وہ لڑکاپائوں میں چپل پہنے ہوئے تھا‘ اس کے ہاتھ میں کچھ ریز گاری اور دوسرے ہاتھ میں خوبصورت گڑیا تھی‘ وہ کائونٹر پر ہاتھ بڑھا کر کھڑا تھا‘ اس کی باری آئی تو کیشئر بولا ''یہ گڑیا آٹھ سو روپے کی ہے اور تم مجھے چالیس روپے دے رہے ہو‘ اتنے میں گڑیا نہیں آتی‘ چلو جائو شاباش‘‘ بچے نے پیسے پکڑے اور بھوں بھوں کر کے رونے لگا‘ یہ ایک بڑا شاپنگ سٹور تھا‘ بچے کے رونے کی آواز سن کر سبھی متوجہ ہو گئے‘ میں بھی سامان کی ٹرالی لئے وہیں کھڑا تھا‘ میں نے ٹرالی وہیں چھوڑی اور بچے کے قریب پہنچ گیا اور اسے پیار کیا‘ وہ کچھ دیر ہچکیاں لیتا رہا اور پھر خاموش ہو گیا‘ میں نے پوچھا '' تم یہ گڑیا کس کیلئے لینا چاہتے تھے؟‘‘ اس نے بائیں ہاتھ سے اپنے رخسار پر جمے آنسو پونچھے اور روہانسی آواز میں بولا '' اپنی بہن کیلئے‘ لیکن اتنے پیسوں میں گڑیا نہیں آتی اور میری بہن کو یہی گڑیا پسند ہے‘ میں یہی لیکر جائوں گا‘‘ وہ ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گیا‘ میں نے کہا ''لیکن تمہارے پاپا کہاں ہے‘ وہ تمہارے ساتھ کیوں نہیں آئے‘‘ کہنے لگا '' وہ میری ماں کے پاس ہسپتال میں ہیں‘‘ میرا دل دھک دھک کرنے لگا‘ میں نے پوچھا '' تمہاری ماں کو کیا ہوا ہے‘‘ بچہ بولا '' ان کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور ابو کہتے ہیں تمہاری امی تمہاری بہن کے پاس جا رہی ہے ‘ میری بہن کو یہ گڑیا بہت پسند ہے اس لئے میں یہ گڑیا لینے آیا ہوں تاکہ اسے ماں کو دے دوں اور ماں یہ گڑیا جا کر میری پیاری بہن کو دے
دے‘‘ میرا دماغ چکرا گیا‘ میں نے پوچھا ''لیکن تمہاری بہن کہاں ہے‘‘ وہ روتے ہوئے بولا '' میری بہن اللہ کے پاس چلی گئی ہے اور ڈاکٹر بھی یہی کہتے ہیں اور ابو نے بھی یہی بتایا ہے میری امی بھی اب میری بہن کے پاس جانے والی ہیں‘ اس لئے میں جلدی جلدی انہیں یہ گڑیا پہنچانا چاہتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر اس نے جیب سے ایک تصویر نکالی اور میرے سامنے رکھ دی‘ اس تصویر میں یہ بچہ ایک چھوٹی بچی کے ساتھ کھڑا تھا ‘ بچی کیک کاٹ رہی تھی اور یہ ساتھ کھڑا مسکرا رہا تھا‘ کہنے لگا ''یہ میری بہن کی سالگرہ کی تصویر ہے‘ میں ماں کو کہہ کر آیا ہوں ‘ میرا انتظار کرنا‘ جانا مت‘ میں ابھی آتا ہوں‘ میں ماں کو یہ تصویر بھی دوں گا اور گلاب کا پھول بھی‘ تاکہ وہ اسے میری بہن کو دکھائے‘ وہ بہت خوش ہو گی اور جب اسے گڑیا ملے گی تو وہ اس کے ساتھ خوب کھیلا کرے گی‘ انکل! کیا آپ مجھے یہ گڑیا لے دیں گے؟‘‘ اس نے اچانک سوال داغ دیا‘ میں گہری سوچ میں غرق تھا‘ میں نے کہا '' ٹھیک ہے ‘ میں تمہیں یہ گڑیا لے دیتا ہوں ‘‘ میں نے اپنا پرس نکالا‘ کیشئر کو آٹھ سو روپے دئیے اور گڑیا لیکر بچے کے پاس آ گیا‘ گڑیا دیکھ کر اس کا چہرہ گلاب کی طرح کھیل اٹھا‘ وہ اُچھلتا ہوا میری جانب لپکا اور مجھ سے لپٹ گیا‘ اس نے گڑیا کو پکڑا‘
اسے چوما اور مجھے تھینک یو کہہ کر بھاگتا ہوا چلا گیا۔
دو روز یونہی گزر گئے مگر یہ بچہ میرے دماغ سے نہ نکلا‘ میں نے سوچا اگر میں اس روز شاپنگ کیلئے نہ جاتا‘ یہ بچہ مجھے نہ ملتا اور اگر وہ یہ گڑیا نہ لے پاتا تو کیا ہوتا‘ انہی سوچوں کے ساتھ میں ایک نجی ہسپتال کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ مجھے وہی بچہ نظر آیا‘ میں نے فوراً گاڑی روک لی‘ وہ سیڑھیوں پر بیٹھا رو رہا تھا‘ میں اس کے پاس پہنچا‘ اسی دوران اس کا والد بھی وہاں آ گیا‘ اس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی‘ اس نے بچے کو اٹھایا اور