یہ دو واقعات ہیں اور تصویر کے دو رُخ بھی۔
پہلا واقعہ امریکہ کی سب سے بڑی یونائیٹڈ ایئر لائنز کے ساتھ پیش آیا۔یہ دنیا کی تیسری بڑی ایئر لائن بھی ہے۔ یہ 1926ء میں قائم ہوئی۔ سالانہ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ افراد اس پر سفر کرتے ہیں۔ کمپنی کے ملازمین کی تعداد چھیاسی ہزار ہے۔یہ دنیا کے ساٹھ ممالک میں آپریٹ کرتی ہے اور دنیا کے 138ایئرپورٹس پر اس کی روزانہ ساڑھے پانچ ہزار پروازیں آتی اور جاتی ہیں۔بوئنگ اور ایئر بس کے کل ملا کر 738مسافر طیارے اس کی ملکیت میں ہیں۔ان میں 20بوئنگ 787ڈریم لائنر بھی شامل ہیں ۔ ایک ڈریم لائنر کی مالیت 32ارب ڈالر ہے جس میں 335 مسافروں کی گنجائش موجود ہے۔1926ء سے اب تک اس کے 33جہاز حادثوں کا شکار ہوئے ہیں جن میں فلائٹ 73اور فلائٹ 175بھی شامل ہیں۔ یہ دونوں جہاز نائن الیون کا نشانہ بنے۔ پہلا جہاز پنسلیوینیا کے قریب گر کر تباہ ہوا جبکہ موخر الذکر ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ایک ٹاورسے جا ٹکرایا۔اس کے بعد سے اب تک نہ تو اس کا کوئی جہاز خراب ہوا نہ ہی کوئی حادثہ پیش آیا۔اس کی پوری ایئر لائن ہسٹری میں صرف پانچ واقعات ایسے پیش آئے جن سے ایئر لائن کی ساکھ متاثر ہوئی۔ ان میں سے چار واقعات معمولی نوعیت کے تھے جبکہ پانچویں واقعے نے ایئر لائن کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ دس اپریل کو یونائیٹڈ ایئر لائن کی پرواز نمبر3411شکاگو ایئرپورٹ سے ٹورنٹو جانے کے لئے تیار کھڑی تھی۔ تمام مسافرسوار ہو چکے تھے اور کچھ ہی لمحوں میں اسے ٹیک آف کرنا تھا کہ اچانک اعلان ہوا جہاز میں مقررہ بکنگ سے زیادہ مسافر سوار ہو گئے ہیں اس لئے روانگی سے قبل فلاں چارمسافروں کو اترناہو گا۔ تین مسافر فوری طورپر اتر گئے لیکن ایک مسافر نے اترنے سے انکار کر دیا۔ اس کا استدلال تھا کہ بکنگ اس نے نہیں بلکہ کمپنی نے کی ہے اور وہ کمپنی کی غلطی کا خمیازہ بھگتنے کو تیار نہیں۔ نیز یہ کہ وہ ایک ڈاکٹر ہے اور اس نے ایک آپریشن کیلئے ضروری پہنچنا ہے۔ اس پر ایئرپورٹس سکیورٹی حکام نے مزید نفری طلب کر لی اور مسافر کو زبردستی اتارنے کا فیصلہ کیا۔ سیکورٹی اہلکاروں نے مسافرکوگھسیٹ کرطیارے سے نکالنے کی کوشش کی تو اس نے مزاحمت کی۔ اہلکاروں نے اسے بازوئوں اور ٹانگوں سے پکڑ کر زمین پر کھینچنا شروع کر دیا۔ سیکورٹی اہلکاروں کے اس رویے پر جہاز میں موجود مسافر خوفزدہ ہوگئے ۔ زور زبردستی سے مسافر کے ناک کی ہڈی پر ضرب آ ئی ‘ اس کے ہونٹ پھٹ گئے اور چہرہ خون سے بھر گیا۔ خون دیکھ کر دیگر مسافر خوف سے چیخنے چلانے لگے ۔مسافر کو تو زبردستی اتار دیا گیا لیکن اس کے بعد جو ہوا اس کا خمیازہ یہ ایئرلائن آج تک بھگت رہی ہے۔ مسافر کو اتارنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی‘ چند ہی گھنٹوں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اس پر ردعمل دینا شروع کر دیا کہ وہ ایئر لائن کے اس رویے پر آئندہ اس ایئرلائن کا بائیکاٹ کریں گے۔ اس خبر کے بعد امریکی سٹاک ایکسچینج میں ایئرلائن کے شیئرز کی قیمت گر گئی اور کمپنی کو چند ہی گھنٹوں میں کئی ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ایئرلائن کے سی ای او نے مسافر کو آف لوڈ کرنے اور سیکورٹی اہلکاروں کے رویے پر فوری طور پر معافی مانگ لی لیکن گھٹنے ٹیکتے ٹیکتے اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا تھا۔
