فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے خبردار کیا ہے کہ اس سال پاکستان اور بھارت میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں اس لئے امریکہ کی طرح ان ممالک میں بھی فیس بک کا ڈیٹا استعمال کر کے مرضی کے نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔بہت سے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے فیس بک ڈیٹا کے ذریعے کوئی سیاسی جماعت الیکشن جیسا بڑا معرکہ جیتنے میں کامیاب ہو جائے۔بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ فیس بک پر فالوورز ہونا اور حلقے کے اصل حمایتی ووٹرز میں بہت فرق ہے۔ یہ درست ہے اور وہ یہ اس لئے کہتے ہیں کہ پرویز مشرف جن کے اکیس لاکھ لائیکس ہیں‘ وہ سمجھتے تھے وہ عوام میں بڑے مقبول ہیں اور جب وہ لاہور ایئرپورٹ پر اتریں گے تو فیس بک کے یہ لاکھوںصارفین ہاتھ میں پھول لئے ان کا استقبال کریں گے لیکن جب وہ پاکستان آئے تو سوائے دس بارہ قریبی لوگوں کے کوئی بھی ایئرپورٹ پر موجود نہ تھا۔ تاہم فیس بک کے فالوورز یا لائیکس زیادہ ہونا اور فیس بک ڈیٹا کو استعمال کر کے فائدہ اٹھانا دومختلف چیزیں ہیں۔ اس وقت جو مسئلہ زیربحث ہے وہ سیاسی جماعتوں کا فیس بک صارفین کے ڈیٹا کو اپنی جیت کیلئے استعمال کرنا ہے۔ فیس بک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں ہر کوئی اپنی رائے کھل کر اور آزادی کے ساتھ دے رہا ہے۔فیس بک کو عوام کی حقیقی آواز بھی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہاں پر کوئی سنسر شپ اور فلٹریشن نہیں اور آپ جب چاہیں موبائل اٹھا کر دل کی بات کہہ سکتے ہیں۔ کسی کی پگڑی اچھالنی ہو یا کسی زیرو کوہیرو بنانا ہو‘فیس بک بہترین جگہ ہے۔ہم فیس بک کو کون کون سی معلومات دیتے ہیں‘اس کی ایک جھلک ملاحظہ کریں۔ جب ہم فیس بک پر اکائونٹ بنا لیتے ہیں تو اس پر مختلف قسم کے کام کرتے ہیں‘مثلاً اپنی تصاویر پوسٹ کرتے ہیں۔ موسم پر تبصرہ کرتے ہیں‘خبروں پر ری ایکشن دیتے ہیں‘ لوگوں کی شیئر کی گئی پوسٹس کو آگے شیئر کرتے ہیں۔اسی طرح جانی انجانی پوسٹس کو لائیک‘ ڈس لائیک کرتے ہیں۔ دوستوں‘ رشتہ داروں‘ سیاسی و نجی شخصیات‘ کھلاڑیوں‘ فلمی ستاروں اور گلوکاروں وغیرہ کے پیجز کو لائیک کرتے ہیں‘ موصول ہونے والی ویڈیوز اور بلاگز پر کمنٹ دیتے ہیں۔جس سیاستدان کو پسند کرتے ہیں اس کے حق میں بات کرتے ہیں‘ جس کو ناپسند کرتے ہیں اس کو گالیاں دیتے ہیں‘ فیس بک پر یہ تک بتاتے ہیں کہ آج ہمارا فلاں جگہ ایکسیڈنٹ ہوا اور ہم فلاں ہسپتال سے پٹی کرا کر آئے ہیں‘ ہم اپنے بچوں کی سالگرہ‘ مہندیوں‘ شادیوں‘ کاروباری تقاریب‘ لنچ‘ ڈنر اور آئوٹنگ کی تمام تصاویر اور تفصیل بھی ساتھ ہی ساتھ شیئر کرتے ہیں‘ ہمارا بچہ پہلے دن سکول جانے لگے‘ وہ پہلے دن