سینے سے لگا لیا‘ میں نے اپنا تعارف کرایا اور خیریت پوچھی تو اس کا والد بولا '' میری بیوی ابھی ابھی انتقال کر گئی ہے‘ وہ کومے میں تھی‘ یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے‘ دو روز قبل میری بیٹی بھی فوت ہو گئی‘ اس کا ذمہ دار بھی میں ہوں‘یہ سب میری وجہ سے ہوا‘ ‘ یہ کہہ کر وہ اپنے بال کھینچنے لگا اور بچوں کی طرح رونے لگا‘ میں نے اسے دلاسا دینے کی کوشش کی‘ اتنی دیر میں اس کے اور بھی رشتہ دار آ گئے‘ وہ سب سے گلے ملتا اور اونچی اونچی آواز میں چیختا ''ہاں‘ یہ سب میری وجہ سے ہوا‘ میری بچی میری بیوی مجھ سے جدا ہو گئی‘ میں ہی قصور وار ہوں‘‘ تھوڑی دیر بعد وہ کچھ نارمل ہوا تو کہنے لگا '' دراصل تین روز قبل میری بچی کی سالگرہ تھی‘ یہ اتوار کا دن تھا‘ میں کمرے میں لیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ میری بیوی میرے پاس آئی اور کہنے لگی بچی گڑیا مانگ رہی ہے کیونکہ نہ ہم سب چلیں اور اسے گفٹ لا دیں‘ اس کی بات سن کر مجھے غصہ آ گیا‘ میں اپنی پسندیدہ فلم دیکھ رہا تھا‘ مجھے درمیان ٹوکا گیا تو میرا سارا مزا کرکرا ہو گیا‘ میں نے غصے میں ریموٹ زمین پر پھینکا اور سب کو لیکر گاڑی میں بیٹھ گیا‘ راستے میں بھی میرا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا‘ میں انتہائی تیز گاڑی چلا رہا تھا‘ سب میری منتیں کر ہے تھے لیکن میں نے رفتار آہستہ نہ کی‘ میں چڑ چکا تھا‘ اچانک میرے سامنے ایک سائیکل سوار آ گیا‘ اسے بچانے کی کوشش میں گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھی اور کھمبے سے ٹکرا گئی‘ میرا سر پھٹ گیا‘ میری بچی اور بیوی شدید زخمی ہو گئی اور یہ بچہ خوش قسمتی سے سلامت رہا‘ میری بیٹی کا خون بہت زیادہ بہہ گیا چنانچہ وہ ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی انتقال کر گئی‘ جبکہ میری بیوی کومے میں پہنچ گئی‘ ڈاکٹروں کے مطابق اس کی کلینیکل ڈیتھ ہو چکی تھی لہٰذا آج میری اجازت سے انہوں نے مشینیں اتار دیں چنانچہ وہ بھی اپنی بیٹی کے پاس پہنچ گئی‘‘ یہ کہہ کر اس نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ اپنے بیٹے کو گود میں اٹھایا اور اسے چومتا ہوا ایمبولینس کی جانب بڑھ گیا۔میرا دماغ مائوف ہو چکا تھا‘ میں نے دیکھا ایک سٹریچر باہر آرہا تھا‘ اس پر ایک کفن پوش خاتون لیٹی تھی‘ اس کے ایک جانب ایک گڑیا پڑی تھی اور دوسری جانب ایک گلاب کا پھول اور وہی تصویر رکھی تھی جو بچے نے مجھے دکھائی تھی‘ یہ منظر دیکھ کر میں خود پر قابونہ رکھ سکا اور وہاں سے چلا آیا۔
خاتون اور اس کی بیٹی کا قاتل کون تھا‘ میں سارا رستہ یہی سوچتا رہا۔وہ گاڑی جس نے ٹکر ماری‘ وہ سائیکل سوار جو اچانک سامنے آ گیا‘ یا وہ غصہ جو اس آدمی پر اس وقت سے سوار تھا جب سے اس نے اپنی پسندیدہ فلم چھوڑی تھی اور بادل نخواستہ گھر والوں کو لے کر اس عالم میں نکلا کہ چڑچڑاپن اور غصہ اس پر اس قدر حاوی رہا کہ ایک سنگین حادثے کی وجہ بن گیا۔عجیب دور آ گیا ہے۔ہر کوئی بات بات پر ایک دوسرے کو مرنے مارنے کو پڑتا ہے۔ معمولی سی بات پر دوسروں کی جان تک لے لی جاتی ہے۔ بعد میں صرف پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے۔ غلطی کرتے وقت کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اگر تھوڑی سی برداشت اور تھوڑے سے تحمل سے وہ کام لے لے تو خود بھی کسی بڑی مصیبت سے بچ سکتا ہے اور دوسروں کو بھی پریشانی سے بچا سکتا ہے۔یہ بات کسی آزمائش میں مبتلا ہونے سے قبل ہی سمجھ آ جائے تو بہتر ہے۔