اب دوسرا واقعہ سنئے ۔دو روز قبل ناروے جانے کے لئے ایک پاکستانی خاتون اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ بینظیرانٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچی۔ بورڈنگ وغیرہ کے بعد خاتون کی ایک بیٹی جو ناروے میں میڈیکل کالج کی طالبہ ہے‘ نے واش روم میں ٹشو نہ ملنے پر ایک خاتون اہلکار سے اس بارے استفسار کیا۔ طالبہ کو معلوم نہ تھا کہ یہ خاتون سکیورٹی اہلکار ہے ۔ وہ اسے انتظامیہ کا حصہ سمجھ بیٹھی ۔ طالبہ کی یہ غلطی اسے بہت مہنگی پڑی۔ خاتون اہلکار نے اس حرکت کو اپنی بے عزتی خیال کیا اور بات تو تکار تک جا پہنچی جس پر اس نے اپنی ساتھی اہلکاروں کو بلا لیا اور جوان طالبہ کو بالوں سے پکڑکر تھپڑوں کی بارش کر دی۔ شور سن کر اس کی والدہ وہاں آئی تو ان دونوں کو ایک بند کمرے میں لے جا کر بہیمانہ تشدد شروع کر دیا۔ برق رفتاری دیکھئے کہ چند ایف آئی اے اہلکاروں نے فوری طور پر ایئرپورٹ تھانہ میں فیملی کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا اور بعد میں فیملی پر دبائو اور دھمکیوں کے ذریعے ان سے معافی نامہ تک لکھوا لیا تاکہ اپنی ساتھی اہلکار کو کسی طرح بچایا جا سکے۔ اس دوران
ایک ایسی ویڈیو سامنے آ گئی جس نے سارا کھیل ہی پلٹ دیا۔ ایئرپورٹ پر اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن کا ایک کائونٹر ہوتا ہے جس کا کام اوورسیز پاکستانیوں کی رہنمائی ہے۔ وہاں موجود ایک نمائندے نے تشدد ہوتے دیکھا تو اس نے اپنے کیمرے سے اس واقعے کی ویڈیو بنانا شروع کر دی۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سبز رنگ میں ملبوس دو خواتین مسافروں کو خاتون پولیس اہلکار بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ رہی ہے اور ایئرپورٹ حکام کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ان سب کی آشیر باد سے ہی یہ ڈرامہ وہاں جاری تھا۔ ورنہ ایک تیسرے درجے کی عام اہلکار کی کی کیا مجال کہ انٹرنیشنل فلائٹ کے کسی مسافر کو یوں ہاتھ لگا سکے۔ ایئرپورٹ پر اس وقت ایف آئی اے‘ ایئرپورٹ سکیورٹی فورس اور دیگر ایجنسیوں کے درجنوں اہلکار موجود تھے لیکن مجال ہے کوئی شخص بھی خواتین کو بچانے کے لئے آگے بڑھا ہو۔ ایسا لگتا تھا جنگل میں دو تین معصوم ہرن درجنوں بھیڑیوں کے قابو آ گئے ہیں۔ اس واقعے کی ویڈیو رات گئے ٹی وی شو میں چلی تو ڈی جی ایف آئی اے نے گزشتہ صبح فریقین کو دفتر بلا لیا۔ اس دوران وزارت داخلہ نے بھی واقعے کا نوٹس لے لیا ۔ وزارت داخلہ نے جب یہ دیکھا کہ معاملہ میڈیا میں پہنچ گیا ہے تو فوراً گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے لئے اہلکار کو معطل کر دیا۔
ایک طرف یونائیٹڈ ایئر لائن کا واقعہ ہے اور دوسری طرف بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر خواتین کے ساتھ ہونے والی درندگی۔ یہ دو واقعات دو معاشروں کی تصویر کے دو رخ اور اس خلیج کو ظاہر کرتے ہیں جو ہم نے خود قائم کر رکھی ہے۔شکاگو میں جو واقعہ ہوا اس کے فوراً بعد کمپنی کے سی ای او نے نہ صرف معافی مانگی بلکہ طیارے کے تمام مسافروں کو ٹکٹوں کے پیسے لوٹانے کا فیصلہ کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک نے واقعے کو افسوسناک قرار دیا۔گزشتہ روز یونائیٹڈ ایئرلائن کے سی ای او خصوصی طور پر چین جا پہنچے اور وہاں اس مسافرسے بالمشافہ معافی مانگی اور لاکھوں ڈالر ہر جانہ ادا کیا۔ یہ ہوتی ہے زندہ قوموں کی نشانی۔ ہمارے ہاں کیا ہوا؟ اُلٹا خواتین مسافروں کو جانور سمجھ کر مارنا شروع کر دیا اور انہی کو قصور وار قرار دے کر انہی کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا گیا۔ ذرا سوچیں اگر یہ ویڈیو سامنے نہ آتی تو کیا ہوتا۔کسی کے فرشتوں کو بھی معلوم نہ ہوتا کہ اصل معاملہ کیا تھا۔ اس سے قبل جھگڑے کی یکطرفہ انکوائری ہوئی تھی جس میں یہی خاتون اہلکار نوشیبا انکوائری میں بری ہو چکی تھی جبکہ خواتین مسافروں کو قصور وار قرار دیا گیا تھا۔جس نوجوان طالبہ اور اس کی والدہ کو بھرے ایئرپورٹ پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس سے ہمارے معاشرتی اور اخلاقی انحطاط کا تو پتہ چلتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایسے واقعات کا نفسیاتی زخم بہت گہرا ہوتا ہے۔ اس فیملی میں پانچ چھ سال کی ایک چھوٹی بچی بھی تھی جو اپنی ماں اور بہن کو سر عام مار کھاتے دیکھ رہی تھی۔ یہ واقعہ اس بچی کے ذہن پر کیا اثرات چھوڑے گا ۔ میڈیکل کی جس طالبہ کو کمرے میں محبوس رکھا گیا وہ کیسے جا کر دوبارہ پڑھائی میں دل لگا سکے گی۔ اوورسیز پاکستانی جو پہلے ہی سوچ سمجھ کر اپنے وطن آتے ہیں‘ اس طرح کے واقعات کے بعد کیا بہ حالت مجبوری ہی پاکستان نہیں آئیں گے؟ ابھی مردان والے واقعے کے زخم مندمل نہ ہوئے تھے کہ اس واقعے کی ویڈیو نے اعصاب کا
امتحان لینا شروع کر دیا۔ مردان یونیورسٹی میں مشال کے قتل نے بھی ثابت کر دیا کہ ہمارا معاشرہ پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکااور یہ قوم ہجوم بن کر کسی بھی شخص پر کوئی بھی الزام لگا کر اس کی بوٹیاں تک نوچ سکتی ہے۔ اس واقعے کے بعد سینکڑوں لوگوں نے اپنے فیس بک اکائونٹس کو بند کرنا شروع کر دیا ہے۔ کئی ایک نے لکھا کہ ان کا ایک ہی فیس بک اکائونٹ ہے اور اگر ان کے کسی اور پیج پر کوئی توہین آمیز مواد شیئر کیا جاتا ہے تو وہ اس کے ذمہ دار نہیں۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ کب کوئی ہجوم اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کا قصور پوچھے بغیر اس کے چیتھڑے کر کے رکھ دے گا۔ درحقیقت ہم لوگ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ وغیرہ کے قابل ہی نہیں ہیں۔ یوٹیوب سے لے کر فیس بک تک پر ہم نے اپنا پاکستانی کلچر غالب کیا ہوا ہے۔ آپ یوٹیوب کھول کر دیکھ لیں‘ نیوز اینکرز کے لباس سے لے کر خاتون سیاستدانوں کی ذاتی خبروں تک‘ طرح طرح کی خودساختہ اور اخلاق باختہ ویڈیوز چل رہی ہیں اور یہ سارا زیادہ سے زیادہ ریٹنگ اور لائیکس کے لئے کیا جارہا ہے کیونکہ اب یوٹیوب سے پیسے بھی کمائے جا سکتے ہیں اور پیسے کمانے کے لئے ہم کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ سب نہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو نظر آتا ہے نہ سائبر ونگ کو۔آپ دیکھئے گا یو ٹیوب پر اب ایسی ویڈیوز بھی آ جائیں گی جن کے ٹائٹل پر لکھا ہوگا کہ ناروے جانے والے فیملی اورسکیورٹی اہلکار کے درمیان وہ کون سی غیر شائستہ بات ہوئی جس کی وجہ سے یہ جھگڑا آگے بڑھا یہ ویڈیو دیکھنے کے لئے ابھی کلک کیجئے۔ ویڈیو میں جائیں گے تو اوپر من گھڑت متن میں کچھ لکھ دیا جائے گا جس کا اصل واقعے سے دور پار کا بھی تعلق نہ ہو گالیکن یہ ویڈیو زیادہ تعداد میں دیکھے جانے سے متعلقہ یوٹیوب چینل کی کمائی کا ذریعہ ضروربن جائے گی۔
ہمارے حکمرانوں اور پاناما کا فیصلہ تو آج سپریم کورٹ کر ہی دے گی لیکن سوال یہ ہے کہ اس ہجوم نما قوم کا فیصلہ کون کرے گا‘ کون اسے انسانیت سے محبت اور خواتین اور مسافروں کی عزت کرنا سکھائے گا؟