فاروق ستار پندرہ منٹ کے لئے گرفتار کیا ہوئے‘ میڈیا میں بھونچال آ گیا۔
عین اس وقت‘ میں ایک مریض کی عیادت کیلئے ایک سرکاری ہسپتال کے کائونٹر پر کھڑا تھا۔ کائونٹر کے پیچھے دیوار پر ٹی وی نصب تھا جس پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی'' فاروق ستار پندرہ منٹ گرفتاری کے بعد رہا‘‘ میں نے کائونٹر پر موجود شخص سے سرجیکل وارڈ کا پتہ پوچھا تو اس نے سنی ان سنی کر دی۔ اس کا ہاتھ ریموٹ پر اور دونوں پائوں دوسری کرسی پر رکھے تھے۔ وہ شانِ بے نیازی سے سر کرسی پر ٹکا کر لیٹا چینل پہ چینل تبدیل کر رہا تھا۔ خبر کے فوراً بعد ٹاک شوز شروع ہو گئے ۔ وہ جو چینل بھی بدلتا ‘ہر اینکر اسی کھوج میں دکھائی دیتا فاروق ستار کو کس نے گرفتار کیا‘ کیوں کیا‘ کتنے منٹ کے لئے کیا‘ کہاں سے پکڑا اور کہاں چھوڑا‘ گرفتاری کے وقت انہوں نے کس رنگ کے کپڑے پہنے تھے‘ کس کے ساتھ بیٹھے تھے اور کیا کر رہے تھے۔ یہ وہ پوائنٹ تھے جن کے گرد میڈیا کے افلاطون سوالوں کی بوچھاڑ کر رہے تھے۔میں نے کائونٹر بوائے سے دوبارہ پوچھا تو اس نے انتہائی ناگواری سے ٹی وی کی آواز آہستہ کی اور بولا۔ سیدھا جا کر دائیں ہو جائیں۔یہ کہہ کراس نے آواز دوبارہ کھولی اور کرسی پر دراز ہو گیا۔ وہاں سے چلا تو دیکھا ‘ ہسپتال کی راہداری میں ایک معمر شخص زمین پر پڑا ہے‘ اس کے ہاتھ میں ڈرپ لگی ہے اور ڈرپ کا دوسرا سرا اس کے سرہانے کھڑی چودہ پندرہ سال کی بچی کے ہاتھ میں ہے۔میں نے پوچھا ‘ کیا تم لوگوں کو اندر جگہ نہیں ملی۔ بچی نے نفی میں سر ہلا دیا۔ میں ساتھ والے وارڈ میں داخل ہو گیا اورڈاکٹر سے پوچھا‘ باہر مریض راہداری میں کیوں پڑا ہے۔ ڈاکٹر موبائل فون پر فیس بک سے کھیل رہا تھا ‘اس نے جواب دینا ضروری نہ سمجھا۔ قریب کھڑی نرس سے میں نے یہی سوال پوچھا۔وہ ایک بیڈ پر دو مریضوں کو بیک وقت دیکھ رہی تھی۔میں نے نظر دوڑائی‘ پورے وارڈ میں ہر بیڈ پر دو دو حتیٰ کہ تین تین مریض بھی موجود تھے۔ اتنے میں ایک نوجوان ہانپتا ہوا آیا اور بولا‘ ڈاکٹر صاحب‘ میں بھائی کو دو مرتبہ سی ٹی سکین کروانے لے کر گیا لیکن وہ کہتے ہیں کہ مشین کام نہیں کر رہی۔ بتائیں میں کیا کروں‘ میرے بھائی کے سر پر شدید چوٹ آئی ہے اور وہ خون میں لت پت ہے۔ڈاکٹر نے کہا‘ مشین تو چھ ماہ سے خراب ہے۔ میں نے تمہیں ہسپتال کے باہر سے سی ٹی سکین کرانے کو کہا تھا ۔وہ بولا‘ لیکن باہر تو آٹھ دس ہزار مانگیں گے‘ میرے پاس اتنے پیسے نہیں۔ ڈاکٹر بولا پیسے نہیں تو ہم کیا کریں‘ہم کہاں سے مشین لائیں۔ ہمیں حکومت مشین دے گی تو ہی تمہارے بھائی کا ٹیسٹ کریں گے۔ بہتر ہے اسے کسی نجی ہسپتال لے جائو‘ ورنہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔ابھی وہ ڈاکٹر سے بحث کر رہا تھا کہ دو تین اور لوگ آ گئے۔ انہیں ہسپتال کی فارمیسی سے ادویات نہیں مل رہی تھیں۔ڈاکٹر نے انہیں بھی ویسا ہی ''دانشمندانہ‘‘مشورہ دیا اور فون کان سے لگا کر باہر نکل گیا۔ میں بھی سٹپٹاتا ہوا اپنے مریض کے پاس پہنچ گیا۔ وہاں بھی اسی قسم کے مناظر تھے۔ ایسا لگ رہا تھا میں شام یا عراق کے کسی علاقے کی کال کوٹھڑی میں کھڑا ہوں اور ہر طرف زخمی پڑے کراہ رہے ہیں۔ایک مریض کو آکسیجن ماسک لگا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور مریض لیٹا تھا۔ اسے بھی آکسیجن درکار تھی لیکن ماسک اور سلنڈر ایک ہی تھا۔اچانک اس بیڈ کے گرد بھی شور مچ گیا۔ معلوم ہوا آکسیجن ختم ہو گئی ہے۔پتہ کیا تو پورے ہسپتال میں کوئی اور سلنڈر فارغ نہ ملا۔ لواحقین ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف کے ساتھ جھگڑنے لگے۔ نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ انتظامیہ نے پولیس کو فون کر دیا۔ پولیس نے آ کر چار لواحقین کی ٹھکائی کی اور اٹھا کر تھانے لے گئے۔ پولیس کے جاتے ہی ڈاکٹرگپیں ہانکنا اور موبائل سے کھیلنا شروع ہو گئے ‘نرسیں ایک دوسرے کو قصے سنانے لگیں اور مریضوں اور ان کے لواحقین نے ہائے ہائے شروع کر دی۔ میں اپنے مریض کے پاس پہنچا۔ اس کی ٹانگ میں پیچیدہ فریکچر تھا۔ وہ دو دن سے آپریشن کے انتظار میں پڑا تھا۔ میں نے پوچھا‘ آپریشن کب ہو گا‘ بولا‘ کہتے ہیں: سرجن ڈاکٹر بیرون ملک ہے‘ اس کی فلائٹ لیٹ ہے ۔صبح کہتے ہیں شام کو اور شام کو کہتے ہیں اگلے دن آ جائے گا ۔یہ سن کر میرا خون کھول اٹھا۔ میں سمجھ گیا مریض کا علاج سفارش کے بغیر ممکن نہیں۔ میں ایڈمنسٹریٹر کے کمرے کی طرف چل پڑا ‘ وہاں پہنچا تو منظر ہی اور تھا۔ ایڈمنسٹریٹر صاحب ایک ایم پی اے اور ان کے آٹھ دس ساتھیوں کے ساتھ محفل جمائے بیٹھے تھے۔ میز انواع و اقسام کے کھانوں سے سجی تھی اور سب لوگ ٹی وی ٹاک شوز پر بڑھ چڑھ کر تبصرے کرنے میں لگے تھے۔ یہاں بھی اُسی فاروق ستار والے ایشو کی درگت بن رہی تھی۔ میں نے ایڈمنسٹریٹرسے اپنا تعارف کرایا تو وہ مجھے دوسرے کمرے میں لے گیا۔ اس نے جو کچھ بتایا وہ حقائق تھے یا کچھ اور ‘ میں نہیں جانتا تاہم میں نے اسے کہا‘ ہسپتال میں ایک ایک بیڈ پرتین تین مریض پڑے ہیں‘ آکسیجن سلنڈر دستیاب ہیں نہ سی ٹی سکین مشین کام کر رہی ہے‘ ہسپتال کی فارمیسی میں ادویات ہیں نہ آپریشن کرنے کیلئے سرجن‘ اور تو اور ہسپتال کے کائونٹر سے لے کرنرس اورڈاکٹرسے لے کر ایڈمنسٹریٹر تک ہر کوئی ٹی وی اور موبائل فون سے کھیلنے میں لگا ہے ۔ میں نے کہا‘ جس ایم پی اے کے ساتھ آپ بیٹھے ہیں‘ یہ یقینا یہاں سے اپنا یا اپنے کسی مریض کا علاج مفت کرانے آیا ہو گا‘ اس کے لئے آپ کی سی ٹی سکین مشین بھی چل پڑے گی‘ سلنڈر میں آکسیجن بھی بھر جائے گی‘ خالی بیڈ اور کمرے بھی میسر ہو جائیں گے‘ اس کے مریض کا آپریشن بھی فوری ہو جائے گا اور یہ یہاں سے باعزت رخصت بھی ہو جائے گا لیکن غریبوں کی بیٹیاں درد زہ سے کراہتی ہوئی ہسپتال کی سیڑھیوں پر جانیں دے دیں گی‘ انہیں ڈاکٹر ملے گا نہ ادویات ‘ بستر ملے گا نہ آکسیجن‘ اگر ایڈمنسٹریشن اسے کہتے ہیں تو میں اپنے کالم میں آپ کے لئے ہلال امتیاز کی سفارش کروں گا۔
میں نے فوراً ایک نجی آرتھوپیڈک ہسپتال میں فون کیا اور مریض کو وہاں شفٹ کروا دیا۔ایک گھنٹے بعد ڈاکٹر کا فون آیا‘ ہم مریض کا آپریشن شروع کرنے لگے ہیں۔فون بند ہوا تو میں نے ٹی وی کی طرف دیکھا‘ ایک ٹاک شو میں ایک اینکر زور زور سے چلّا رہا تھا '' آج کی سب سے بڑی خبر‘ فاروق ستارکی گرفتاری اور رہائی‘‘۔ بیس کروڑ غریب عوام کے اس ''اہم ترین‘‘ ایشو پر بحث نازک موڑ اختیار کر چکی تھی‘ہر طرف ہاہاکار مچی تھی‘ اینکر تیل ڈال کر پھنکارتے ہوئے شرکا کو مزید بھڑکانے میں لگا تھا ‘جیسے ہی سٹوڈیو میں تھوڑی خاموشی ہوتی‘اینکرکے کان میں پروڈیوسر کی آواز آتی '' سر جی! کم چُک کے رکھو‘‘ ۔ وہ سوالوں کے ایسے کنکر برساتا کہ پھر سے میدان جنگ آباد ہو جاتا۔ اس سے قبل کہ دونوں سیاسی فریق ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑتے‘ گالیوں کی پچکاریوں سے ٹی وی سکرین آلودہ کرتے اور جمہوریت کا نعرہ لگا کر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے‘ میں نے ریموٹ پکڑا اور ٹی وی آف کر دیا۔