ایک لمحے کو مان لیتے ہیں‘ ہڑتالی ڈاکٹرز کا احتجاج غلط ہے ‘ یہ لوگ اب ایک مافیا بن چکے ہیں اور یہ مافیا اپنے مفادات کے حصول کے لئے آئے روز ہڑتالیں بھی کرتا ہے‘ ہسپتالوں کا بائیکاٹ کرتا ہے‘ وارڈز کو تالا لگا دیتا ہے اور ہزاروں مریضوں کو رُلنے اور مرنے پر مجبور بھی کر دیتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ چند ڈاکٹر سڑکوں پر نہ آئیں تو کیا یہ سچ ہے کہ صحت عامہ کی صورتحال نارمل اور تسلی بخش ہو چکی ‘ہر سرکاری ہسپتال میں ضروری مشینری‘ ڈاکٹرز‘ پیرا میڈیکل سٹاف‘ ادویات اور ایمرجنسی اور آئوٹ ڈورچیک اپ کا بہترین انتظام موجود ہے اور پنجاب میں صحت کے حوالے سے راوی چین لکھ رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیا ہمارے وزیراعظم‘ وزرا‘ ارکان اسمبلی‘ بیوروکریٹس اور اشرافیہ نے نجی ہسپتالوں میں جانا چھوڑ دیا ہے ‘کیا یہ سب سرکاری ہسپتالوں سے علاج کرا رہے ہیں اور کیا غریب لوگ ہسپتالوں کی صورت حال سے مطمئن ہیں؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ جس طرح خارجہ اور صحت جیسی اہم ترین وزارتیں وزیراعظم نواز شریف نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں‘ اسی طرح پنجاب میں صحت کا قلمدان بھی وزیراعلیٰ شہباز شریف کے پاس ہے۔ کوئی افلاطون ہی بتا سکتا ہے کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو زیادہ ترقیاتی کام پسند ہیں تو پھر صحت جیسے شعبے کو وہ معاف کیوں نہیں کر دیتے؟ اسے اپنے پاس رکھنے کی وجہ عوام سے کوئی بدلہ لینا مقصود ہے یا خود پر ضرورت سے زیادہ اعتماد؟ کبھی مائیک پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے انہیں یہ انکشاف بھی کر دینا چاہیے۔ ہڑتالی ڈاکٹر اپنے پے سکیل کو بڑھانے یا کسی ڈاکٹر کے ساتھ بدسلوکی پر باہر آتے ہیں لیکن وہ ہزاروں مریض کیا کریں جو حکومت اور ڈاکٹروں کی لڑائی میں کچلے جا رہے ہیں۔ بے رحم سیاست
اور کھینچا تانی میں ان لوگوں کا کیا قصور جن کے پاس پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کرانے کی سکت ہے نہ مالی استطاعت؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے صوبے میں بہت سے شعبوں کو خاصا بہتر کیا ہے۔ اس کی وجہ خیبرپختونخوا ہے جہاں تحریک انصاف پولیس ‘ احتساب اور چند دیگر شعبوں میں تبدیلی لے آئی ہے۔ مقابلے کی اس فضا کا آغاز اگر صحت کے میدان سے ہوتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ پختونخوا میں بھی صحت عامہ کمزوری کا شکار ہے۔ وہاں بھی ڈاکٹروں کی ہڑتالیں ہوتی ہیں اور ہسپتالوں کے حالات میں بھی انقلابی تبدیلی نہیں آئی۔ انہیں اس چیز کا مارجن دیا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ پہلا دور حکومت ہے لیکن شہباز شریف صاحب کو تو پنجاب پر حکومت کرتے چودہ برس بیت چکے۔ ان چودہ برسوں میں انہوں نے انڈر پاس بھی بہت بنائے‘ سڑکیں اور میٹروبس منصوبے بھی مکمل کئے لیکن صحت کے معاملے میں آج بھی پنجاب وہیں کھڑا ہے جہاں ان کے پہلے دور حکومت میں تھا۔ پولیس کو وہ جدید خطوط پر استوار کر رہے ہیں‘ سیف سٹی پراجیکٹ سے مانیٹرنگ کا نظام بہت بہتر ہو جائے گا‘ اسی طرح عید الاضحی پر ہم دیکھتے ہیں کہ صفائی کے حوالے سے بھی شاندار انتظامات کئے جاتے ہیں اور جگہ جگہ گندگی کے وہ پہاڑ نظر نہیں آتے لیکن اس طرح کی کوئی سنجیدہ کوشش اگر نہیں کی گئی تو صحت کے میدان میں۔ برن یونٹ بیس سال قبل میو ہسپتال میں تھا‘ آج بھی وہیں ہے۔ بہاولپور میں کوئی عورت چولہا پھٹنے سے جلتی ہے تو بارہ
گھنٹے بعد اگر بچ جائے تو لاہور میو ہسپتال ہی لائی جاتی ہے۔ دماغ کی چوٹ کے علاج کیلئے لاہور جنرل ہسپتال تنہا ڈٹا ہوا ہے۔ کوئی موٹر سائیکل سوار ڈیرہ غازی خان میں سر میں چوٹ لگوا بیٹھتا ہے تو اسے جنرل ہسپتال ہی لایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ معروف سیاستدان جاوید ہاشمی کو بھی ملتان سے یہیں آ نا پڑا۔ اسی طرح دل کے علاج کیلئے لاہور میں پنجاب کارڈیالوجی کتنے لوگوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے‘ کسے معلوم نہیں۔ پرویز الٰہی کے شروع کئے گئے پراجیکٹس کو مکمل کر لیا جاتا تو اس میں پرویز الٰہی کی جیت اور شہباز شریف کی ہار نہ ہوتی بلکہ ہزاروں غریب مریض ان دونوں کو ڈھیروں دُعائیں دیتے۔
چند روزقبل رائے ونڈ کے نواحی گائوں سے ایک غریب خاندان تیرہ برس کی ایک بچی کو لاہور لایا۔ یہ خاندان انتہائی غریب تھا اور بچی کو لاہور لانے کے لئے گاڑی کا کرایہ بھی انہوں نے قرض لے کر ادا کیا۔ میں اس واقعے کا چشم دید گواہ ہوں۔ بچی کی حالت نازک تھی۔ سرکاری ہسپتال میں ابھی وہ داخل ہی ہوئے تھے اور علاج شروع ہوئے آدھا گھنٹہ ہوا تھا کہ بچی انتقال کر گئی۔اس سے قبل اس بچی کا ایک بھائی اور ایک بہن بھی غربت اور بیماری کی کشمکش میں جان کی بازی ہار چکے تھے۔ یہ تیسری میت تھی جو صرف دو برس کے اندر ایک گھر سے اٹھی۔ ایسے غریب لوگ جب کسی سرکاری ہسپتال جاتے ہیں تو انہیں معمولی دوائیاں تو شاید میسر ہو جاتی ہوں گی لیکن باقاعدہ علاج وہ نہیں کرا سکتے۔ ہسپتالوں میں تمام ٹیسٹ نہیں ہوتے۔ اکثر کی مشینیں خراب ہوتی ہیں۔ سینئر ڈاکٹر آئوٹ ڈور میں کم بیٹھتے ہیں‘ ان سے یہ نجی طور پر مل بھی نہیں سکتے۔مجبوراً قریبی نیم حکیموں سے دوائی کی پڑیاں لے کر گھر آ جاتے ہیں اور دوست احباب ا ور دل کو یہ کہہ کر تسلی دے لیتے ہیں کہ ہم علاج کرا رہے ہیں اور دوائی بھی لے رہے ہیں۔
