وہ روزانہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتا، تھک جاتا تو ایک طرف چٹائی بچھاتا اور چند منٹ اُونگھ لیتا۔ چار دن اور چار راتیں اسی طرح گزر گئیں۔ پھر وہ لمحہ بھی آ گیا جس کا اسے گزشتہ آٹھ سال سے انتظار تھا ۔ سب کی نگاہیں شفیق اقبال پر مرکوز تھیں جو مشینوں کے ساتھ مسلسل چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا۔ پھر شفیق اقبال سیدھا کھڑا ہو گیا۔ آسمان کی طرف نظریں اٹھا ئیں، اللہ سے دُعا مانگی اور ایک بٹن دبا دیا۔ چنگھاڑ کی آواز کے ساتھ ایک مشین نما پلانٹ چل پڑا۔ شفیق نے فوراً ڈسپلے میٹر پر نظر ڈالی۔ میٹر کی سوئی اپنے انتہائی مقام پر پہنچ چکی تھی۔ بائیو الیکٹرک پلانٹ کامیابی کے ساتھ چل پڑا تھا۔ یہ بائیو الیکٹرک پلانٹ 5کلو واٹ بجلی پیدا کر رہا تھا۔ یہ پراجیکٹ کا ایک چھوٹا ڈیزائن تھا۔ شفیق کا اصل پراجیکٹ اس فارم کیلئے ایسا بائیو الیکٹرک پلانٹ قائم کرنا تھا جو 60کلوواٹ آور بجلی پیدا کر سکے۔ چھوٹے ڈیزائن کی کامیابی کے بعد اسے یقین ہو گیا تھا کہ یہ ڈیزائن بڑے پیمانے پر کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ زرعی فارم بجلی کے معاملے میں خود کفیل ہونے کے انتہائی قریب تھا۔ 60کلو واٹ بجلی اس فارم کی ضروریات سے کہیں زیادہ تھی۔آپ بجلی کی اس مقدار کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ 60کلوواٹ بجلی چالیس پچاس گھروں کیلئے کافی ہوتی ہے۔ اس بجلی سے ایک ٹن کے بارہ سپلٹ ایئر کنڈیشنر، نوے ٹیوب لائٹیں اور دو سو انرجی سیور روشن ہو سکتے ہیں یہی نہیں بلکہ پندرہ کمپیوٹر، چالیس پنکھے، پانچ ڈیپ فریزر اور پانی کی پانچ موٹریں بھی چل سکتی ہیں۔ اس پلانٹ میں جو فیول استعمال ہوتا ہے وہ ان چیزوں پر مشتمل ہے جنہیں ہم بے کار سمجھتے ہیں۔ اس پلانٹ کا بنیادی فیول گرین گراس، کیلے کے پتے اور مکئی کا ویسٹ ہے۔ حیدرآباد سندھ میں کیلے کے باغات کئی سو ایکڑوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ چنانچہ یہاں کیلے کے پتے اور ٹہنیاں ٹنوں کے حساب سے مل جاتی ہیں۔ اس پلانٹ کے کئی یونٹ ہیں۔ سب سے پہلے کیلے کے پتے یا گرین گراس کو ایک کنویئر میں ڈالا جاتا ہے۔ یہاں سے یہ ایک کرشریونٹ میں چلے جاتے ہیں جہاں تقریباً 3ٹن پتے روزانہ ڈالے جا سکتے ہیں۔ کرش ہونے کے بعد یہ سب کچھ ایک فرمنٹیشن ٹینک میں پہنچ جاتا ہے۔جہاں گلوکوز، گلیسرول اور الکوحل پیدا ہوتی ہے۔ پھر ڈائجسٹرسے ڈی کمپوزیشن کا مرحلہ شرو ع ہو جاتا ہے۔ میتھین، سی ایچ فور اور کاربن ڈائی آکسائیڈ بنتی ہے۔آخر میں سٹوریج ٹینک فلٹریشن کے ذریعے انہیں ایک ایسی گیس میں تبدیل کر دیتا ہے جو مشین کے انجن کو فراہم ہونے سے 60 کلو واٹ یا اس سے زیادہ بجلی پیدا ہونے لگتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ پلانٹ ماحول دوست ہے اور کسی قسم کی زمینی یا فضائی آلودگی پیدا نہیں کرتا۔ اس قسم کے پلانٹ دیہات اور زرعی علاقوں میں بآسانی لگ سکتے ہیں جہاں پولٹری فارم ، پھلوں کے باغات، مکئی اور دیگر فصلیں موجود ہیں۔ دیہات میں بجلی کی سب سے زیادہ ضرورت ٹیوب ویل کو ہوتی ہے۔