اپنے پائوں پر چلنے لگے ہم فوراً اس کی تصاویر اور ویڈیوز فیس بک پر شیئر کر دیتے ہیں‘ سڑک پر کوئی وارڈن بدتمیزی کرے فوراً اس کی ویڈیو فیس بک پر ڈال دیتے ہیں‘ کسی ایک شہر سے دوسرے شہر جائیں تو اپنی لوکیشن فیس بک پر ڈال دیتے ہیں‘ ہم نے مستقبل میں کہاں کہاں سفر کرنا ہے ہم اس کا بھی سارا نقشہ فیس بک پر لگا دیتے ہیں‘ بیمار ہوتے ہیں تو کس ہسپتال جاتے ہیں‘ کس آن لائن سٹور سے خریداری کرتے ہیں‘ کون سا کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہیں اور کیا خریدتے ہیں یہ تمام ڈیٹا بھی کہیں نہ کہیں سٹور ہو رہا ہوتا ہے‘ کہیں دھماکہ ہو ہم فوراً اس پر اپنا ری ایکشن دیتے ہیں‘ ہم صاف صاف لکھتے ہیں کہ اس کا فلاں ملک‘ فلاں جماعت یا فلاں لیڈر ذمہ دار ہے۔ فیس بک پر مختلف اشتہارات بھی چلتے ہیں‘ ہم ان میں سے کس پر کلک کرتے ہیں‘ کس پیج کو زیادہ اور کس کو کم ٹائم دیتے ہیں‘ کسی سیاسی جماعت کے لیڈر کی کوئی مزاحیہ یا طنزیہ پوسٹ ہمارے سامنے آتی ہے تو ہم اسے لائیک کرتے ہیں‘ ڈس لائیک کرتے ہیں اور اس پر کیا کمنٹ کرتے ہیں‘ یہ سب فیس بک کے ڈیٹا لاگ میں محفوظ ہو رہا ہے اور ان سارے ٹرینڈز سے ہماری زندگی کی عادات و اطوار‘ ہماری پسند ناپسند اور ہمارے ارادوں (نیک و بد) کا واضح طور پر پتہ چل رہا ہوتا ہے اور اگر ابھی بھی آپ جاننا چاہتے ہیں کہ فیس بک آپ کے بارے میں کیا کچھ جانتا ہے تو فیس بک کی سیٹنگز میں جائیے‘ اور Adsکو کلک کیجئے‘ ایک پوری زنبیل کھل کر آپ کے سامنے آ جائے گی۔آپ یہاں دیکھ سکیں گے کہ آپ فیس بک پر کون کون سے شعبے میں کتنی دلچسپی لیتے رہے ہیں‘ کس کس موبائل اور کمپیوٹر آپریٹنگ سسٹم سے کب کب لاگن ہوتے رہے ہیں‘ کہاں کہاں سفر کرتے رہے ہیں وغیرہ وغیرہ اور یہی نہیں بلکہ آپ نے آج تک فیس بک پر جو بھی ایکٹی وٹی کی ہو گی وہ ساری کی ساری فیس بک پر ایک فائل کی شکل میں محفوظ ہوجاتی ہے اور آپ اسے ڈائون لوڈ بھی کر سکتے ہیں‘ اس کے لئے آپ فیس بک کی جنرل سیٹنگز میں جائیں آپ کو ایک لنک 'ڈائون لوڈ اے کاپی‘ نظر آئے گا۔ اس کے بعد آپ ڈائون لوڈ آرکائیو پر کلک کریں گے جس کے بعد آپ کو ای میل میں ایک لنک مل جائے گا جس کے ذریعے آپ چند سو ایم بی کی ایک فائل ڈائون لوڈ کر سکیں گے جس میں آپ کی ہر وہ حرکت موجود ہو گی جو آپ نے دانستہ یا غیر دانستہ فیس بک پر کی ہو گی۔ آپ کی ساری تصاویر اور ویڈیوز جو آپ نے اپ لوڈ کی ہوں گی ‘ اسی طرح آپ نے جو کمنٹس اور پیغامات بھیجے اور موصول کئے ہوں گے وہ سارے بھی یہیں مل جائیں گے‘ یعنی آپ کی ذاتی زندگی سے جڑی تمام چیزیں جن سے آپ کے ابا جان ‘امی جان حتیٰ کہ بیوی بھی بے خبر ہو گی‘ آپ کی فیس بک لائف کے ایک ایک پل کا تمام ریکارڈ اس ایک فولڈر میں موجود ہو گا اور یہ وہ فولڈر یا ڈیٹا ہے جس کا ریکارڈ ایف