نجی ہسپتالوں اور کلینکس کا حال بھی مختلف نہیں۔ ان کا کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے نہ ہی معیار۔ عام فریکچر وغیرہ جو سرکاری ہسپتالوں میں دو چار سو روپے میں مکمل ہو جانا چاہیے‘ اس کے لئے نجی ہسپتال پچاس پچاس ہزار ہتھیا لیتے ہیں۔جو کمرہ دو تین ہزار یومیہ میں ملنا چاہیے‘ اس کا دس سے بیس ہزار یومیہ چارج کیا جا رہا ہے۔ اس میں اگر آکسیجن اور بلڈ پریشر وغیرہ کا مانیٹرنگ ایکوئپمنٹ درکار ہے تو اس کے ہزاروں روپے الگ سے اینٹھے جاتے ہیں۔سینئر ڈاکٹرز کاغذوں میں کمرے کے وزٹ کے پیسے تو وصول کر لیتے ہیں لیکن وزٹ ان کی جگہ کوئی جونیئر ڈاکٹر کرتا ہے۔ خون کی بوتل اگر ہسپتال سے ملے تو چھ سات ہزار روپے چارج کئے جاتے ہیں۔ یہی بوتلیں ان کے کارندے مختلف سرکاری ہسپتالوں کے باہر سے نشئی اور ضرورتمند افراد کو پانچ سو سے دو ہزار روپے دے کر اکٹھی کرتے ہیں اور سات ہزار میں بیچتے ہیں۔ سب سے زیادہ ظلم یہ کیا جاتا ہے کہ جب تک ایڈوانس رقم جمع نہیں کرائی جاتی‘ علاج شروع نہیں ہوتا اور اگر رقم ختم ہو جائے تو علاج بھی روک دیا جاتا ہے۔مریض الگ تڑپ رہا ہوتا ہے اور لواحقین الگ ذلیل ہوتے ہیں ۔لواحقین مریض کی عیادت کریں‘ خود کو نفسیاتی طور پر سنبھالیں یا پھر زمینیں اور گھر کی قیمتی اشیا فروخت کر کے ہسپتالوں کے ایلیٹ کلاس ڈاکٹرز مافیا اور مالکان کی تجوریاں بھریں‘ یہ کرب وہی جانتا ہے جو اس طرح کے کسی المناک تجربے سے گزر چکا ہو۔ پرائیویٹ کلینکس میں فیس تین ہزار روپے فی وزٹ سے بھی تجاوز کر رہی‘ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر ایک مریض مہینے میں دو بار نجی پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر سے معائنہ کرائے تو چھ ہزار فیس کے علاوہ ہزاروں روپے ٹیسٹوں اور ادویات کیلئے کہاں سے لائے؟ ڈاکٹر ہر طرح سے مزے میں ہیں کہ کمیشن اور تحفے لے کر مخصوص کمپنیوں کی دوائیں لکھیں اور ایک ماہ پریکٹس کر کے دو مہینے بیرون ملک سیروتفریح میں گزار آئے۔نجی ہسپتالوں اور کلینکس کے مالکان اور ڈاکٹرز کمائی گئی رقم کو پاناما میں جمع کرا رہے ہیں یا کسی اور گمنام جزیرے میں‘یہ معاملہ بھی کبھی نہ کبھی طشت از بام ضرور ہو گا۔ اس میں قصور مگر صرف نجی ہسپتالوں کا نہیں۔ یہ حکومت‘ میڈیکل مشینری و ڈرگ مافیا اور نجی میڈیکل کالجز‘ کلینکس اور ہسپتالوں کا بے رحم گٹھ جوڑ ہے جس نے صحت جیسے بنیادی حق کو صرف اور صرف اشرافیہ تک مرکوز کر دیا ہے۔ جونیئر ڈاکٹر جب اس ڈکیت مافیا کو اربوں کھربوں کماتے دیکھتے ہیں تو پھر ان کے دماغ کیوں نہ خراب ہوں؟