میں نے اب تک صرف ایک ٹی وی ٹاک شو میں شرکت کی ہے ۔میرا یہ تجربہ انتہائی ''خوفناک‘‘ ثابت ہوا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔پہلی وجہ وقت تھی‘ پچاس منٹ کے پروگرام کی ریکارڈنگ میں مہمانوں کے کل ملا کر تین چار گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ اگر ٹاک شو براہ راست ہو تو کچھ وقت بچ جاتا ہے کہ سبھی کو معلوم ہوتا ہے پروگرام مقررہ وقت پر شروع اور ختم ہو گا۔ریکارڈکروانا البتہ جان جوکھوں کا کام ہے کیونکہ اس میں مہمانوں کے ناز نخرے اٹھانے پڑتے ہیں۔ جس طرح ہمارے معاشرے میں لوگ شادی کارڈ پر وقت دیکھتے ہی کہہ دیتے ہیں کہ لکھا سات بجے ہے‘ جائیں گے نو بجے‘ اسی طرح کا حال ریکارڈڈ ٹاک شو زکا ہوتا ہے ۔ اس پروگرام کے کل چھ مہمان تھے جن میں سے پانچ لوگ وقت پر آنے کی غلطی کر بیٹھے۔ ان میں پی ٹی آئی کی رہنما ناز بلوچ‘ لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر سہیل لاشاری‘ سابق ممبر واپڈا تنویر نقوی ‘ماہر معاشیات ڈاکٹر اکرام الحق اور راقم شامل تھے۔ جس ''تاریخ ساز‘‘ شخصیت کا دیر تک انتظار کیا گیا اور جن کی وجہ سے کالج کے سینکڑوں سامعین طلبا و طالبات کو دقت برداشت کرنا پڑی‘ وہ وہی موصوف ہیں جو آج کل مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں سے بیک وقت معافیاں مانگ رہے ہیں۔ میرے ٹاک شوز میں دوبارہ نہ جانے کی دوسری وجہ بھی یہی صاحب بنے جنہیں دنیا آج جاوید لطیف کے نام سے جانتی ہے اور سوشل میڈیا پر جن کی مثالی درگت بنا رہی ہے۔ یہ بنیادی طور پر سنجیدہ نوعیت کا پروگرام تھا جو تکنیکی بحث و تمحیص کا متقاضی تھا۔ اسی وجہ سے چھ میں سے صرف دو شخصیات سیاسی تھیں۔ جاوید لطیف شاید یہ سمجھ کر آئے تھے کہ دیگر مہمان اور سامعین ان کے 'سنہرے اقوال اور ارشادات‘‘ ہی سننے آئے ہیں۔ رہی سہی کسر میرے ساتھ تشریف فرما ناز بلوچ صاحبہ نے پوری کر دی۔ پروگرام کے دوران کئی مرتبہ یہ لگا‘ پورے ہال میں دو افراد کے سوا سب مدہوش ہیں۔ پروگرام کا موضوع پاورجنریشن کے علاوہ ایک المیے کو ڈسکس کرنا بھی تھا جو ایک صحافی طارق عبداللہ کے ساتھ ہوا۔ طارق موٹرسائیکل پر اپنی بیگم کے ہمراہ ایک سگنل پر رُکے تو قریب لگے ایک ٹرانسفر میں چنگاری بھڑکی اور اس کا کھولتا ہوا تیل ان دونوں پر آ گرا۔ طارق کی اہلیہ تو موقع پر جاں بحق ہو گئیں لیکن طارق عبداللہ کو میو ہسپتال کے برن وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ اس برن وارڈ کی راہداری کے ایک فرش پر طارق عبداللہ کئی ماہ زیرعلاج رہے اور اس گڈ گورننس کو قریب سے دیکھاجس کے دعوے ہم آئے روز سنتے ہیں۔اس دوران میں ان کی بیوی کا رزلٹ کارڈ بھی آگیا جس کے مطابق انہوں نے ایم اے امتیازی نمبروں سے پاس کر لیا تھا لیکن اب یہ رزلٹ کارڈ ان کے خاوند اور بچوں کو صرف رُلانے کے کام ہی آ سکتا تھا۔ میں نے یہ واقعہ اپنے کالم میں لکھا تھا اور یہ بھی لکھا کہ کس طرح سکھر کے گرڈ سٹیشنز میں کروڑوں کا غیر معیار ی میٹریل لگایا جا رہا ہے۔ اس کالم کے بعد جناب انیق ناجی نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ اس پر ایک پروگرام کرنا چاہتے ہیں۔ جاوید لطیف نے اس پروگرام کے بنیادی ایشو کو جس طرح اپنے پائوں سے اکھیڑا ‘ اس کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ جس پروگرام میں کوئی سیاسی شخصیت موجود ہو گی ‘ اس میں جانا وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں۔ پچاس منٹ کے پروگرام میں پینتیس چالیس منٹ ناز بلوچ اور جاوید لطیف میں تو تکار ہوتی رہی اور ہم ایک دوسرے کے منہ دیکھتے رہے۔
گزشتہ دنوں جاوید لطیف اور مراد سعید کا جھگڑا سامنے آیا تو مجھے یہ ''اکلوتا‘‘ ٹاک شو یاد آ گیا ۔ پروگرام کے آخر میں زخمی صحافی کے بچوں کو سٹیج پر بلایا گیا تو انہوں نے جاوید لطیف کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ جناب کیا ہم امید کر سکتے ہیں کہ ہمیں انصاف ملے گا۔ ہماری ماں کا قاتل وہ ٹرانفسارمر نہیں بلکہ اسے بنانے والی کمپنی ہے۔ کیا اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔ یاد رہے کہ اسی روز اسی کمپنی کا ایک اور ٹرانسفارمر کسی اور جگہ پھٹ گیا تھا اور یہ کمپنی غیر معیاری مال کی وجہ سے معروف بھی تھی۔ جاوید لطیف نے کہا کہ وہ اس پر انصاف دلانے کی کوشش کریں گے تاہم بعد میں انہیں جب میں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ان کے اس انصاف دلانے والے جملے کو حذف کر دیا جائے‘ تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ کتنے ''عالی مرتبت‘‘ ہیں۔
