میٹرک کے ایک طالب علم نے دو سال بھرپور محنت کی۔ اسے علم تھا میٹرک میں اچھے نمبر آ گئے تو آگے اچھے کالج میں داخلہ مل جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے اسے انعام میں لیپ ٹاپ مل جائے۔ وہ سوچتا اگر وہ ٹاپ کر گیا تو اسے بڑے نجی کالج ہاتھوں ہاتھ لیں گے‘ اس کی فیس بھی معاف ہو جائے گی‘ مفت ہوسٹل ملنے سے شہر میں رہائش کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور اگر قسمت کی دیوی مزید مہربان ہوئی تو کوئی بعید نہیں‘ اسے کالج کی طرف سے انعام میں گاڑی بھی مل جائے۔ اگر ایسا ہو گیاتو وہ سب سے پہلے اپنی والدہ کو اس میں بٹھا کر سیر کرائے گا۔ گائوں سے شہر آنے میں جو دھکے ‘ گرمی اور ذلت برداشت کرنی پڑتی ہے وہ ختم ہو جائے گی۔ خواب آنکھوں میں سجائے وہ دن رات محنت کرتا رہا۔ جب میٹرک کا نتیجہ آیا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ بڑے کالج میں داخلے کے لئے وہ چالیس نمبروں سے رہ گیا۔ یہ نمبر جن چار پرچوں میں کٹے تھے‘ ان میں اس کی تیاری بہترین تھی۔ ریاضی‘ فزکس‘ کیمسٹری اور انگلش۔ ان میں اسے بھرپور مہارت تھی اوروہ سکول میں ان میں پورے پورے نمبر لیتا تھا۔ کسی نے اسے مشورہ دیا کہ اگر بڑے کالج میں داخلہ نہیں بھی ہوا تو کوئی بات نہیں‘ ری چیکنگ کی درخواست دے دو اور ساتھ ہی کسی کالج میں داخل ہو جائو اور ایف ایس سی کے امتحان کی تیاری کرو۔ اصل ٹرننگ پوائنٹ ایف ایس سی ہے۔ اس کے بعد ہی تمہارے کیرئیر کا تعین ہو گا۔ اگر میٹرک میں نمبر کم آئے ہیں تو وہی کسر ایف ایس سی میں نکال لو۔ اس نے ری چیکنگ کی درخواست دے دی اور ایک کالج میں داخلہ بھی لے لیا۔ ری چیکنگ میں اس کے پینتیس نمبر بڑھ گئے مگر وہ پھر بھی پانچ نمبروں سے ٹاپ کے کالج میں داخلے سے رہ گیا۔ وہ طالب علم اس
مسئلے کو دل کا روگ بنا چکا تھا۔ وہ ہر صورت اس بڑے کالج میں داخلہ چاہتا تھا۔ اس نے یہ کیس عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ آگے پڑھائی پر توجہ دینے کی بجائے ان پانچ نمبروں کے لئے وقت اور توانائیاں ضائع کرنے لگا ۔دو سال انہی چکروں میں گزر گئے۔ ایف ایس سی کے فائنل امتحان میں دو مہینے باقی تھے اور وہ دفتروں اور عدالتوں میں درخواستیں لے کر پھررہا تھا۔ دوستوں نے بہت سمجھایا کہ بھائی آگے محنت کر لو‘ پانچ نمبروں کو دل پر نہ لگائو اور فضول میں وقت ضائع نہ کرو لیکن وہ مزاج کا پکا تھا۔ پھر وہی ہواجس کا ڈر تھا۔ ایف ایس سی کا نتیجہ آیا تو اس کے نمبر اتنے کم تھے کہ وہ کسی اچھے میڈیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹی تو کجا‘ کسی عام جگہ بھی داخلہ نہ لے سکا۔ اب اسے احساس ہوا کہ اسے یہ دو سال ضائع نہیں کرنے چاہیے تھے اور اگر وہ بھرپور محنت کرتا تو اچھے نمبر حاصل کر کے کسی اچھی یونیورسٹی میں داخل ہو جاتا اور ڈاکٹر یا انجینئر بن کر نکلتا۔
میں یہ مثال اگر نہ دیتا اور سو مرتبہ بھی یہی لکھتا رہتا کہ عمران خان صاحب کو احتجاج سے زیادہ اپنے صوبے کو بہتربنانے پر توجہ دینی چاہیے تو شاید سمجھا نہ پاتا۔مقدمہ صرف اتنا ہے کہ خان صاحب نے بھی اس طالب علم کی طرح ماضی کورونے میں وقت اور توانائیاں ضائع کی ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہو گی لیکن کتنی؟ دس بارہ سیٹیں وہ مزید لے بھی جاتے تو حکومت پھر بھی نہ بنا پاتے۔ چار حلقوں کے حوالے سے انہیں شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا لیکن کیا یہ ضروری تھا کہ صوبے کو اس چکر میں نظرانداز کر دیا جائے۔ پہلے لوگ مذہبی طور پر مقلد بنتے تھے‘ اب سیاستدانوں کے بھی مقلد بن چکے۔ آپ گزشتہ روز پریس کانفرنس میں خیبرپختونخوا کی محکمہ ایجوکیشن کی خاتون والے واقعے کو ہی لے لیں‘ اس پر سوشل میڈیا پر طوفان مچا ہوا ہے۔خان صاحب کے مقلدین کے مطابق عورت غلط تھی جبکہ دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ خان صاحب میں سننے کی بھی برداشت اور صلاحیت موجود نہیں۔ کہا گیا کہ اس خاتون کے خلاف غیرحاضری پر انکوائری چل رہی تھی اور اس نے یہ ڈرامہ سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے رچایا۔ ہم اس بات کو درست بھی مان لیں تو مسئلہ حل نہیں ہوتا اس لئے کہ مسئلہ یہ ہے ہی نہیں کہ وہ خاتون حق پر تھی یا نہیں۔ اصل چیز مینجمنٹ اور لیڈر شپ کا فقدان تھا‘ جو خان صاحب میں نظر آیا۔ اگر آج وہ ایک خاتون کا معمولی مسئلہ سننے کی بجائے پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ دیتے ہیں تو کل کو بطور وزیراعظم بیس کروڑ لوگوں کے مسائل کیسے سنیں اور کیسے حل کریں گے؟ اگر آج وہ ایک صوبے میں تبدیلی نہیں لا سکے تو کل کومرکز میں آ کر پورے ملک کو کیسے تبدیل کریں گے؟ یہ باتیں کڑوی ضرور ہیں لیکن ادویات بھی کڑوی ہوتی ہیں لیکن ان سے صحت بھی تو ملتی ہے۔ مان لیتے ہیں اس خاتون کو دوران کانفرنس سٹیج پر نہیں آنا چاہیے تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی معاشرے کا ستایا ہوا شخص ایسا ہی کرتا ہے۔ اگر اس خاتون نے غلطی کر ہی لی تھی تو خان صاحب تو ایسا نہ کرتے۔ وہ اسے سٹیج پر لا کر دو چار منٹ دے دیتے توکونسی قیامت آ جاتی۔ اور جب وہ دل کا غبار نکال لیتی تو اس کا مسئلہ کسی کو ریفر کر دیتے۔اصل مسئلہ وہ جھنجلاہٹ تھی جو خان صاحب کی جانب سے دیکھنے میں آئی کہ جو شخص نہ ابھی اپوزیشن لیڈر ہے نہ وزیراعلیٰ نہ وزیراعظم‘ اگر وہ حکومت میں آئے بغیر اس طرز عمل کا مظاہرہ کر رہا ہے تو حکومت میں آ کر کیا کرے گا۔ وہ خاتون پنجاب کی ہوتی تو اس کا مسئلہ پی ٹی آئی زوروشور سے اٹھاتی۔ کہا جاتا خادم اعلیٰ کے صوبے میں عورتوں پر کتنا ظلم ہو رہا ہے۔ دیکھو ایک خاتون پنجاب سے چل کر خیبرپختونخوا کے ذمہ داروں سے انصاف مانگنے آ گئی۔ کہا گیا کہ یہ عورت پلانٹ کی گئی۔ تحریک انصاف ان وہموں سے کب باہر آئے گی؟ ہر چیز کو سازش کی نظر سے دیکھنا کب بند کرے گی؟کب اپنا قبلہ درست کرے گی؟
ایک اور واقعہ سنیں۔ گزشتہ دنوں جنوبی پنجاب سے ایک دوست تشریف لائے۔ وہاں کی مسجد کا ایک واقعہ سنانے لگے: مظفرگڑھ کی ایک جامع مسجد میں خطبہ کے دوران بجلی چلی گئی۔ پنکھے وغیرہ بند ہو گئے اور حبس اور گرمی بڑھ گئی۔ مائیک یو پی ایس پر تھا اس لئے چلتا رہا۔ خطیب نے خطبے کے دوران ہی حکمرانوں کو جلی کٹی سنانا شروع کر دیں۔ کہا‘ یہ سب لوڈشیڈنگ کے ذمہ دار ہیں۔ نہ زرداری صاحب لوڈشیڈنگ ختم کر سکے نہ نوازشریف۔ یہ لوگ بس وعدے کرتے ہیں اور اقتدار میں ا ٓ کر بھول جاتے ہیں۔ ابھی خطیب صاحب یہ بات کر ہی رہے تھے کہ یو پی ایس بھی بند ہو گیا کہ کئی ہفتوں سے اس کا پانی چیک نہیں کیا گیا تھا۔ مسجد میں جنریٹر موجود تھا لیکن وہ بھی خراب رہتا یا ڈیزل موجود نہ ہوتا۔ اب لوگوں کو نہ پنکھے میسر تھے نہ خطیب کی آواز۔ مجبوراً اسی حالت میں نماز کھڑی کرنا پڑی۔ صحن‘ بیسمنٹ اور دوسرے کمروںمیں آواز نہ پہنچنے کی وجہ سے بعض لوگوں کی جانب سے اللہ اکبر کی آواز آتی اوریوں لوگوں نے بغیر سنے اندازے سے نماز مکمل کی۔ان صاحب نے یہ بھی بتایا کہ یہ پہلا واقعہ نہ تھا‘ وہاں آئے روز یو پی ایس بھی خراب رہتا ہے‘ جنریٹر میں کبھی تیل ہوتا ہے تو کبھی نہیں۔حالانکہ مسجد کو قریب کی پوری مارکیٹ کی دکانیں باقاعدگی سے چندہ دیتی ہیںا ور مخیر حضرات بھرپور امداد کرتے ہیں‘ اس کے باوجود کمزور انتظامی امور کے باعث لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان جنریٹرز میں تیل زرداری یا نواز شریف نے آ کر ڈالنا تھا؟ وہ اگر اپنی ذمہ داری نہیں نبھا رہے تو جس حد تک ہماری ذمہ داریاں ہیں‘ کیا ہم ان کو درست طور پر ادا کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے پاس یہ سب سوچنے کا وقت ہے ؟کیا ہم کبھی اپنا احتساب کریں گے یا دوسروں کو ہی کرپٹ‘ غدار اور دھوکے باز کہہ کر اپنا ''فرض‘‘ پورا کرتے رہیں گے ؟