میرے سامنے دو خبریں ہیں۔
پہلی خبر وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے ہے جنہوں نے ملک بھر میں 39 جدیدترین ہسپتالوں کی تعمیرکی منظوری دے دی ہے۔ان انتالیس ہسپتالوں میں سے چھ ‘چھ سوبستروں کی گنجائش کے حامل تین ہسپتال اسلام آباد میںتعمیر کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں پانچ سو بستروں کے دس اور اڑھائی سو بستروں کے بیس ہسپتال قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے ۔ تمام ہسپتالوں کی تعمیرپر 110ارب روپے لاگت آئے گی۔وزیراعظم نے ملک بھر میں ہسپتالوں پرپیش رفت کی ذاتی طور پر نگرانی کا بھی عندیہ دیا۔یہ بھی کہا گیا کہ ہسپتالوں کی تعمیر کیلئے مقامات کو حتمی شکل دیتے ہوئے بلوچستان ‘اندرون سندھ‘ جنوبی پنجاب‘ خیبر پختونخوا ‘فاٹا ‘آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کا سروے کیا جائے اور غربت درجہ بندی‘دورافتادگی ‘بیماریوں کا بوجھ‘سرکاری اور نجی ہسپتالوں کی موجودگی‘ صحت عامہ کے ناقص اشاریوں کو ترجیح دی جائے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان ہسپتالوں کی تمام تعمیرات آئندہ 18ماہ کے اندر مکمل کی جائیں گی۔
اب دوسری خبر کی طرف آئیے۔
خیبر پختونخوا حکومت نے میگا پراجیکٹ سوات موٹر وے کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے جس پر35 ارب روپے لاگت آئے گی۔وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے گزشتہ ہفتے سوات موٹروے کا افتتاح کیا۔ موٹروے صوابی میں کرنل شیر خان شہید انٹرچینج سے چکدرہ تک جائے گی۔اکیاسی کلومیٹر پر مشتمل اس موٹروے کا فاصلہ پینتالیس منٹ میں طے کیا جا سکے گا۔ روزانہ اٹھارہ ہزار گاڑیاں اس موٹروے کو استعمال کریں گی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ کے تحت اس منصوبے کا بھی اہم ترین نکتہ یہی ہے کہ یہ منصوبہ بھی 18 مہینوں میں مکمل ہو گا ۔
ان دونوں خبروں میں جو چیز مشترک ہے‘ وہ آخری اٹھارہ ماہ ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ آخر وفاقی اور صوبائی حکومت کو یہ منصوبے شروع کرنے کا خیال اس وقت کیوں آیا جب آئندہ انتخابات میں صرف اٹھارہ ماہ باقی ہیں تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دونوں منصوبے عوام اور ملک دونوں کے لئے سود مند ہیں اور ان کا فائدہ بالآخر عوام کو ہی ہو گا۔ مسلم لیگ ن تو اگرچہ پنجاب میں اس طرح کے کئی ترقیاتی منصوبے شروع اور مکمل بھی کر چکی ہے لیکن خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ یہ بنیادی طور پر ایسے بڑے منصوبوں کے حق میں نہ تھی اور اسی لئے اس کے سربراہ عمران خان ہر دوسرے جلسے اور بیان میں میاں صاحبان کو موٹروے جیسے منصوبوں کے طعنے ضرور دیتے تھے۔ اسی طرح میٹرو بسوں ‘ انڈرپاسوں وغیرہ پر بھی کڑی تنقید کی جاتی رہی اور کہا جاتا کہ ایسے بڑے منصوبے عوام کی فلاح کے لئے نہیں بلکہ اپنی جیبیں بھرنے کے لئے شروع کئے گئے۔ اب تین سال گزرنے کے بعد جبکہ الیکشن میں دھاندلی والا ایشو بھی دب چکا ہے‘ دھرنے کے ذریعے اقتدار میں آنے کی کوشش بھی ناکام ہو چکی ہے اور پاناما لیکس پر بھی حکمران جماعت کو ٹف ٹائم
نہیں دیا جا سکا‘تحریک انصاف کے پاس میگا پراجیکٹس کے اعلانات اور ان کی تکمیل کاہی واحد راستہ بچا تھا ۔
عمران خان نے گزشتہ روز فرمایا‘ امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے۔ انہیں کوئی بتائے کہ یہ فرق صرف پنجاب یا سندھ میں نہیں خیبرپختونخوا میں بھی اتنا ہی بڑھ رہا ہے ۔خان صاحب کو معلوم ہے بقایا اٹھارہ ماہ میں ان کے پاس جادو کی کوئی ایسی چھڑی موجود نہیں جس کے ذریعے وہ پسے ہوئے عوام کو خوشحال کر سکیں؛ چنانچہ کڑوی گولی کھانے کے مصداق انہیں بھی موٹروے جیسے منصوبوں کا سہارا لینا پڑا جن پر وہ گزشتہ بیس برس سے تنقید بھی کرتے آ رہے ہیں اور سفر بھی۔ اگر وہ یہ کام پہلے کر دیتے تو سوات موٹر وے سے عوام اور خطے کو فوائد اب تک ملنا شروع ہو جاتے۔ موٹروے کی تکمیل کے بعد چالیس