بی آئی تک کے پاس موجود ہے اور تازہ ترین خبر کے مطابق مستقبل میں امریکہ جانے والے خواہشمند افراد کا گزشتہ پانچ سال کا یہ فیس بک ریکارڈ بھی دیکھا جائے گا ‘ اسی طرح مختلف تشہیری کمپنیاں بھاری معاوضے پر آپ کی فیس بک پر کی گئی تمام ایکٹویٹی اور لاگ بھی چوری کرکے فروخت کرتی ہے‘ ایک سافٹ ویئر بنایا جاتا ہے جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ فلاں شہر کے فلاں علاقے میں اس عمر کے اتنے مرد اور خواتین موجود ہیں‘ ان کی یہ تعلیم ہے‘ فلاں سیاستدان‘ فلاں عالم اور فلاں فرقے کو یہ پسند کرتے ہیں‘ ان کا ماضی میں جھکائو کس پارٹی کی طرف تھا اب کس طرف یہ ہے ‘ یہ کون سے کالم نویسوں‘ اینکرز اور ٹاک شوز کو پسند کرتے ہیں‘ یہ سارے ٹرینڈز ایک رپورٹ کی شکل میں بنا کر مختلف '' گاہکوں ‘‘ کو مہنگے داموں بیچ دئیے جاتے ہیںاور یہی وہ حربہ تھا جو بیوقوف نظر آنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آزما کر الیکشن جیتا۔ اس کی بیوقوفانہ حرکتوں کو دیکھ کر لگتا ہی نہ تھا کہ وہ الیکشن جیت جائے گا لیکن اس کی الیکشن مہم ایک خاص انداز میں ترتیب دی گئی اور اس مہم کو فیس بک کے چوری شدہ ڈیٹا اور صارفین کی پسند نا پسند‘ ٹرینڈز اور ان کے فیس بک اکائونٹس سے جوڑ دیا گیا جس کے بعد ان فیس بک صارفین کے ٹرمپ کے بارے میں خیالات پگھلنے اور تبدیل ہونے لگے‘ اس کی مزاحیہ حرکتیں بھی انہیں بھانے لگیں اور انہوں نے یوٹرن لیتے ہوئے آخری وقت میں ٹرمپ کو ووٹ دینے کا فیصلہ کر لیا۔اس مقصد کے لئے 2016کے امریکی انتخابات میں روسی ہیکرز نے فیس بک اور دوسری سوشل میڈیا ویب سائٹس سے 12 کروڑ امریکیوں کاڈیٹا چرایا اور انتخابات سے پہلے انہیں بوگس ویب سائٹس کے ذریعے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے ٹھوس پیغامات بھجوائے گئے ۔ان پیغامات کا اثر یہ ہوا کہ تمام اندازوں کے برعکس رائے عامہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ہو گئی اور وہ انتخابات جیت گئے ۔اس مقصد کیلئے سوشل میڈیاپر خود ساختہ اور من گھڑت خبریں پوسٹ کی گئیں‘جنہوں نے ان ووٹرز کی رائے تبدیل کرنے میں کلیدی کردارادا کیا جو آخری لمحے تک تذبذب کا شکار تھے کہ کس امیدوار کو ووٹ ڈالا جائے ۔ یوں یہ ایجنسیاں امیدوار کے حق یا مخالفت میں رائے عامہ استوار کرنے میں مدد گار ثابت ہوئیں۔ پاکستان میں اس سال انتخابات میں فیس بک کا یہ بڑا فائدہ کون سی جماعت اٹھائے گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تاہم وہ لوگ جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر فیس بک جیسے بڑ ے پلیٹ فارم ہم مفت میں کیسے استعمال کر رہے ہیں تو ان کے لئے کسی سیانے کا اتنا ہی جواب کافی ہے
If You are not paying the product, You are the product.