عمران خان نے تو ڈرا ہی دیا تھا۔ یقین نہیں آتا تو آپ یکم نومبر کی دوپہر تک حکمران جماعت کے لیڈروں ‘ وزرا اور حکومتی ترجمانوں کے چہرے دیکھ لیں‘ آپ کو ان پر ہوائیاں اڑتی نظر آئیں گی۔ اس کے باوجود کہ حکومت کے مظاہرین کو روکنے کے سکیورٹی انتظامات انتہائی شاندار اور فول پروف تھے‘ ہاتھ پائوں اس کے پھر بھی پھولے ہوئے تھے۔ عمران خان اگرچہ کم لوگ نکال پائے لیکن یہ سچ ہے آج کے دور میں تعداد کی اتنی وقعت باقی نہیں رہی۔ ہوتی تو پھر شیخ رشید تن تنہا لال حویلی کا میلہ نہ لوٹ لیتے۔ کتنے لوگ ان کے ساتھ تھے؟ ایک موٹرسائیکل ڈرائیور؟ دوتین بھاگتے لوگ‘ ایک موبائل کیمرہ‘ ایک سگار اور میڈیا۔ کیا ان کا شو کامیاب نہیں رہا؟ ان کے محلے میں ڈیڑھ سو کنٹینر نہ ہوتے تب بھی وہ دو ڈھائی ہزار لوگ ہی جمع کر سکتے۔حکومت ان کا جلسہ روکنے میں کامیاب تو ہو گئی لیکن شیخ صاحب نے ایسی چال چلی کہ حریفوں نے بھی زبان دانتوں تلے دبالی۔ شیخ رشید نے ہزاروں کا جلسہ کر کے جو پیغام دینا تھا وہ ایک سگار اور ایک موٹرسائیکل کے ساتھ موثر انداز میں دے دیا۔ شیخ رشید کی انہی سیاسی حرکیات پر گرفت کی وجہ سے شریف خاندان اُن سے خائف اور عمران خان فدا نظر آتے ہیں۔ اس طرح عمران خان نے جو دس لاکھ لوگوں کا اعلان کیا تھا وہ بھی دبائو کی اسی حکمت عملی میں شامل تھا جس کے تحت انہوں نے اسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ انہیں معلوم تھا جتنا زیادہ وہ حکومت کو ڈرائیں گے ‘ یہ مسئلہ اتنی ہی شدت اختیار کرے گا اور حکومت اتنی زیادہ رکاوٹیں کھڑی کرے گی کہ اسلام آباد خود ہی بند ہو جائے گا۔ عمران خان پہلی مرتبہ ایک سیاستدان کے روپ میں سامنے آئے۔ عمران کی حکمت عملی آخر وقت تک کیا تھی‘ کوئی نہ سمجھ سکا۔ سب کا خیال تھا وہ واقعی دو نومبر کو حکومت سے ٹکرا
جائیں گے ‘ کچھ لاشیں گریں گی اور حکومت چلی جائے گی لیکن اس کے بعد کیا ہوتا؟ تخت و تاج عمران کے ہاتھ پھر بھی نہ آتا‘وہ دوبارہ سڑکوں پر ہوتے بلکہ ان کی بیس برس کی جدوجہد بھی ضائع جاتی۔ اتنے مگر وہ بیوقوف نہ تھے کہ اسی شاخ کو کاٹ ڈالتے جس پر بسیرا تھا۔ اس مرتبہ ان پر یوٹرن کا الزام اس لئے نہیں بنتا کہ جس کام سے وہ رک گئے ‘اسی کا مطالبہ تو نون لیگ ‘دیگر جماعتیں اور پورا ملک ان سے کر رہا تھا۔ یہی ان سے کہا جا رہا تھا سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہے توپھر دو نومبر کے ہنگامے کی ضرورت؟ درحقیقت انہوں نے مخالفین کا مطالبہ ہی تو مانا‘ جس سے کئی مقاصد بھی خان صاحب نے حاصل کر لئے۔ سبھی جماعتوں اور حلقوں نے ان کے اس اقدام کو سراہا‘ ملک انارکی سے بھی بچ گیا اور خان صاحب نے عدالت کا حکم مان کر اس کی بھی لاج رکھ لی۔
