ہی اکٹھے ہوئے تھا اور آج بھی کہا جا رہا ہے کہ وہاں ان دونوں کی خفیہ ملاقات ہوئی جس میں آئندہ کی احتجاجی سیاست کا لائحہ عمل طے کیا گیا۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے مقاصد مختلف لیکن اندازِ سیاست ایک جیسا ہے۔دو سال قبل دھرنے کے وقت بھی ان پر یہی الزام لگا کہ ان دونوں کے درمیان لندن میں ملاقات ہوئی جس کے بعد یہ اسلام آباد روانہ ہوئے۔ماڈل ٹائون قتل عام کو دو سال ہو چکے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے بقول وہ انصاف لینے کے لئے آخری حد تک جائیں گے لیکن جب بھی آخری حد آنے لگتی ہے ڈاکٹر صاحب بوریا بستر سمیٹ لیتے ہیں۔ وہ لوہے کو خوب گرم کرتے ہیں اور جب چوٹ لگانے کی باری آتی ہے تو اس سرعت سے کھسکتے ہیں کہ ان کے اپنے سائے کو بھی خبر نہیں ہوتی۔دھرنے کے دوران ایک مرتبہ انہوں نے اٹھارہ ہزار کفن سلوانے کا بھی آرڈر کر دیا‘ اجتماعی قبریں بھی کھودی جانے لگیں ‘پھر یکدم ڈاکٹر صاحب کہانی نامکمل چھوڑ کر کینیڈا سدھار گئے۔ اب دو سال بعد چھ اگست کو ڈاکٹر صاحب پھر اسی گاڑی میں سوار ہیں۔ یہ گاڑی کہاں جا کر رکے گی‘یہ اللہ جانتا ہے یا ڈاکٹر صاحب۔نئی احتجاجی تحریک کے دوسرے شہسوارعمران
خان ہیں‘ ان کے مسائل ڈاکٹر صاحب سے مختلف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی جماعت کی حیثیت صرف پریشر گروپ کی ہے۔ خان صاحب البتہ بیس برس سے سیاسی تحریک چلا رہے ہیں۔ لیکن جب وہ احتجاج کرنے پر آتے ہیں تو اپنی تمام سیاسی جدوجہد پر پانی پھیردیتے ہیں۔ایسا کرتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک عدد صوبے کے وہ ذمہ دار ہیں۔ وہاں کے دو کروڑ ستر لاکھ عوام بھی اسی طرح بجلی‘ روٹی‘ پانی اور دیگر ضروریات کے خواہشمند ہیں جیسا کہ دیگر صوبوں کے عوام۔ اگر وہ ایک صوبے کو ماڈل صوبہ بنا دیتے تو جس طرح شوکت خانم کو دیکھتے ہوئے خان صاحب پر لوگوں نے پیسے نچھاور کر دئیے‘ وہ آئندہ مرکز میں حکومت بنانے کے لئے انہیں ایک ووٹ دینے سے کیوں احتراز کرتے؟ میں سمجھتا ہوں خان صاحب اس معاملے میں ٹریپ ہوئے ہیں۔ اگر وہ بہترین ہسپتال بنا سکتے ہیں‘ بہترین یونیورسٹی چلا سکتے ہیں اور بحیثیت کپتان کرکٹ ٹیم کو لیڈ کر کے اسے ورلڈ کپ دلا سکتے ہیں تو پھر اپنے صوبے کے ہسپتال‘ اس کے سکول‘ اس کے تھانے اور دیگر ادارے بھی ٹھیک کر سکتے تھے۔تین سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا۔ برادرم عامر خاکوانی نے بھی گزشتہ دنوں یہی نکتہ اٹھایا کہ اگر اس دوران میں کوئی اقدامات کئے گئے تو وہ دکھائی کیوں نہیں دیتے۔ عوام کو کیا ملا؟ سوائے پولیس کو سیاسی دبائو سے آزاد کرنے ‘ٹریفک اہلکاروں کی بہتری اور احتساب کے دعووں کے؟رشتہ داروں کو سیاست سے دور رکھنے کی بات بھی کی گئی لیکن بلدیاتی انتخابات میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور دیگر وزرا کے قریبی عزیز انتخابات لڑے اور جیتے بھی۔خان صاحب کو سوچنا چاہیے کہ جب عام آدمی یہ سب دیکھتا اور سنتا ہے تو وہ کس طرح آئندہ ووٹ مانگیں گے۔ اگلے انتخابات سے قبل کیا عوام کے پاس وہ دھرنوں اور احتجاجوں کی کہانیاں لے کر جائیں گے؟ فلاں چور ہے‘ فلاں کرپٹ ہے‘ یہ باتیں عشروں سے ہو رہی ہیں۔اگر عوام کو کچھ نہیں ملا تو ترقی نہیں ملی‘ روزگار اور انصاف نہیں ملا‘بنیادی حقوق نہیں ملے۔ اگر آنجناب نے بھی عوام کو لاروں پر رکھنا ہے اور ہر مہینے دو مہینے بعد اٹھ کر احتجاج کے لئے نکل پڑنا ہے تو پھر آپ میں اور دیگر میں کیا فرق؟آپ احتجاج ضرور کریں لیکن خدا کے لئے پورے پاکستان‘ پورے میڈیا کو یرغمال تو نہ بنا لیں۔ آپ نے میڈیا کی کمزور ی کو اپنی
