ویسے موجودہ تحریک جس نے بھی ڈیزائن کی‘ اس کی ذہانت کی داد دینا پڑے گی۔ یہ شاہ محمود قریشی جیسا سیاست کا کوئی پرانا کھلاڑی ہی ہو سکتا ہے۔ جو کوئی بھی ہے‘ پی ٹی آئی کی ہر نقل و حرکت کی پیشگی اطلاع حکومت کو پہنچا رہا ہے جس کا بھرپور فائدہ حکومت اٹھا رہی ہے۔ خود پی ٹی آئی نے علی الاعلان اسلام آباد بند کرنے کے جو اعلانات کئے‘ وہ اب اس کے پائوں کی زنجیر بن چکے۔ وہ آگے بڑھنا چاہتی ہے لیکن بڑھ نہیں پا رہی۔ شطرنج کی طرح سیاست میں بھی تمام پتے ایک ساتھ نہیں کھیلے جاتے۔ اہم ترین پتے آخر وقت تک بچا کر رکھے جاتے ہیں۔ کس وقت کون سی چال چلنی ہے‘ یہی مہارت سیاست کہلاتی ہے۔ عمران خان نے یہی غلطی کی۔ جو پتہ یا چال آخر میں چلنی تھی‘ اللہ کے فضل سے وہ ایک مہینہ پہلے چل دی۔ اسلام آباد لاک ڈائون آخری پتہ تھا جسے ایک مہینہ پہلے ظاہر کر دیا۔ یہ اعلان بعد میں بھی کیا جا سکتا تھا۔ پی ٹی آئی کو معلوم ہونا چاہیے کہ انفرادی طور پر مظاہرین کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ جب تک ایک مناسب تعداد اکٹھی نہیں ہوتی‘ ماحول بنتا ہے نہ مخالف پر دبائو۔ یہ لوگ سیاسی کم اور جذباتی زیادہ ہیں۔ یہ کہتے‘ پورے پاکستان سے تین دن کے لئے لوگ اسلام آباد میں جمع ہوں گے جس کے آخر میں عمران خان اہم اعلان کریں گے۔ جب معقول تعداد جمع ہو جاتی تو خان صاحب تین دن حکومت کو لتاڑنے کے بعد اسلام آباد لاک ڈائون کا اعلان کر دیتے۔ اگر وہ دس لاکھ کی بجائے پچاس یا پچیس ہزار بھی لوگ لے آتے تو پولیس اس انسانی ریلے کے سامنے بے بس ہو جاتی۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ان کا مقابلہ ریاست سے ہے۔ اسی ریاست سے جس نے ماڈل ٹائون میں رکاوٹیں ہٹانے جیسے معمولی کام پر
سترہ افراد کو شہید اور ڈیڑھ سو کو زخمی اور اپاہج کر دیا تھا۔ جس وزیر قانون پر براہ راست الزام آیا‘ وہ کچھ دیر معطل رہنے کے بعد دوبارہ اپنی کرسی پر آ گئے۔ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ بھی دبا دی گئی۔ اتنی طاقتورریاست اور گھاگ سیاستدانوں کے ساتھ ٹکر لینے کے لئے اتنی ہی زیادہ عقل اور منصوبہ بندی درکارتھی۔ پی ٹی آئی کا مگر سارا انحصار میڈیا پر ہے۔ عمران خان خورشید شاہ کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی کے اندر بھی ڈبل شاہ تلاش کر لیں تو انہیں بہت فائدہ ہو گا۔عجیب بات یہ ہے کہ بھارتی حکومت بھی پاکستانی فنکاروں اور کبوتروں سے خوفزدہ ہے اور کل اسلام آباد پولیس نے بھی گلوکار سلمان احمد کو گرفتار کیا ۔