ایسے رویے کوئی ایک جماعت اختیار نہیں کرتی‘ یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جو تمام جماعتوں میں پایا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جب خود جلسوں میں ایسی زبان استعمال کریں گے تو ان کی جماعت کے دیگر سیاستدان کیا کریں گے۔ بات صرف مخالفین پر اوچھے الزامات تک ہوتی تو اور بات تھی‘ یہاں تو مخالفین کے منصوبوں پر تنقید بھی کی جاتی ہے اور پھر وہی منصوبے تھوڑا سا رنگ بدل کر اپنے صوبے میں شروع بھی کئے جاتے ہیں۔ آپ میٹرو بس پراجیکٹ کو ہی لے لیں۔جناب عمران خان تقریباً ہر انٹرویو ‘ہر سیاسی تقریر اور ہر بیان میں میٹرو بس منصوبے کو لتاڑنے سے نہیں رُکے لیکن اب موصوف اپنے صوبے میں میٹروبس چلانے کی تیاری کر چکے ہیں۔ کیا انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ آئندہ ووٹ صرف مخالفین کو رگیدنے سے نہیں ملیں گے بلکہ عوام کو کچھ کر کے بھی دکھانا ہو گا ؟ خان صاحب فرماتے تھے کہ میٹرومنصوبے تعلیم‘ صحت اور انصاف جیسے حقوق ملنے کے بعد اچھے لگتے ہیں تو کیا خیبرپختونخوا میں عوام کو تعلیم اور صحت کی ویسی ہی سہولیات مل چکی ہیں جن سے عمران خان خود مستفید ہوتے ہیں۔ انہوں نے آغاز میں صوبے میں اربوں پودے لگانے کا منصوبہ شروع کیا‘ جو آج تک نظر نہیں آیا۔ آئے روز وہاں ڈاکٹروں کی ہڑتالیں وہاں صحت کی ترقی کا پول بھی کھول رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں اتنے لاکھ نئے بچے سکول جانے لگے ہیں تو جناب ایسے دعوے تو پنجاب میں بھی ہوتے ہیں مگر نہ پنجاب ان کے دعوے کو تسلیم کرتا ہے نہ وہ ان کی مانتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے خان صاحب نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے الیکشن سے قبل انہیں ہر حال میں میٹرو بس چلانا پڑے گی وگرنہ ان کا ٹوکرا خالی رہ جائے گا اور نون لیگ لوڈشیڈنگ کے خاتمے‘ سی پیک‘ گوادر‘ مردم شماری‘ اورنج ٹرین‘ نئے ہسپتالوں اور دیگر شہروں میں ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے میلہ لُوٹ لے گی۔ خان صاحب اپنے حریفوں کو کاپی نہ کرتے یا پھر ان پر الزام نہ لگاتے۔ میں نے خان صاحب کے چاہنے والوں سے بہت سے حساس واقعات پر یہ کہتے سناہے کہ خان صاحب براہ کرم اس پر کوئی بیان نہ ہی دیں تو بہتر ہے۔ پی ایس ایل فائنل میچ کی تازہ مثال سامنے ہے۔ پہلے ان کا بیان اجتماعی عالمی کھلاڑیوں کے لئے تھا‘ اب وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے پشاور نہیں بلکہ کوئٹہ کے عالمی کھلاڑیوں کو ریلو کٹے اور پھٹیچر کہا تھا۔ لاہور فائنل کے پیچھے قوم اور حکومت تو کھڑی تھی لیکن فوج نے بھی اسے برابر سپورٹ کیا‘ چنانچہ جس طرح جاوید لطیف ایسوں کو بولنے سے قبل سوچنا چاہیے اسی طرح خان صاحب کو بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کے طرز عمل سے کس کو فائدہ اور کس کونقصان پہنچ رہا ہے۔ ان کے اس بیان پر فوج میں کیسا محسوس کیا گیا ہوگا؟ خان صاحب کا قد کاٹھ جاوید لطیف سے کہیں بڑا ہے لیکن ان کے بیشتر بیانات ان کی شخصیت سے میل نہیں کھاتے۔جب ہر طرف ہی ایسا ہو رہا ہو گا تو پھر کیسی اخلاقیات ‘ کیسا سلجھائو؟
اب جب کہ وزیرمملکت برائے اطلاعات مریم اورنگ زیب نے بھی جاوید لطیف کی مراد سعید بارے گفتگو کو افسوسناک قرار دے دیا ہے تو اس بارے میں کوئی ابہام نہیں رہ جاتا کہ انہوں نے واقعتاً ایک غلط حرکت کی جس کی اگرچہ وہ معافی مانگ رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اسی طرح مخالفین کی تذلیل کر کے بعد میں رسمی معافیاں مانگی جاتی رہیں تو یہ سلسلہ کیوں رکے گا۔ اگر اس بارے میں ٹاپ لیڈر شپ نے سخت ایکشن نہ لیا تو آئندہ بھی اس قسم کے واقعات ہوتے رہیں گے اور ہم یونہی لکیر پیٹتے رہ جائیں گے۔
''باجی، کچھ مدد کر دیں، بیٹی کی شادی ہے۔‘‘
صبح سے جی گھبرا رہا تھا، ماسی کے اِس جملے نے مزید پریشان کر دیا۔