طاقت سمجھ لیا ہے۔ میڈیا اگر سکندر کو دو روز براہ راست دکھاتا ہے تو کیا ہر دوسرے شخص کو بندوق اٹھا کر کوریج اور شہرت کے لئے سڑکوں پر نکل آنا چاہیے۔ کیا سیاستدانوں کا یہی کام رہ گیا ہے؟ پاناما لیکس جیسے مضبوط کیس کو بھی آپ کی پارٹی نے خود کمزور کر دیا۔ پیپلزپارٹی کے آپ اس طرح اب لتے نہیں لیتے ‘ زرداری صاحب کو رگڑا نہیں لگاتے ۔ کیوں؟کیونکہ آپ کو ان کی ضرورت ہے۔آپ اتنا بھی نہ سمجھے کہ پیپلزپارٹی کبھی حکمرانوں کا احتساب نہیں چاہے گی پھر بھی ان کے پیچھے لگے ہیں۔ کس وقت شادی کرنی ہے‘ کس وقت طلاق دینی ہے‘یہ بات عام آدمی کو نہیں لیکن آپ کو تو سوچنی ہے۔ عام آدمی تو سیاست نہیں کر رہا‘ آپ کی حرکات و سکنات آپ کی سیاست پر اثرانداز ہو سکتی ہیں‘ آپ کو اس کا ابھی تک اندازہ ہی نہ ہو سکاا ور اب جبکہ صرف اٹھارہ ماہ باقی ہیں‘ جب فصل کاٹنے کا وقت آیا ہے‘آپ احتجاج کے لئے چل نکلے ہیں۔ڈاکٹر طاہر القادری‘ شیخ رشید کی تو کوئی سیاسی حیثیت نہیں‘ وہ تو موقع ملتے ہی پتلی گلی سے نکل جائیں گے‘ آپ کا کیا ہو گا؟ آپ اپنے ووٹروں کی امیدوں کو جس انتہا تک لے جا چکے ہیں‘ جن نوجوانوں کو تبدیلی کے خواب دکھا چکے ہیں‘ جب ان کی امیدیں اور ان کے خواب ٹوٹیں گے تو یہ نوجوان اپنے سینے کی آگ اور دل کا غبار کہاں نکالیں گے‘ وقت ملے تو سوچئے گا۔
کبھی اگست کا مہینہ آتا تھا تو ہم چودہ اگست کا انتظار کرتے‘ اگست کے آغاز سے ہی جھنڈیاں ‘پرچم لگانے اور گھروں کو سجانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ اگست اب بھی آتا ہے۔مگر اب اس کی خوشیوں کو انتشار اور اضطراب نے گھیر رکھا ہے۔ترقی پسندانہ سیاست ہوتی تو ان دھرنوں کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ کسی پر کیچڑ اچھالنے اور اسے برا بھلا کہنے میں جو وقت لگتا ہے‘ کیا انسان کو وہی وقت اپنے کردار اور عمل کو بہتر بنانے پر نہیں لگالینا چاہیے؟ کیا یہ بات خان صاحب کو وقت ہاتھ سے نکلنے کے بعد سمجھ آئے گی؟وقت اب بچا ہی کتنا ہے؟خان صاحب دھرنے اور احتجاج کی نئی لہر شروع کر کے اپنی پارٹی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے جا رہے ہیں۔
گزشتہ روز عمران خان پریس کانفرنس کر رہے تھے تو ایک خاتون ڈائس پر آ گئی اور دہائیاں دینا شروع کر دیں۔ وہ خیبر پختونخوا میں محکمہ ایجوکیشن کی ملازمہ تھی اور اسے اپنے ادارے میں کرپشن کی نشاندہی پر بنوں ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔ وہ اپنا مسئلہ خان صاحب کو سنانا چاہتی تھی لیکن خان صاحب کے ساتھ موجود وی آئی پیز نے اسے بزور بازو خان صاحب کے قریب آنے سے روک دیا۔ یہ منظر کس قدر دل سوز تھا۔ گمان یہی تھا کہ خان صاحب آگے بڑھیں گے‘خاتون کا مسئلہ سنیں گے اور اس پر کوئی ایکشن وغیرہ لیں گے لیکن سب حیران رہ گئے جب خان صاحب سٹپٹا اٹھے اور پریس کانفرنس ادھوری چھوڑکر چلے گئے۔ خان صاحب صلاح الدین ایوبی سے لے کر محمد بن قاسم تک کی مثالیں تو دیتے ہیں لیکن جب عمل کا موقع آیا تو ایک فریادی کی فریاد پر ایکشن لینا تو دُور کی بات‘ میڈیا کے کیمروں کے سامنے اسے سننا تک گوارا نہ کیا۔ کیا یہ رویہ ان جیسے لیڈر کو زیب دیتا ہے؟