سابق دھرنے کے برعکس اب کی بار حکومت کی حکمت عملی مختلف ہے۔ تب پی ٹی آئی نے بھی قدرے عقلمندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ یہ جلوس کی شکل میں لاہور سے نکلے تھے۔ تب انہوں نے ابتدا میں اسلام آباد بند کرنے جیسے شدید اعلانات بھی نہیں کئے تھے۔ حکومت کا تب خیال یہی تھا جس طرح طاہر القادری سردیوں میں دھرنا دے کر چلے گئے‘ یہ لوگ بھی چلے جائیں گے۔ تاہم ایسا نہ ہوا۔ یہ لوگ اونٹ کی طرح خیمے میں تھوڑا تھوڑا کر کے داخل ہوئے یہاں تک کہ عین پارلیمنٹ ہائوس کے دروازے پر پہنچ گئے۔ اب کی بار حکومت نے تہیہ کیا ہے وہ مظاہرین کو آغاز میں ہی منتشر کر دے گی اور بڑا اجتماع نہیں بننے دے گی۔ راولپنڈی کے پی ٹی آئی کنونشن میں پولیس نے دھاوا بول کر البتہ اس تحریک کو طاقت کا
انجکشن لگا دیا ہے۔ یہ کنونشن ایک بند ہال کے اندر ہو رہا تھا۔ شرکا کی تعداد بھی ڈیڑھ سوسے زیادہ نہ تھی۔ دھاوا بولا گیاتو پچاس ساٹھ پکڑے گئے۔ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو داد دینا پڑے گی کہ نہ تو انہیں پولیس نے ہاتھ لگانے کی کوشش کی نہ ہی ان رہنمائوں نے اپنے مظاہرین کا ساتھ دینے کی کوشش کی۔ یہ عجیب لیڈر تھے کہ جن مظاہرین کی طاقت پر آج یہ''رہنما‘‘ بنے بیٹھے ہیں‘ جب انہیں گھسیٹ کر پولیس ویگنوں میں پھینکا جا رہا تھا تو یہ سینے پر ہاتھ باندھے یوں کھڑے تھے جیسے کسی ولیمے کی تقریب میں آئے ہوں۔ اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ احتجاج سے عوام کو تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔اگر ایسا تھا تو سابق دور میں لوڈشیڈنگ کے ایشو پر نون لیگ آئے روز مرکزی شاہرائیں بند کر دیتی تھی‘ خود شہباز شریف کتنے روز مینار پاکستان پر ٹینٹ لگا کر بیٹھے رہے‘ اس وقت کیا لوگوں کو تکلیف نہیں ہوتی تھی؟
پی ٹی آئی کی طرح ماشا اللہ حکمران گروہ میں بھی کئی ایسے عقلمند موجود ہیں جو طاقت کے بہیمانہ استعمال کا مشورہ دے کر یہ جنگ جیتنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کنونشن اور شیخ رشید کے لال حویلی جلسے پر دھاوا بول کر حکومت نے انہیں خود ہی ہیرو بنا دیا۔ اتنی پروجیکشن تو شاید جلسہ ہونے پر بھی نہ ملتی جتنی ایسے ملی۔ تیس ستمبر کورائے ونڈ جلسے میں البتہ حکومت نے سمجھ سے کام لیا تھا۔ لوگ اکٹھے ہوئے‘ تقریریں ہوئیں اور سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ عام لوگوں نے بھی وقت ملنے پر تھوڑا بہت ٹی وی لگا کر دیکھ لیا کہ کتنا بڑا جلسہ ہے اور تھوڑی بہت کسی کی تقریر سن لی۔اب کی بار حکومت نے نہ صرف خود ہی اسلام آباد کو لاک ڈائون کر دیا بلکہ مخالف فریق کی بے پناہ تشہیر بھی کر ڈالی۔ کنونشن میں دھاوے پر خان صاحب نے جمعہ کے روز پورے ملک میں احتجاج کا اعلان کر دیا۔ یہ معقول سیاسی فیصلہ تھا۔ اگلے روز دوپہر کے بعد ملک بھر کی اہم شاہرائیں جام کر دی گئیں۔ ہر کسی کی زبان پر یہی تھا پی ٹی آئی کنونشن پر دھاوا بول کر غلط کیا گیا۔ ہال کے اندر اجتماع دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی نہ تھی۔ جمعرات کی رات گئے ا ور جمعہ کی دوپہر سے رات تک پورا ملک میدان جنگ بنا رہا اور ہر کوئی ٹی وی لگا کر سیاسی دنگل دیکھتا رہا‘ یوں حکومت نے پی ٹی آئی کا کام خود ہی کر دیا۔ شیخ رشید اپنی پارٹی کے اکلوتے لیڈر ہیں‘ اگر وہ جلسہ کر لیتے اور حکومت کو چار سنا بھی دیتے تو حکومت کا کیا جاتا۔ یہ کام تو روز ہوتا ہے۔ حکومت کو اگر یہ خوف ہے میڈیا انہیں ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے تو یہی میڈیا حکومت کو بھی تو اتنا ہی وقت دیتا ہے۔ جمعرات کی شام خواجہ سعد رفیق نے عمران خان کے خلاف جو زبان استعمال کی‘ کیا میڈیا نے اسے لائیو نہیں دکھایا؟ اگر شیخ رشید ایسا کر لیتے تو میڈیا پر تماشا دس بیس منٹ کے لئے لگتا۔اس طرح سارا دن تو چوہے بلی کا کھیل نہ چلتا۔ ویسے اگر حکومت نے شیخ رشید کو گرفتار نہیں کرنا تھا تو پھر تین شہروں کی پولیس نے لال حویلی کا محاصرہ کیوں کیا اور اگر انہیں پکڑنا مقصود تھا تو پھر وہ ڈان یا جیمز بانڈ کی طرح ایک موٹرسائیکل پر وہاں کیسے پہنچے‘ میڈیا وین پر چڑھ کر بے فکری سے سگار کیسے پیااور تین شہروں کی پولیس کو چکمہ دے کر کیسے نکل گئے؟
فی الوقت حکومت اور پی ٹی آئی کا پلڑا برابر ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ پی ٹی آئی اور حکومت دونوں کیلئے تھا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ پی ٹی آئی عمل کرے ا ور حکومت اس کے برعکس رکاوٹیں لگائے اور محاصرے کرتی پھرے۔ عمران خان کو دیکھنا ہو گا‘ کون ان کا ساتھی‘ کون دشمن ہے۔ وہ جذباتی مگر سادہ انسان ہیں۔ چند لوگ انہیں بڑی آسانی سے ٹریپ کر لیتے ہیں۔سیاست البتہ جذبات اور ہیجان نہیں‘ تحمل‘ معاملہ فہمی اور دانشمندی کی متقاضی ہے۔کون سا پتہ کب پھینکنا ہے اور کون سی چال کب چلنی ہے‘ یہ دیکھے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ حکومت اگر تحریک سے ڈنگ نہ نکال پائی تو پھر سیاسی شہید بننے کی کوشش کرے گی‘ عمران خان مگر یہ کبھی نہیں چاہیںگے۔حکومت جتنا زیادہ تشدد اور گرفتاریاں کرے گی‘ اتنا ہی میڈیا ہائپ کری ایٹ ہو گی جس کا سارا فائدہ پی ٹی آئی کو ہو گا۔ عوامی تحریک‘ جماعت اسلامی‘ پیپلزپارٹی وغیرہ بھی میدان میں آ گئے ‘ماڈل ٹائون کی طرح خدانخواستہ چند لاشیں گر پڑیں یا دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو گیا توتحریک کو مہمیز ملے گی اوربازی پلٹ جائے گی۔ جب بھی کہیں آگ لگتی ہے تو آغاز ایک معمولی چنگاری سے ہوتا ہے‘ یہ چنگاری پی ٹی آئی کے پنڈی کنونشن میں خود حکومت نے پھینکی ہے۔ اب آگ تو بھڑکے گی۔