تازہ ترین خبر یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے آبائی علاقے میں بجلی چوری عروج پر ہے۔گزشتہ دنوں ان کے قریبی عزیز سمیت بائیس عزیز بجلی چوری کیس میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔پیسکو حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیراعلیٰ بھی بجلی چوروں کی مدد کر رہے ہیں۔
ایسی تمام تر خبروں پر ہمیں یقین نہیں کرنا چاہیے کیونکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تو کرپشن سے پاک ہیں۔ ہمیں تو صرف عمران خان کو دیکھنا ہے۔ ان کی ٹیم کمزور ہے‘ اس میں خامیاں ہیں یاوہ اپنے صوبے میں ڈیلیور نہیں کر پا رہے‘ ان تمام باتوں سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ان کی نشاندہی کرنی چاہیے۔ ایسا کرنا سراسر جرم ہے۔ جو بھی یہ جرم کرے گا وہ اس ملک کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا۔
خیبرپختونخوا حکومت کا سرکاری ہیلی کاپٹر وزیرتعلیم نے استعمال کیا‘ تو ان پر غلط تنقید کی گئی۔یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ لکی مروت سکول کے افتتاح کے لئے وہاں بائی روڈ بھی جایا جا سکتا تھا ۔یہ مان لینا چاہیے کہ ہیلی کاپٹر سرکاری استعمال کے لئے ہی مخصوص ہے اور اسی لئے عاطف خان انجینئرز کی ٹیم کو لے کر وہاں پہنچے۔ یہ سوال کرنا سراسر زیادتی ہے کہ کیا وہاں کوئی ایمرجنسی تھی؟ کیا کسی زخمی کی مدد درکار تھی؟ کسی کو ایئرایمبولینس درکار تھی؟ اگر ایمرجنسی نہیں تھی تو پھر لاکھوں روپے کا فیول کیوں خرچ کیا گیا؟ اس طرح کے سوالات کرنے والا محب وطن نہیں کہلا سکتا ۔
ہمیں خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی کارکردگی پر بھی انگلی نہیں اٹھانی چاہیے کیونکہ وہ صوبہ دہشت گردی سے تباہ حال اور سب سے زیادہ متاثر ہے۔ اس لئے اس کا دیگر صوبوں سے موازنہ نہیں کرنا
چاہیے۔ تحریک انصاف کو ویسے بھی پہلی مرتبہ حکومت ملی ہے۔ یہ پانچ سال تو صرف حکمرانی کا ذائقہ چکھنے کے لئے بھی ناکافی ہیں۔ مسلم لیگ نون تو عرصہ تیس برس سے پنجاب کو نہیں سنوار سکی تو تحریک انصاف ایک ہی دور میں کیسے صوبے کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے۔ تحریک انصاف کو بھی کم از کم اگلے بیس تیس برس دے دینے چاہئیں۔ جہاں تک پنجاب کی بات ہے‘ تو اس کی حالت پہلے سے بگڑ چکی۔ بڑے شہروں کی چند سڑکوں اور چند ترقیاتی منصوبوں کے سوا کسی چیز پر توجہ نہیں دی گئی۔جس صوبے میں صحت کے لئے فل ٹائم وزیر مختص نہ ہو‘ جہاں سرکاری ہسپتالوں میں جاتے ہوئے باقاعدہ خوف آتا ہو ااو رجہاں کے نجی ہسپتال ڈاکوئوں کی طرح عوام کو لُوٹ رہے ہوں‘ اسے کون عقل کا اندھا ترقی یافتہ کہہ سکتا ہے۔ موجودہ حکمران صرف اور صرف اپنے مفاد کے لئے صوبے پر قابض ہیں۔یقین کریں‘ اگر شہباز شریف چند کام کر لیتے تو میٹرو یا اورنج ٹرین پر کبھی تنقید نہ ہوتی۔ لوگوں کی شہباز شریف‘ زرداری یا عمران خان سے ذاتی دشمنی نہیں۔ وہ صرف اس بات پر کڑھتے ہیں کہ یہ لوگ اتنے عرصے سے اقتدار میں ہیں لیکن یہ بھی نہیں سمجھ سکے کہ عوام کے مسائل ہیں کیا؟ تعلیم‘ صحت اور روزگار کے حوالے سے جو چند کام کئے جاتے ہیں‘ وہ رسمی ہوتے ہیں اور ان کا مقصد اپنی تعریف زیادہ اور عوام کی خدمت کم ہوتا ہے۔تعلیم کے حوالے سے شہباز شریف
صاحب نے کیا کیا؟ چند دانش سکول بنائے۔ وہ سکول اب کہاں ہیں؟ کس حالت میں ہیں؟ کوئی جا کر دیکھے اور بتائے۔بچوں کی سکولوں میں انرولمنٹ اور مفت کتابوں کا سلسلہ چودھری پرویز الٰہی کے دور میں شروع ہوا تھا۔ اسی کو نئے رنگ کے ساتھ پیش کر کے نمبر بنانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ سرکاری سکولوں کی صورتحال بہتر ہوتی تو میٹرک کے نتائج خود اس کے گواہ بن جاتے۔ صحت کے حوالے سے کارکردگی صفر ہے۔لاہور میں پنجاب کارڈیالوجی دل کا اکلوتا سرکاری ہسپتال ہے۔ گزشتہ دنوں اس کے لئے دو انیجوگرافی اور ایک سی ٹی سکین مشین کے لئے وزیراعلیٰ نے چوہتر کروڑ روپے جاری کئے۔ یہ مشینیں کئی ماہ سے درکار تھیں لیکن چونکہ اس کی اجازت بھی وزیراعلیٰ نے دینا تھی چنانچہ جب انہیں فرصت ملی یا ان کے دل میں رحم آیا‘ انہوں نے فنڈز ریلیز کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اورنج ٹرین البتہ وہ پورے جوش و جذبے سے بنا رہے ہیں۔ ہائی کورٹ نے حال