عمران خان عدالت عظمیٰ میں یہ معاملہ جاندار انداز میں اٹھانا چاہتے تھے۔ سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی ابتدا جس طرح سے کی ہے‘ اگر اسی سپرٹ سے یہ کیس آگے بڑھا تو انتہائی کم وقت میں یہ معاملہ اپنے انجام کو پہنچ سکتا ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری نے اناللہ اس لئے پڑھی کہ حکمران جماعت کے ساتھ انہیں عدالتوں میں واسطہ پڑ چکا ہے۔ ماڈل ٹائون کیس میں جس طرح مظلوموںکو مجرم ٹھہرایا گیا‘ جس طرح گولی چلانے کا حکم دینے والے صاف بچ نکلے یہ پوری قوم نے دیکھا۔ قانون کی کمزوریوں کا فائدہ کیسے اٹھایا جاتا ہے‘ کیس کو لٹکانے اور اپیلوں میں جانے کے لئے کون کون سے حربے آزمائے جا سکتے ہیں‘ تاریخیں کیسے ڈلوائی جاتی ہیں‘ اس میدان میں پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نون کو بھی مہارت حاصل ہے۔اس مرتبہ مگر معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔پاناما کیس پر ملک کی داخلی صورت حال کس نہج پر پہنچ چکی تھی‘ اس سے عدالتیں اور جج بخوبی واقف تھے۔ وہ بھی اسی معاشرے میں رہتے ہیں‘ انہوں نے بھی یہیں رہنا اور انہی علاقوں سے گزرنا ہوتا ہے اور انہی اداروں سے انہیں واسطہ پڑتا ہے ۔ ایسا نہ ہوتا تو یکم نومبر کی سماعت میں جج یہ نہ کہتے کہ دونوں اطراف سے کئی ماہ سے پش اپس کا مقابلہ جاری ہے۔ فریقین کو سمجھنا ہو گا‘عدالتی فیصلے الزامات کی بنیاد پر نہیں ہوتے۔ اب تک فریقین کی طرف سے میڈیا یا جلسوں میں اس بارے میں جو کچھ کہا گیا‘ اس سے قطع نظر عدالت میں کیس کا فیصلہ ٹھوس ثبوتوں ‘مستند شواہد اور جاندار دلائل کی بنیاد پر ہو گا۔حکمران خاندان کی پہلی کوشش یہی ہو گی کہ کیس طوالت
اختیار کرے۔ اس کی مگر یہ کوشش ابتدا میں ناکام ہو چکی ہے۔ یکم نومبر کو عدالت نے ٹی او آرز جمع کرانے کا حکم دیا تو نون لیگ تو رہی ایک طرف‘ پی ٹی آئی نے بھی ایک ہفتہ مانگاجس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے صرف ایک دن کا وقت دیا ۔ گزشتہ روز ٹال مٹول کی دوسری کوشش اٹارنی جنرل کی جانب سے یہ کی گئی کہ مریم ‘ حسن نواز‘ حسین نواز اور کیپٹن صفدر کے بیانات یہ کہہ کر جمع نہیں کرائے کہ یہ لوگ بیرون ملک ہیں۔اس پر عدالت نے کہا کہ بیرون ملک ہیں تو کیا وہ آئندہ سال جمع کرائیں گے؟ ۔ عدالت نے وزیراعظم کے بچوں کو پیر تک جواب جمع کرانے کا حکم دیا جبکہ اٹارنی جنرل نے اس کے لئے بھی ایک ہفتہ مانگا تھا۔ یہاں سے عدالت کے موڈ اور کیس کی رفتار بخوبی اخذ کی جاسکتی ہے۔وزیراعظم نے یہ ثابت کرنا ہے کہ لندن فلیٹس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر بچوں کے ہیں تو ان کے پاس پیسے کہاں سے آئے‘ کس ذریعے سے باہر گئے ‘ ان پر ٹیکس کتنا دیا گیا‘ یہ سارے دستاویزات اور ثبوت مگر وہ کہاں سے لائیں گے؟ وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ مریم نواز ان کی زیرکفالت تھیں۔ گزشتہ روز مگر انہوں نے عدالت میں جواب جمع کرایا کہ ان کا کوئی بچہ ان کے زیر کفالت نہیں۔اس پر عدالت نے یہی جواب مریم نواز کی طرف سے تحریری طور پر جمع کرانے کا حکم دیا۔ اسی طرح عمران خان اپنی آف شور کمپنی کے حوالے سے جو کچھ کہہ چکے ہیں‘ اسے انہوں نے اپنے گوشواروں میں ظاہر کیا یا نہیں‘ یہ سب کچھ عدالت میں ثابت کرنا پڑے گا۔
اس سیاسی طوفان اور قانونی جنگ کے دوران بہت سے حادثات رونما ہو چکے ہیں۔ ٹرین اور موٹروے پر کار حادثات میں درجنوں جانیں ناحق ضائع ہو گئیں۔ ایک ہفتے سے لاہور کے تمام سرکاری ہسپتال بندپڑے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز ہڑتال پر ہیں۔ سینئرز کو بھی وہ کام سے روک رہے۔ لاہور اور چند دیگر شہروں پر چھائی دھوئیں کی دھند نے ہزاروں شہریوں کو سانس‘ دمے جیسی بیماریوں سے ہلکان کر رکھا ہے۔ اورنج ٹرین کی وجہ سے آلودگی الگ عذاب بنی ہوئی۔ انہی ''خوبیوں‘‘ کے باعث لاہور دنیا کا چوتھا بڑا آلودگی زدہ شہر بن چکا ہے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو داد دینا پڑے گی کہ جس سائنٹفک انداز میں ان کی ٹیم نے تحریک انصاف کے مظاہرین کو قابو کیا‘ جس طرح فہرستیں بنا کر ان کے گھروں پر چھاپے مارے ‘ سیڑھیاں لگا کر جس طرح پولیس والے گھروں میں کودے‘ خواتین سے بدتمیزی کی‘ کارکنان اور لیڈروں کو گھروں سے اٹھایا‘ جگہ جگہ کنٹینر اور مٹی کے پہاڑکھڑے کئے اگر اسی انداز سے وہ پنجاب میں صحت‘ تعلیم اور ماحول کے میدان میں بھی کام کرتے تو لوگ شاید انہیں پاناما کے طعنوں اور لندن کے بیش قیمت محلات سمیت قبول کر لیتے۔ کسی سرکاری ہسپتال میں سی ٹی سکین مشین نہیں‘ کسی میں ڈائلسز کا انتظام نہیں‘ کہیں آگ سے جل جانے والوں کا پرسان حال نہیں تو کہیں دماغ کی چوٹ کی معائنہ مشین نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ گزشتہ بیس برس سے لاہور میں ایک بھی بچوں یا بڑوں کا نیا سرکاری ہسپتال تک نہیں بنایا گیا۔ اگر نواز شریف‘ شہباز شریف اور ان کی ٹیم تحریک انصاف کو اسلام آباد بند کرنے سے روکنے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کر سکتی ہے تو پھر یہ صحت جیسے اہم ترین مسئلے پر اس لاک ڈائون کو بھی ختم کر سکتی ہے جو تحریک انصاف‘ شیخ رشید یا عوامی تحریک نے نہیں بلکہ خود انہی حکمرانوں نے کیا ہوا ہے جو تیسری مرتبہ پنجاب میں حکومت ملنے کے باوجود بھی صحت جیسے لاک ڈائون کو ختم نہیں کرسکے جو عشروں کی حکمرانی کے بعد بھی ابھی باقی ہے۔