یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس پر ایک رائے یہ سامنے آ رہی ہے کہ جو ایشین ٹائیگر آج کل عدالت کے قابو آئے ہوئے ہیں‘ یہ سب ان کا کیا دھرا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ہم نا اہل ہوئے ہیں‘ اگر ہم نہیں رہے تو پھر یہ سسٹم بھی نہیں رہنا چاہیے۔ آپ خو د دیکھ لیں‘ گزشتہ تین ہفتے سے صرف دارالحکومت کا پہیہ جام تھا اور آج پورا ملک بند ہے۔ دھرنے والے حکومت کی سانس کی نالی میں اٹک گئے ہیں‘ حکومت انہیں اُگل پا رہی ہے‘ نہ نگل سکتی ہے۔ اُگلنے کی ایک کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ وزیرداخلہ احسن اقبال کی کارکردگی بھی سامنے آ چکی ہے اور وہ اپنی وزارت کے پہلے ہی بڑے امتحان میں ناکام ہو گئے ہیں۔مایوسی کے عالم میں وہ اس کی ذمہ داری وزیرقانون رانا ثنا اللہ اور آئی جی پنجاب پر ڈال رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں اس قسم کے حالات سے نمٹنے کا کبھی تجربہ ہی نہیں رہا۔ ہم نے انہیں سترہ اٹھارہ برس قبل ویژن 2010کی پلاننگ کرتے دیکھا تھا اور موجودہ وزیرداخلہ بننے سے قبل وہ ویژن 2025ء کی تیاری کر رہے تھے۔ ان کے ویژن دو ہزار دس کا حشر بھی ہم نے دیکھا اور اب دھرنے سے نمٹنے کا ویژن بھی سامنے آ گیا ۔دھرنے والوں سے نمٹنے کے لئے خود پنجاب اور وفاقی حکومت بھی ایک پیج پر نہیں ہے۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں چند ہفتے قبل وزیراعلیٰ شہباز شریف نے کہا تھا کہ آئینی ترمیم میں ختم نبوت کے معاملے پر میاں نواز شریف نے فی الفور ایکشن لیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ اس قانون کو دوبارہ پہلے والی حالت پر لایا جائے اور اسی طرح دوبارہ بنایا جائے جیسے یہ پہلے تھا۔ میں (شہباز شریف)نے اپنے قائد (نواز شریف) سے کہا ہے کہ جس نے یہ الفاظ بدلے ہیں اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے ۔ جس وزیر نے بھی ختم نبوت حلف نامہ میں یہ لفظ تبدیل کیا ہے اسے کابینہ سے نکال دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ جو مطالبہ خادم حسین رضوی کا ہے ‘ وہی مطالبہ شہباز شریف نے کیا تھا۔ تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے؟ خادم رضوی ایک مذہبی اور سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں‘ جبکہ شہباز شریف تو نہ صرف وزیراعلیٰ پنجاب ہیں بلکہ اسی حکمران جماعت کے صف اول کے رہنما ہیں جو سب سے بڑے صوبے اور وفاق میں حکومت میں ہے۔ شہباز شریف نے یہ بیان یا تو خود سے دیا یا پھر یہ دکھانے کے لئے کہ وہ اور نواز شریف ایک پیج پر نہیں۔ جیسا کہ فوج کے معاملے میں ہم دیکھتے رہے ہیں کہ نواز شریف فوج کے خلاف سخت سٹینڈ لیتے تھے جبکہ شہباز شریف اور چودھری نثار اندھیرے میں جنرل کیانی سے ملاقاتیں کرتے۔ وزیراعلیٰ پنجاب پر یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ قافلوں کو پنجاب سے بآسانی نکلنے دیا گیا اوراسلام آباد جا کر بٹھا دیا گیا۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ جو دانشور دھرنے سے قبل جڑواں شہروں کے عوام کی پریشانی کی وجہ سے آپریشن کا مطالبہ کر رہے تھے اب وہی حکومت پر تنقید بھی کر رہے ہیں کہ اس نے غلط کیا۔ حکومت کو شاید دھرنے کے خلاف آپریشن کے ردعمل کا اندازہ نہیں تھا یا پھر یہ جان بوجھ کر کیا گیا تاکہ ملک میں انارکی پھیلے اور اس طرح چند مقاصد پورے ہو جائیں۔ حکمران خاندان کے خلاف جو کیس چل رہے ہیں وہ پس پردہ چلے جائیں‘ فوج حکومت سنبھال لے اور اس طرح یہ سیاسی شہید بن کر پھر سے رونا دھونا شروع کر دیں اور مظلوم بن جائیں۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان انتہائی اہم اور معنی خیز ہے کہ دھرنے کی آڑ میں ملک کو غیر مستحکم کئے جانے کا خطرہ ہے۔ یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ صورت حال اگر اگلے چند روز میں نہ سنبھالی گئی تو یہ خانہ جنگی کی طرف بھی جا سکتی ہے۔اس کیلئے آپ صرف گزشتہ دو دنوں کے واقعات کو دیکھ لیں۔ دھرنا آپریشن کے بعد تمام ٹی وی چینلز آف ایئر کر دئیے گئے حتیٰ کہ سوشل میڈیا بھی بند کر دیا گیا۔ یہ ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ اس سے قبل ایسا کسی آمر کے دور میں بھی نہ ہوا تھا جو کام ایک ''جمہوری‘‘ حکومت نے کر دکھایا۔ دوسری خطرناک بات وفاقی وزرا اور سیاستدانوں کے گھروں پر حملے تھے۔ ایسا تو 77ء کی تحاریک میں بھی کہیں آخر میں جا کر ہوا تھا جو کام ابھی سے شروع ہو چکا ہے۔نہ صرف زاہد حامد‘ جاوید لطیف‘رانا ثنا اللہ اور بلال یٰسین کے گھروں پر حملے کئے گئے‘ ان کے گھروں کی توڑ پھوڑ کی گئی بلکہ ایک تھانے کا بھی گھیرائو کیا گیا اور ایس ایچ او سمیت سارا عملہ تھانے کی چھت پر محصور ہو گیا۔ ان چند واقعات میں دھرنے کے انجام اور خوفناک اثرات کی تصویر صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ لگتا ہے کسی ماہر کھلاڑی نے یہ سارا کھیل ڈیزائن کیا ہے ۔ یہ تو شکر ہے کہ آرمی چیف جنرل قمرباجوہ دورہ مختصر کر کے وطن لوٹ آئے اور وزیراعظم کو چینلز اور سوشل میڈیا بحال کرنے کا مشورہ دیا ورنہ تو یہ سرمایہ دار حکمران اس ملک کو لے بیٹھتے جن کے پاس سوائے بلیک آئوٹ کے اور کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ حکومت نے پنجاب اور اسلام آباد میں دو دن کے لئے سکول بند کرنے کا حکم تو جاری کر دیا لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ دو دنوں میں یہ مسئلہ حل ہو جائے گا جو گزشتہ تین ہفتے سے حل نہ ہوا۔ حکومت کے اس بھونڈے آپریشن نے ایک چھوٹی سی طاقت کو ایک جن بنا دیا ہے جسے واپس بوتل میں بند کرنا اس کے لئے درد سر بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس روز آپریشن کیا گیا اس روز دو چار سو لوگ بھی نہ تھے‘ آج وہاں تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ پہلے صرف فیض آباد کا دھرنا تھا‘ آج درجنوں دھرنے ملک بھر میں پھیل چکے ہیں‘ کیا ان سب کو طاقت کے استعمال سے ہٹایا جاسکے گا؟ جوں جوں وقت گزرے گا دھرنے والوں کی طاقت اور حکومت پر دبائو بڑھے گا‘ پہلے خادم رضوی کا مطالبہ ختم نبوت کے حلف نامے میں لفظ کی تبدیلی کرنے والے کو کابینہ سے نکالنے کا تھا‘ لیکن دھرنا آپریشن کے بعد ان کے مطالبات پھیل چکے ہیں۔ ابھی ان کے ساتھ کئی اور لوگ بھی آ ملیں گے مثلاً عمران خان جنہوں نے وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی‘ ق لیگ اور خود نون لیگ کے اندرسے بھی کئی رکن قومی و صوبائی اسمبلی دھمکی دے رہے ہیں کہ حکومت مذاکرات کرے اور طاقت کا وحشیانہ استعمال بند کرے وگرنہ وہ مستعفی ہو جائیں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ اس میں جتنی تاخیر ہو گی‘ نامعلوم شر پسند اس میں گھس کر حالات کو خراب تر کر سکتے ہیں۔حکومت کی نیت اگر واقعتاً احتجاجیوں کو اٹھانے کی ہے تو وہ فوراً ایک جامع مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے جس میں حکومت‘ اپوزیشن ‘اور مذہبی جماعتوں کا ایک ایک نمائندہ شریک ہو‘یہ لوگ ڈی جی رینجرز پنجاب کے ساتھ مل کر دھرنا پارٹی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں‘ یہ احتجاجیوں کو یقین دلائیں ان کے جائز مطالبات مانیں جائیں گے‘ جن معاملات پر اتفاق ہو جائے ان پر فوری طور پر عمل درآمد کرایا جائے اور جن پر اختلاف رہے ان پر مزید مذاکرات کئے جائیں لیکن دھرنے والوں سے کہا جائے وہ اس دوران میں ملک بھر کے دھرنوں میں سڑک کا ایک حصہ ٹریفک کے لئے کھول دیں تاکہ جو نظام زندگی جامد ہو چکا ہے وہ چل سکے۔ اس کے جواب میں حکومت ان کے ساتھیوں کو رہا کرے اور ان کے خلاف پرچے خارج کرے۔ تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔ فریقین کو تھوڑا تھوڑا پیچھے ہٹنا ہو گا ۔ یہ نہیں ہو گا کہ ایک فریق کسی بات پر اڑ جائے اور دوسرا زبردستی منوا لے۔ اس کا انجام حکومت نے دیکھ لیا ہے۔یہ سارا عمل زیادہ سے زیادہ تین روز میں مکمل کیا جائے کیونکہ اس سے زیادہ کا یہ ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ تقریبا ً روزانہ خیبرپی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں‘ باقاعدہ اور اہل وزیرخزانہ نہ ہونے کے باعث ملک کے معاشی معاملات دیکھنے والا بھی کوئی نہیں‘ روپے کی قدر گر رہی ہے‘ درآمدی بلوں اور قرضوں کا بوجھ الگ سے بڑھ رہا ہے‘ سرحدوں پر کشیدگی بدستور موجود ہے ‘ایسے میں ساری توانائیاں اور سارا وقت دھرنے سے نمٹنے میں ہی ضائع کر دیا گیا تو ملک کیسے چلے گا‘ پھر تو قومی حکومت کے قیام کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہ جائے گا۔