لاہور کی ریلی میں بد انتظامی اور کراچی کے کمزور جلسے نے تحریک انصاف کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیاہے کہ نہ صرف رائے ونڈ مارچ کے تاریخ اور مقام کو بدلا جائے بلکہ اسے مارچ کی بجائے جلسے میں تبدیل کر دیا جائے۔ یہ دراصل عمران خان کا عجلت میں کیا گیا فیصلہ تھا جس کی انہیں پارٹی میں بھی مکمل حمایت حاصل نہ تھی۔ شیخ رشید اور ڈاکٹر طاہر القادری نے البتہ ضرور انہیں اُکسایا تھا جس کا جواب نون لیگ کو بنی گالا کے گھیرائو کی صورت میں دینا پڑا۔ وزیراعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کیلئے سولہ ستمبر کو امریکہ روانہ ہو رہے ہیں اور چوبیس ستمبر کو وطن لوٹیں گے۔ ان کا یہ دورہ بہت پہلے سے طے تھا لیکن تحریک انصاف کی قیادت کی لا علمی اور ہوم ورک کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے رائے ونڈ احتجاج کے لئے چوبیس ستمبر کی تاریخ دے دی۔ کسی سیانے نے انہیں مشورہ دیا کہ ممکن ہے وزیراعظم چوبیس کی رات گئے یا اگلے دن واپس پہنچیں تو اس طرح وہ وزیراعظم کی غیرموجودگی میں ان پر کس طرح دبائو ڈال سکیں گے۔ اب خبریں آ رہی ہیں کہ نہ صرف رائے ونڈ مارچ کی تاریخ چوبیس کی بجائے تیس ستمبر میں تبدیل کئے جانے کا امکان ہے بلکہ رائے ونڈ مارچ کو بھی رائے ونڈ سے پانچ کلومیٹردور اڈا پلاٹ کے جلسے میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ باخبر حلقوں کے مطابق تحریک انصاف کی قیادت تین ستمبر کو لاہور ریلی میں ہونے والی غلطیاں رائے ونڈ میں دہرانا نہیں چاہتی۔ شاہدرہ سے چیئرنگ کراس تک مارچ کا آئیڈیا جس افلاطون کا بھی تھا‘ اس کی ذہانت کی داد دینی چاہیے کہ اس نے کسی خوبصورتی سے احتساب مارچ کو ناکامی سے دوچار کرایا۔ خان
صاحب کی طرف سے پہلی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے فجر کی نماز چیئرنگ کراس ادا کرنے کا اعلان کیا۔ بعد میں خان صاحب کے علم میں لایا گیا کہ جناب فجر کی نماز صبح پانچ بجے کے قریب ہوتی ہے اور اس وقت تک وہ لوگ جو گزشتہ روز دوپہر دو بجے سے سڑکوں پر ان کا انتظار کر رہے ہیں‘ وہ تھک ہار کر لوٹ چکے ہوں گے‘ اخبارات کی کاپیاں بھی رات کے دو اڑھائی بجے تک مکمل ہو جائیں گی اور گھروں میں بیٹھے ناظرین بھی گھوڑے بیچ کر سو چکے ہوں گے تو پھر آپ چیئرنگ کراس پر اپنا خطاب کس کوسنائیں گے؟ نصف شب ڈاکٹر طاہر القادری نے راولپنڈی میں خطاب شروع کیا تو خان صاحب بھی جاگ اٹھے اور قافلے کو تیزی سے چلنے کی ہدایت کر دی اور ساتھ ہی میڈیا کو بتا دیا وہ ایسا اہم اعلان کریں گے جو آج سے پہلے نہیں ہوا۔ اعلان وہی رائے ونڈ مارچ والا تھا جس کا وہ کئی مرتبہ اظہار کر چکے جسے سن کر لوگوں کو یقین ہو گیا کہ یہ کوشش بھی کارِ لا حاصل ثابت ہو گی۔اپنے احتساب مارچ کا احتساب کرنے کے بعد بالآخر تحریک انصاف کی قیادت اس نتیجے پر پہنچی کہ شدید گرمی میں عوام اور نازک لیڈروں کا امتحان لینا درست نہیں ۔ اسی کے ساتھ وزیراعظم کے جاتی عمرہ میں رہائش گاہ کا گھیرائو کرنے کا ارادہ بھی ترک کر دیا گیا۔ اب پی ٹی آئی نے اپنی قیادت کو ایک بڑے جلسے کا مشورہ دیا ہے جسے ہینڈل کرنا بھی آسان ہو اور جو مارچ یا ریلی سے زیادہ اثر پذیر ثابت ہو یعنی کم خرچ بالانشیں۔ تحریک
انصاف کی قیادت کی جانب سے احتجاج کی جگہ میں تبدیلی کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا رہا۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر یہ ثابت ہو جائے گا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان‘ جو کہتے ہیں کہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائوں گا‘ اب بھی نہیں بدل سکے اور انہی سازشی عناصر کے نرغے میں ہیں جو انہیں ورغلا کر نہ صرف پارٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ عمران خان کی مقبولیت میں کمی کا بھی باعث بن رہے ہیں۔ عمران خان نے جس انداز میں گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں خطاب کیا‘ اسے دیکھ کر یہ لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی عمران خان ہیں جو دھرنوں اور جلسوں میں اوئے نوازشریف کے نعرے لگاتے رہے ہیں۔ سوال وہی ہے پارلیمنٹ میں اگر وہ مہذب انداز میں اپنا مقدمہ پیش کر سکتے ہیں تو سڑکوں پر کیوں نہیں؟ اگر وہ مستقبل میں وزیراعظم بننا چاہتے ہیں تو انہیں ملکی و عالمی بااثر لابی میں قابل قبول مہذب رویے کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ کل کلاں بالفرض وہ حادثاتی طور پروزیراعظم بن بھی گئے تو انہیں پوری دنیا کے لیڈروں کے ساتھ میل ملاپ کرنا ہو گا۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ کشمیر کے مسئلے پرجانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے تو پھر بھی وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنے خطاب کا آغاز ''اوئے بان کی مون‘ تجھے نہیں چھوڑیں گے‘‘ کہہ کر نہیں کر سکیں گے۔ یہ درست ہے کہ عوامی جلسوں کی زبان مختلف ہوتی ہے لیکن انہوں نے نوجوانوں کو جتنا چارج کرنا تھا‘ کر دیا‘ ضرورت سے زیادہ چارجنگ نقصان دہ ہوتی ہے۔ اسی اوورچارجنگ کی وجہ سے ان کے کھلاڑی بھی آپے سے باہر ہو چکے ہیں۔ فیصل واڈا نے کراچی کی مرکزی شاہرا ہ بلاک کرنے میں اپنا حصہ ڈالا اور اس سے ہزاروں لوگوں کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑا تو اس کا کریڈٹ صرف ٹیم لیڈر کو جاتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ عمران خان نے فیصل واڈا کو چھڑانے کے لئے پولیس کو فون بھی کیا جو ان کے اپنے اصولوں کے منافی تھا ۔ حالانکہ انہیں اچھی طرح معلوم تھاکہ فیصل واڈا کو اسی ایس پی ملیر رائو انوار نے گرفتار کیا تھا جس نے ایم کیو ایم کی وطن دشمن سرگرمیوں پر اسے ببانگ دہل للکارا تھا۔ انہیں کم از کم اس کیس میں معاملہ میرٹ پر چھوڑ دینا چاہیے تھا۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی چار سوالات پر حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہتی ہے جبکہ سپیکر ایاز صادق نے اسے نئے مخمصے سے دوچارکر دیا ہے۔ ایازصادق بھی اگر دونوں ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیج دیتے تو کوئی قیامت نہ ٹوٹتی۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے بھی یہی کچھ کرنا تھا لیکن اس سے کم از کم سپیکر کے عہدے کا مان رہ جاتا۔حکمران جماعت جو پہلے تین برس دفاعی حکمت عملی اختیار کئے ہوئے تھی‘ اب تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے پر آ گئی ہے کیونکہ اس پر پاناما سکینڈل کا وہ دبائو نہیں رہا جو شروع میں تھا۔ ابتدا میں تو گھبراہٹ کا یہ عالم تھا کہ دس پندرہ دن تک وفاقی وزیر پرویز رشید‘ محمد زبیر اور دانیال عزیز ہی سامنے آئے اور باقی لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ جو سامنے آیا‘ اس کے پاس بھی اگرمگر چونکہ چنانچہ کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اب حالات وہ نہیں رہے۔ وزیراطلاعات پرویز رشید کا اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے گھٹنوں کو دو مرتبہ چھونا کام آ گیا اور پیپلزپارٹی نے بذریعہ شاہ محمود قریشی‘ مسئلے کا ڈنگ نکال کر حکمران جماعت کو بیچ منجدھار سے نکال لیا ۔یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ طوفان تھم گیا ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔ حالیہ دو ضمنی انتخابات میں معمولی ووٹوں کے فرق سے جیت نون لیگ کے لئے اصل پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ پیپلزپارٹی و دیگر جماعتیں بھی عید کے بعد سڑکوں پر آنے کا اعلان کر چکی ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرح نون لیگ میں بھی دھڑے بندی اور اختلافات کی خبریں آ رہی ہیں۔ وزیراعظم اور ان کی کابینہ ایسے مہربانوں‘ سیاستدانوں کے فون بھی نہیں سنتی اور نہ ہی انہیں ملاقات کا وقت دیتی ہے‘ جو اُن مشکل گھڑیوں میں حکمران جماعت کے ساتھ کھڑے ہوئے‘ جب ان کے اپنے بھی لحافوں میں دبکے ہوئے تھے۔اگر حکمران جماعت نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ بحرانوں سے نکل چکی ہے تو اس کی یہ بھول اسے پہلے سے بھی سنگین مشکل سے دوچار کر سکتی ہے ۔ کل کلاں پاناما پیپرز پر منی ٹرانسفر یا لندن فلیٹس میں ہیراپھیری اور ٹیکس وغیرہ کے ٹھوس ثبوت سامنے آ گئے یا نون لیگ نے خود ہی کوئی غلط قدم اٹھا دیا تو تحریک انصاف پھر سے حاوی ہو جائے گی۔ وزیراعظم کو سمجھنا ہو گا کہ سیاست میں کچھ بھی اول و آخر نہیں ہوتا ۔ تخت سے تختہ ہونے میں چند لمحے لگتے ہیں۔شطرنج کی طرح سیاست میں بھی جو بہتر چال چلتا ہے‘ وہی وقت کا شہسوار ٹھہرتا ہے۔