ہر ایک گھنٹے بعد ایک گھنٹے کے لئے بجلی چلی جاتی ہے۔ بجلی کے آتے ہی ٹیوب ویل آن کیا جاتا ہے۔ مگر کھالوں اور نالیوں سے ہوتا ہوا پانی جب تک کھیتوں میں پہنچتا ہے اتنی دیر میں گھنٹہ گزر جاتا ہے اور بجلی پھر سے چلی جاتی ہے چنانچہ کھیتوں کو پانی ٹھیک طرح نہیں پہنچ پاتا۔ ایسے پلانٹس کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہو گا کہ ان سے ٹیوب ویل مرضی کے مطابق چل سکیں گے اور کھیتوں کو پانی بہم پہنچایا جا سکے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سارا پراجیکٹ میڈ اِن پاکستان تھا اور اس میں ایک دھیلہ بھی غیر ملکی امداد یا این جی او کا شامل نہیں تھا۔ اسے ایک پاکستانی نے پاکستان کے لئے بنایا تھا۔
شفیق اقبال کی طرح آصف فاروقی کو بھی خواب دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ بنیادی طور پر ماحولیات کے انجینئر ہیں۔وہ 1981ء میں امریکہ اعلیٰ تعلیم کیلئے گئے‘نیویارک کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے تحت انوائرمینٹل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ آصف فاروقی ایک صاف ستھرا پاکستان دیکھنا چاہتے تھے‘ انہوں نے آج سے بیس برس قبل اپنا خواب لانچ کر دیا‘ یہ آگے بڑھے‘ بیس بائیس لوگوں کی ایک ٹیم بنائی‘ چھ گدھا گاڑیاں اور چند سو شاپنگ بیگ خریدے اور لاہور کینٹ سے آغاز کر دیا‘ یہ گدھا گاڑیاں صبح سویرے کینٹ کے مختلف محلوں اور گلیوں میں پھیل جاتیں‘ گھروں کی بیل بجاتیں اور گھر والے انہیں شاپر میں گھر کا کوڑا کرکٹ ڈال کر دے دیتے‘ یہ گدھا گاڑیاں واپس چل پڑتیں اور
دوپہر تک کوڑا لیکر فیروزپور روڈ پر واقع ایک پلاٹ پر آ جاتیں‘ یہ کوڑا ایک جگہ الٹ دیا جاتا‘ اس کے بعد نیا مرحلہ شروع ہوتا‘ کوڑے کو ایک الیکٹرانک بیلٹ پر ڈال دیا جاتا اور اس کے گرد درجنوں ملازم بیٹھ جاتے‘ یہ اپنے سامنے سے گزارنے والی اشیاء کو علیحدہ علیحدہ کرتے جاتے‘ کھانے پینے کی اشیا الگ اور شیشہ پلاسٹک شاپر وغیرہ کو الگ کیا جاتا‘ اس کے بعد کھانے کی اشیا کو ایک پلانٹ سے گزار کر طاقتور گرین فورس کھاد میں تبدیل کر دیا جاتا اور یہ کھاد ڈبوں میں پیک کر کے فروخت کیلئے بازار روانہ کر دی جاتی جہاں سے زمیندار اور کسان انہیں خرید کر اپنے کھیتوں میں استعمال کرلیتے‘ جبکہ کاغذوں‘ ڈبوں اور گتوں وغیرہ کو پیکجز کو بھیج دیا جاتا جہاں ری سائیکل کر کے اس سے کاغذ اور پیکنگ کا سامان بنا لیا جاتا‘ اسی طرح شاپنگ بیگز کو ایک پلانٹ کے ذریعے فیول میں تبدیل کر لیا جاتا اور اس فیول کو جلا کر گیس بنا لی جاتی اور اس گیس سے پلانٹ کے بوائلر اور فرنس جلا لئے جاتے یوں یہ پلانٹ گیس میں خودکفیل ہو گیا اور یہ سب یورپین ٹیکنالوجی کے معیار پر کیا جا رہا ہے، آج ان کی کمپنی ''ویسٹ بسٹر‘‘ لاہور سمیت آٹھ شہروں میں اپنا نیٹ ورک قائم کر چکی ہے‘ اس کے پاس دو سو چھوٹے بڑے ٹرک ہیں اور تین ہزار لوگ اس کمپنی کے باقاعدہ ملازم ہیں اور یہ سب کے سب ماحول کو بہتر بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں‘ کمپنی اس وقت کوڑے کرکٹ سے گیس‘ ایل پی جی پراڈکٹس‘ کھاد‘ کوئلہ وغیرہ پیدا کر رہی ہے‘ لیکن یہ اب اس سے بھی آگے قدم رکھنے والی ہے اور یہ جو کرناچاہتی ہے وہ بھی پاکستان میں پہلا کام ہو گا‘ یہ کوڑے کرکٹ سے بجلی بنانا چاہتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ کام شفیق اقبال سر انجام دے سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کوڑابجلی میںتبدیل کیسے ہو گا‘ جواب بڑا آسان ہے‘ ری سائیکلنگ کے دوران کوڑے کو بائیو فرٹیلائزر میں تبدیل کیا جائے تو گیس بن جاتی ہے‘ اس گیس میں 65فیصد میتھین‘ 34فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ایک فیصد امونیا اور سلفر آکسائیڈ ہوتی ہے ‘دو سو ٹن کوڑے سے 14ہزار کیوبک میٹر گیس بن سکتی ہے جو آٹھ ہزار دو سو لیٹر پٹرول کے برابر ہوتی ہے‘ اگر اس گیس کو بجلی بنانے کیلئے استعمال نہ کیا جائے تو سات لاکھ پچاس ہزار روپے کا پٹرول ہوا میں ضائع ہو جاتا ہے ‘ اس منصوبے کے مطابق ایک کیوبک میٹر گیس سے پانچ کلو واٹ بجلی بن سکتی ہے دوسرے لفظوں میں دو سو ٹن کوڑے کو بجلی میں تبدیل کر کے تقریباً چار ہزار کلوٹ واٹ فی گھنٹہ کے حساب سے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے اور اگر آپ صرف لاہور کی بات کریں تو لاہور میں روزانہ ساڑھے چھ ہزار ٹن کوڑا کرکٹ اکٹھا ہوتا ہے جس میں پانچ سو ٹن ویسٹ بسٹر کمپنی جبکہ ساڑھے پانچ ہزار ٹن سے زائد سرکاری کمپنی لاہور ویسٹ مینجمنٹ اکٹھا کرتی ہے اور لاہور سے باہر محمود بوٹی کے مقام پر پھینک دیتی ہے جہاں کوڑے اور بدبو کے پہاڑ کھڑے ہو چکے ہیں اور لاہور کی آلودگی کو ''چار چاند‘‘ لگا رہے ہیں۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کا ایک ترکش کمپنی کے ساتھ پہلے ہی معاہدہ ہو چکا ہے اور یہ بھی ویسٹ بسٹر کی طرح ری سائیکلنگ کا آغاز کرچکے ہیں اور فرض کریں وہ بھی اگر اس طرف آ جاتے ہیں اور اگر لاہور میں چھ میں سے تین ہزار ٹن کوڑاکھاد وغیرہ کیلئے استعمال کر لیا جائے اور باقی تین ہزار ٹن سے بجلی بنا لی جائے تو صرف لاہور شہر میںروزانہ چھ ہزار کلو واٹ فی گھنٹہ بجلی کچرے سے پیدا ہو سکتی ہے جو نیشنل گرڈ سے منسلک کی جاسکتی ہے اور جو نہ صرف روایتی بجلی سے دس گنا سستی ہو گی بلکہ اس سے لاہور کے تمام ہسپتال‘ تعلیمی ادارے‘ سٹریٹس لائٹس، بینک اور چھوٹی فیکٹریاں آسانی سے چل سکیں گی اور اگر اس طرح کا ماڈل لاہور کی سطح پر کامیاب ہو گیا تو یہ ماڈل دوسروں شہروں میں بھی شروع کیا جا سکے گا جس سے تمام شہر بجلی کی پیداوار کا بڑا بوجھ خود اٹھانے کے قابل ہو جائیں گے۔ ہم تو یہ منصوبے آج شروع کریں گے لیکن یورپ میں ایسے پانچ سو اور امریکہ میں نوے پلانٹ آج سے تیرہ برس قبل سے چل رہے ہیں۔
حکومت کے پاس پیسہ بھی ہے‘ طاقت بھی اور وسائل بھی۔ اس کے پاس اگر کچھ نہیں ہے تو شفیق اقبال اور آصف فاروقی نہیں ہیں۔ اگر ان جیسے چند دماغ حکومتی مشینری کا حصہ بن جائیں ‘ یہ اندھیرے ختم کرنے کا فیصلہ کر لیں اور حکومت انہیں کام کرنے کے لئے فری ہینڈ اور ہر قسم کی معاونت فراہم کر دے تو یہ ''جنونی‘‘ ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