ہی میں اس پر کام روکنے کا حکم دیا ہے لیکن حکومت پنجاب سپریم کورٹ جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اتنی پھرتیاں اگر دل کے ایک مزید ہسپتال کی تعمیر کے لئے بھی دکھائی جاتیں تو کیا حرج تھا؟ گردوں کے ڈائلسز کے ہزاروں مریض ادھر اُدھر رُل رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ تھوڑا سا ترس ان پر بھی کھالیتے اور ضلعی سطح پر ایک ایک ڈائلسز سنٹرقائم کروا دیتے تو ان کا کیا جاتا؟ یہ کتنا تکلیف دہ اور مہنگا عمل ہے‘ کیا وزیراعلیٰ پنجاب کو معلوم نہ ہو گا؟بچوں کا ایک چلڈرن ہسپتال لاہور میں کب تک بوجھ برداشت کرتا رہے گا‘ کیا وہ نہیں جانتے؟ یہ تو وزیراعلیٰ کی ماڈل ٹائون والی رہائش گاہ کے بالکل سامنے ہے۔ کبھی وہ بھیس بدل کر کوئی بچہ لے کر وہاں علاج کے لئے جائیں تو انہیں معلوم ہو‘ بندے کے ساتھ وہاں ہوتا کیا ہے۔روزگار کے لئے پنجاب نے بھی کچھ نہیں کیا۔ نوجوانوں کو ٹیکسی ڈرائیور بنانے کی وہی پرانی کوشش کی گئی اور وہ بھی بھاری قرض اور سود پر۔اب بچوں کے اغوا کا سلسلہ شروع ہے تو اسے بھی سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ کچھ بچے والدین کے رویے سے گھر چھوڑتے ہوں گے لیکن اغوا ہونے والے ننانوے فیصد بچوں کو والدین سے ناراضگی کا ذمہ دارٹھہرانا قابل قبول نہیں۔ اس ملک میں غریب کا بچہ اغوا ہو جائے یا بیماری سے مر جائے ‘ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن وزیراعظم گیلانی یا سلمان تاثیر کا بیٹا اغوا ہو تو تمام قومی ادارے اور ایجنسیاں حرکت میں آ جاتی ہیں۔ یہ کیسا مذاق ہے۔ کیا عام آدمی اس ملک کا شہری نہیں؟ کیا وہ ٹیکس نہیں دیتا؟ کیا انہی عوام کے دکھ درد نعروں کی صورت میں بیچ کر یہ لوگ بار بار الیکشن نہیں جیتتے؟ تو پھر وزیراعلیٰ پنجاب نے اغوا شدہ بچوں کے لئے کیا کیا؟ وہ کتنوں کے والدین کے پاس گئے؟ جو اغوا کار پکڑے گئے انہیں کیا سزا دلوا ئی گئی؟ کیا یہ درست نہیں کہ یہ مجرم قانون کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر چھوٹ جائیں گے اور دوبارہ یہی جرائم دہرانے لگیں گے۔ان سوالوں کا جواب کون دے گا؟ آپ وزیرقانون رانا ثنا اللہ کے ذریعے پریس کانفرنس کرا کر اگر یہ سمجھتے ہیں کہ مغوی بچوں کے والدین کو سکون آ جائے گا تو یہ سراسر غلط فہمی ہے۔ جس ماں کا لخت جگر اس سے چھن جائے اس کی آہ تو آسمان تک کا سینہ شق کر سکتی ہے۔حکمران اس کے سامنے کیا چیز ہیں۔
بجلی چوری وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے حلقے میں ہو اور وہ اپنے عزیزوں کو بچانے کی کوشش کریں تو ان کا بھی محاسبہ ہو گا‘ہیلی کاپٹر سرکاری ہو تو حکمرانوں کے پاس عوام کی امانت ہوتا ہے‘ اس کا درست استعمال حکمرانوں پر فرض ہے اور اگر وزیراعلیٰ شہباز شریف کے شہر میں بچے اغواہو رہے ہوں‘ ہسپتال بھوت بنگلے بنے ہوں تو لوگ ان سے بھی سوال کریں گے۔ معافی کسی کو نہیں ہو سکتی۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف توتیسری مرتبہ اس عہدے پر ہیں۔ اگر ان کے دور میں اب بھی لوگوں کو ہسپتالوں میں موت اور ذلت کے سوا کچھ نہیں مل رہا تو پھر عوام اورنج ٹرین کو کیوں قبول کریں گے؟ ہر کسی کو اپنا حساب دینا ہے۔ خیبرپختونخوا اگر تباہ حال تھا تو جناب!اقتدار سنبھالنے سے پہلے یہ سب سوچنا چاہیے تھا اور پنجاب! پنجاب کے حکمرانوں کا تو کوئی عذر قابل قبول ہو ہی نہیںسکتا۔حضور والا!کچھ کر کے دکھائیں‘ وگرنہ چھوڑیں اس کی جان اور کسی قابل کو موقع دیں۔