حکمران خاندان جس طرح پاناما تحقیقات پر شور مچارہا ہے اس سے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔
ایک لینڈ کروزر کو ٹریفک وارڈن نے کالے شیشوں کی وجہ سے روکا اور چالان کیلئے کاغذات طلب کئے جس پر گاڑی کا مالک جھگڑنے لگا۔ بولا‘ سڑک پر سینکڑوں گاڑیاں جا رہی تھیں لیکن تم نے مجھے ہی روکا‘ کسی گاڑی کا ٹوکن ٹیکس نہیں ہو گا ‘ کسی کی نمبر پلیٹ فینسی ہو گی اور کسی کے ڈرائیور کے پاس لائسنس نہیں ہو گا ‘ان کو تو تم نے روکا نہیں اور میرے پیچھے پڑے ہو۔ یا تو سب کو روکو اور سب کا چالان کرو یا پھر مجھے بھی جانے دو۔
گزشتہ ڈیڑھ برس سے شریف خاندان اور ان کے ترجمان یہ بودی دلیل پیش کر رہے ہیں کہ صرف ہمارے خاندان کے خلاف عدالتی سطح پر کارروائی کی جا رہی ہے حالانکہ عمران خان کے بنی گالہ فلیٹ کی ملکیت اور شوکت خانم کی فنڈنگ بھی درست نہیں ہے‘ عمران خان کے ساتھ کھڑے کئی لوگوں نے قرضے معاف کرائے‘ سینکڑوں ہزاروں اور لوگوں نے بھی ناجائز ذرائع سے مال کمایا ہو گا‘ لیکن کارروائی صرف ہمارے خلاف کی جا رہی ہے۔ یعنی ان کے خیال میں یا تو لاکھوں مقدمات بیک وقت کھول دئیے جانے چاہئیں یا پھر انہیں بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ عام ملزم جو موبائل فون یا سائیکل چوری کے مقدمے میں مجسٹریٹ یا جج کے سامنے پیش ہوتا ہے اگر وہ ایسی ہی دلیل سامنے لائے کہ میرے محلے میں‘ اس شہر میں بلکہ پورے ملک میں لاکھوں چور چوریاں کر رہے ہیں آپ نے ان کو تو نہیں بلایا‘ ان کا تو احتساب نہیں کیالیکن مجھ اکیلے کو آپ سزا دینے کے درپے ہیں‘ یا تو ساروں کو پکڑیں یا پھر مجھے چھوڑ دیں تو آپ کے خیال میں مجسٹریٹ یا جج
صاحب اس دلیل کو قبول کر لیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے بعد حکمران خاندان یا ان سے متعلقہ کوئی فرد بھی باہر آیا تو اس نے ساراغصہ عمران خان کے خلاف نکالنا شروع کر دیا۔ اس پر کسی دل جلے نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ان کے اڑے ہوئے چہرے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جوڈیشل اکیڈمی کے اندر ایک کمرہ شاید عمران خان کے پاس ہے جہاں یہ سب عمران خان کے سامنے بھی پیش ہوتے ہیں اور باہر آ کر اس کے خلاف بولنے لگتے ہیں۔عمران خان بھی بڑے سیانے ہو گئے ہیں۔ اب وہ ہر دوسری پریس کانفرنس میں جیب سے اپنا موبائل نکالتے ہیں اور میڈیا اور قوم کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ آپ اپنے موبائل سے گوگل پر جائیں‘ وہاں آئی سی آئی جے لکھیں اور اس کی ویب سائٹ پر جا کر شریف خاندان کے ارکان کے نام ڈالیں‘ حقیقت سامنے آ جائے گی۔ سوال یہ ہے آج شریف خاندان کو ہر طرف سے سازش کی بو تو آ رہی ہے لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ جس نے یہ معاملہ شروع کیا‘ انہوں نے اس کے خلاف آج تک کیس کرنے کی ہمت کیوں نہیں کی۔ کیونکہ انہیں عالمی اور مقامی عدالت میں لے جانے اور بھاری نوٹس کروانے کی کوشش نہیں کی۔ شریف خاندان کے لندن فلیٹس کے حوالے سے پاناما لیکس سے قبل بھی باتیں میڈیا میں آئیں۔خود صدیق الفاروق نے اعتراف کیا کہ وہ 93ء میں ان فلیٹس میں گئے جو شریف خاندان کی ملکیت ہیں۔ یہ معاملہ اگر عالمی طور پر افشا نہ ہوتا اور دیگر ممالک کے حکمران اور شخصیات اس میں قابو نہ آتے تو عمران خان تو کیا پورا ملک اکٹھا ہو کر زور لگا لیتا‘ یہ کیس مقامی عدالت تک بھی نہ پہنچ پاتا۔
گزشتہ روز شریف خاندان کو وہ دن رہ رہ کر یاد آ رہا ہو گا جب سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا تو حکمران خاندان نے ایک دوسرے کو مبارکبادیں دینا اور مٹھائیاں کھلانا شروع کر دیں اور یہ سمجھا کہ شاید وہ مشکل سے نکل گئے ہیں۔ ایسی تصاویر بھی جاری کی گئیں جن میں وزیراعظم نواز شریف‘ پرویز رشید‘ عرفان صدیقی ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے اور سب کے چہروں سے خوشی عیاں تھی۔ تاہم جیسے جیسے جے آئی ٹی نے تفتیش شروع کی او رحکمران خاندان کی پیشیاں شروع ہوئیں تو مٹھائیوں کا ذائقہ کڑواہٹ میں تبدیل ہوگیا اور اس کڑواہٹ نے طلال چودھری ‘ سعد رفیق اور نہال ہاشمی جیسے جنگجو سیاستدانوں کو جے آئی ٹی کے روبرو لا کھڑا کیا ۔ شریف خاندان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اس عدالتی جنگ کو سیاسی جنگ میں تبدیل کر دیں اور منی ٹریل دینے کی بجائے جے آئی ٹی کو داغدار کر نا شروع کر دیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں لکھا ہے شریف خاندان کی آمدن اور طرز رہائش مطابقت نہیں رکھتیں لہٰذا عدالت نوازشریف، حسن اور حسین نواز کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرے ۔ مدعا علیہان کی آمدنی اوردولت کے ظاہر کردہ ذرائع میں اہم تضاد پایا جاتا ہے ،، برطانیہ کی کمپنیاں نقصان میں تھیں لیکن پھر بھی بھاری رقوم کی ترسیل میں مصروف تھیں۔ جے آئی ٹی نے اس بات کی بھی نفی کی ہے کہ لندن پراپرٹیز اس بزنس کی وجہ سے تھیں بلکہ بڑی رقوم کی قرض اور تحفے کی شکل میں بے قاعدگی سے ترسیل کی گئی ۔انہی آف شورکمپنیوں کو برطانیہ میں فنڈز کی ترسیل کے لیے استعمال کیا گیا اور ان فنڈز سے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں خریدی گئیں۔ پاناما کیس کا بڑا انحصار قطری شہزادے کے خط پر تھا اور آخر میں جب کوئی بھی حربہ کارگر ثابت نہ ہوا تو حکمران جماعت نے اپنے چار وزرا کے ذریعے یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ اگر جے آئی ٹی قطری شہزادے کا بیان لینے قطر نہیں جاتی تو وہ اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کریں گے۔ حالانکہ قطری شہزادے اگر شکار کی غرض سے پاکستان آ سکتے ہیں تو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کی قائم کردہ جے آئی ٹی کے سامنے انہیں پیش ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے تھا کہ اسی جے آئی ٹی کے سامنے خود وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچے تک پیش ہو چکے ہیں۔
گزشتہ روز عمران خان سمیت دیگر حلقوں نے جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے بعد نوازشریف صاحب سے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے حکمران تعلیم بھی برطانیہ سے حاصل کرتے ہیں‘ علاج بھی برطانیہ میں کراتے ہیں‘ وہاں سے صحت یاب بھی ہوتے ہیں‘ کاروبار بھی وہیں کرتے ہیں اور اثاثے بھی وہیں بناتے ہیں لیکن وہاں کے قوانین‘ وہاں کی اخلاقیات سے کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اگر اگلے چند دنوں میں عمران خان عوام کو سڑکوں پر لے آئے اور وزیراعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا تو ہو سکتا ہے وزیراعظم کو برا محسوس ہو لیکن انہیں اسی برطانیہ کو یاد رکھنا چاہیے جہاں سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد کا نام پاناما کیس میں آیا تھا کہ کیسے انہوں نے عوام کے ٹیکس کا ناجائز استعمال کر کے آف شور کمپنیاں بنائیں تو ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ پر ہزاروں شہریوں نے مظاہرہ کرتے ہوئے ڈیوڈ کیمرون سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔عوام کیمرون سے پوچھ رہے تھے کہ وہ عام شہریوں کو ٹیکس ادا کرنے کی تلقین کرتے ہیں جبکہ وہ خود ٹیکس چوری میں ملوث ہیں۔ ڈیوڈ کیمرون نے تو نہیں کہا کہ میرا نام پاناما میں نہیں آیا اس لئے میں استعفیٰ کیوں دوں،میں کیوں اقتدار چھوڑوںاور میں کیوں عدالت کا سامنا کروں بلکہ انہوں نے وزارت عظمیٰ پر ڈھٹائی سے جمے رہنے کی بجائے خود کو تاریخ کے آسمان پر زندہ رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تو کیا آج جب جے آئی ٹی نے شریف خاندان کی منی ٹریل پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا ہے، مریم نواز کو نیلسن اور نیسکول کی بینی فشری مالک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ لندن فلیٹس 93ء سے شریف خاندان کے زیراستعمال ہیں تو کیا وزیراعظم نوشتہ ٔدیوار پڑھنا چاہیں گے اور استعفیٰ دیکر خود کو تاریخ میں زندہ رکھنے کا فیصلہ کریں گے یا پھر اب بھی تصادم کا راستہ اپنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کے اوراق میں گم ہو ناپسند کریں گے؟