سے زائد مقامات کی اہم اور بڑی منڈیوں تک رسائی ممکن ہو جائے گی اور ان چالیس منڈیوں تک رسائی ہونے کا مطلب ہزاروں لاکھوں افراد کے معاش میں بہتری آنا ہے۔ شکر ہے کہ آج تحریک انصاف کی حکومت کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ موٹروے کے کیا فوائد ہیں اور اگر انہوں نے اس طرح کے منصوبے مکمل نہ کئے تو کہیں آئندہ الیکشن میں عوام انہیں بالکل ہی فارغ نہ کر دیں۔ غربت‘ بے روزگاری اور مہنگائی کے حوالے سے دوسروں پر تنقید کرنا تو بہت آسان ہے لیکن عملی طور پر ان پر قابو پانا یا انہیں کم کرنا آسان نہیں۔ عمران خان جن امیدوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے تھے‘ لوگوں کو یقین تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ ایسا کریں گے کہ ان کے دن بدل جائیں گے اور تبدیلی کے نعرے کو عملی سانچے میں ڈھال کر اپنے لئے آئندہ الیکشن میں کامیابی کا راستہ ہموار کر لیں گے۔ ایسا تو مگر نہ ہوا البتہ اسی جماعت کی نقالی شروع کر دی گئی جس پر تنقید کی جاتی رہی۔ اس حوالے سے حکمران جماعت نے بہت بڑا کارڈ کھیلا ہے۔ وقت تو ان کے پاس بھی ڈیڑھ سال کا ہی بچا ہے لیکن وزیراعظم نے صحت جیسے اہم ایشو کو چنا ہے اور ساتھ ہی اسے کسی ایک صوبے تک بھی محدود نہیں رکھا۔ ہسپتالوں کے حوالے سے عمران خان کو زیادہ بہتر تجربہ حاصل تھا۔ وہ شوکت خانم کو کامیابی سے چلا بھی رہے ہیں‘ اپنے صوبے میں مگر وہ صحت کے شعبے میں ایسی کوئی انقلابی تبدیلی نہ لا سکے۔ وفاقی حکومت نے یہ سہرا اپنے سر باندھ لیا ہے۔ اگر واقعی ہر صوبے میں ایسے جدید ہسپتال بہترین سہولیات کے ساتھ وقت مقررہ میں مکمل کر دئیے گئے تو یہ منصوبہ جہاں عوام کو ریلیف پہنچائے گا وہاں حکمران جماعت کے ووٹ بینک میں زبردست اضافہ کرے گا۔ یہی کام خان صاحب کرتے تو انہیں بھی پذیرائی ملتی ‘ انہیںمگر ان کے دوستوں نے انہیں مخالفین پر تنقید کے نشتر برسانے اور جلسے جلوسوں میں مصروف رکھا۔ خان صاحب کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ وقت بہت ضائع ہو چکا‘ اب کچھ کرنے میں ہی عافیت ہے۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں‘ دونوں حریفوں کی اس سیاسی جنگ میں بہرحال فائدہ عوام کو ہی پہنچے گا۔ ایسے کام اگر پہلے اٹھارہ ماہ میں کئے جاتے‘ تو یہ تنقید ان پر نہ ہوتی کہ اب الیکشن کے قریب عوام کا خیال کیوں آ گیا ہے۔ وزیراعظم کو دیکھنا ہو گا کہ ان کے اعلانات صرف اعلانات ہی نہ رہ جائیں‘ ہسپتالوں کا اتنا بڑا نیٹ ورک بنانا آسان نہیں ۔ موجودہ سرکاری ہسپتالوں کا احوال سب کے سامنے ہے۔ کرپشن ‘ٹھیکیدار اور ڈرگ مافیا سے انہیں کیسے نمٹنا ہے‘ اس کے لئے انہیں اسی جذبے سے کام کرنا ہو گا جس جذبے سے شہبازشریف میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے لئے کام کرتے ہیں۔ محض چند تعمیراتی ڈھانچے اگر الیکشن سے قبل کھڑے کر بھی لئے گئے تو انہیں واقعتاً الیکشن سٹنٹ سے تعبیر کیا جائے گا۔ عمران خان کو بھی اپنے طرز سیاست پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ چاہے وہ تنقید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں لیکن عوامی فلاح کے ایسے منصوبوں میں صرف اس لئے مزید تاخیر نہ کریں کہ لوگ کہیں گے کہ وہ حکمران جماعت کی نقالی کر رہے ہیں۔سنا ہے کہ تحریک انصاف میں اس معاملے میں بھی دو دھڑے بن چکے ہیں۔ ایک دھڑا احتجاجی سیاست جبکہ دوسرا تعمیری سیاست پر مصر ہے۔عمران خان کو پہلے دھڑے سے خود کو بچانا ہو گا وگرنہ عوام ان کا اگلے انتخابات میں دھڑن تختہ کر دیں گے۔