یہ نومبر 2015ء کی بات ہے۔ ایلیکس نامی بائیس سالہ لڑکی نیویارک کے ایک اپارٹمنٹ میں اپنی والدہ کے ہمراہ مقیم تھی۔ ایک دن معمول کے مطابق وہ اپنے دفتر پہنچی تو اسے پتہ چلا اسے کسی دوسری ریاست میں ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔ ایلیکس کے لئے پریشانی کھڑی ہو گئی۔ وہ اپنی والدہ کو اولڈ ہوم میں چھوڑنا چاہتی تھی نہ ہی اپارٹمنٹ میں تنہا چھوڑ سکتی تھی۔ اس نے مگر عجیب فیصلہ کیا۔ اس نے ایک کاغذ قلم پکڑا‘ استعفیٰ منیجر کی میز پر رکھا اور پرس اٹھا کر باہر نکل آئی۔ آج وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔ اس روز وہ دو تین میوزیمز میں بھی گئی اور خوب آوارہ گردی کی۔ شام کو وہ گھر لوٹی تو اسے عجیب خیال ستانے لگے۔ اس نے سوچا نوکری تو رہی نہیں اب گھر کے اخراجات کیسے چلیں گے۔ اسے ایک خیال سوجھا۔ وہ انٹرنیٹ پر گئی اور ایک ویب سائٹ Fiverr پر اپنا اکائونٹ بنا لیا۔ اس ویب سائٹ کا اسے کسی دوست نے بتایا تھا۔ اس پر گھر سے کام کرکے پیسے کمائے جا سکتے تھے۔ ایلیکس ایک نیوز ایجنسی میں کام کرتی تھی‘ اسے انگریزی کے علاوہ فرانسیسی پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ پریس ریلیز بھی بنا لیتی تھی‘ ترجمہ بھی کر لیتی تھی‘ آرٹیکلز کی ایڈیٹنگ بھی کر لیتی تھی‘ بلاگز بھی لکھ لیتی تھی‘ تبصرہ بھی کر لیتی تھی اور اہم لوگوں کے انٹرویوز بھی کر چکی تھی۔ اس نے فیور ویب سائٹ پر اپنا اکائونٹ بنا کر پانچ ڈالر میں کام کرنے کی ہامی بھر لی۔ اگلی صبح اس نے اکائونٹ چیک کیا تو کسی نیوز ایجنسی نے ایک خبر بھیجی تھی جسے پریس ریلیز کی صورت میں تیار کرنا تھا۔ یہ ایلیکس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ اس نے فوراً وہ کام کر دیا اور یوں پندرہ منٹ میں اس نے پانچ ڈالر کما لئے۔ یہ صرف پانچ ڈالر نہیں تھے بلکہ وہ اعتماد تھا جس کی بنیاد پر ایلیکس نے ایک نئی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ آہستہ آہستہ اسے مزید کام ملنے لگا اور وہ ہفتہ وار سو سے دو سو ڈالر کمانے لگی۔ ایلیکس نے انگریزی سے فرانسیسی میں ترجمے سمیت پانچ ڈالر کی نو مزید سروسز کے لئے اپلائی کر دیا جن میں اسے مہارت تھی۔ حیرانی کی انتہا نہ رہی جب چند ہی گھنٹوں بعد کچھ لوگوں اور کمپنیوں نے اسے کام کی آفر کر دی جس میں دو کتابوں کا انگریزی سے فرانسیسی میں ترجمہ بھی شامل تھا۔ یوں ایک ہفتے کے اندر اندر ایلیکس نے ایک ہزار ڈالر کما لئے۔ جب اسے ایک ہزار ڈالر کی یہ رقم موصول ہوئی تو وہ جذبات کی رو میں بہہ کر رونے لگی۔ اسے وہ دن یاد آ گئے جب اسے دوسری ریاست میں ٹرانسفر کیا جا رہا تھا اور وہ اپنے مستقبل اور ماں کے بارے میں پریشان تھی۔ اب وہ سنجیدگی کے ساتھ مکمل طور پر فری لانس کام کرنے کو تیار ہو چکی تھی۔ اس نے اپنی فیس پانچ ڈالر کیٹیگری سے بڑھا کر پندرہ ڈالر فی گھنٹہ کر دی۔ اس نے اپنا لائف سٹائل بھی تبدیل کر لیا۔ گھر کے ایک کونے کو دفتر میں تبدیل کر دیا جہاں وہ اپنی مرضی کے اوقات میں آٹھ سے دس گھنٹے روزانہ کام کرتی۔ والدہ کو بھی وقت دیتی اور ہفتہ اتوار بھرپور چھٹی مناتی۔ اس طرح ایک سال میں وہ صرف ایک ویب سائٹ کے ذریعے کام کر کے 33 ہزار ڈالر کما چکی تھی۔ اس کے بعد اس نے upwork اور اس جیسی دو تین مزید ویب سائٹس پر اکائونٹس بنا لئے اور وہاں سے بھی اسے کام ملنے لگا۔ دوسرے سال میں اس کے پاس کام بھی بہت آیا اور اس نے اپنے کام کی فیس بھی بڑھا دی جس سے آن لائن فری لانس کام کرکے اس نے 48 سو آرڈر مکمل کرکے ڈیڑھ لاکھ ڈالر کما لئے۔ یہ اس سے آٹھ گنا زیادہ رقم تھی جو وہ نوکری کرکے کماتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کا کام اتنا بڑھ گیا کہ اسے ایک اور کمرہ کرائے پر لینا پڑا جہاں اس نے چار لوگوں کو ملازمت دی اور ان کے ساتھ مل کر آن لائن فری لانسنگ کی چھوٹی سی کمپنی بنا لی اور یوں وہی ایلیکس جو دو سال قبل گھر یلو اخراجات اور ماں کی دیکھ بھال کے لئے پریشان تھی‘ اب مالی طور پر خوشحال ہو چکی تھی۔
یہ صرف امریکہ کی نہیں بلکہ پوری دنیا کے ممالک میں روزانہ ایسی ہی حقیقی کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں۔ اس کی وجہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے جو تیزی سے لوگوں کا لائف سٹائل ہی نہیں بلکہ پیسہ کمانے کا انداز بھی بدل رہی ہے۔ ایک امریکی رپورٹ کے مطابق صرف امریکہ میں 2028ء تک فری لانس کام کرنے والوں کی تعداد روایتی آفس جاب کرنے والوں کے مقابلے میں بڑھ کر چوراسی فیصد تک پہنچ جائے گی یعنی صرف سولہ فیصد لوگ ایسے رہ جائیں گے جو دفاتر میں جا کر کام کریں گے۔ آپ امریکہ کو ایک طرف رکھیں‘ میں آپ کو پاکستان کی مثال دیتا ہوں۔ پنجاب کے ایک پسماندہ قصبے میں ایک لڑکا کسی کالج کی لیب میں پندرہ ہزار روپے میں نیٹ ورک ایڈمنسٹریٹر تھا۔ اس کی تعلیم تو صرف ایف اے تھی لیکن وہ نیٹ ورکنگ اور کمپیوٹر گرافکس کا بھی ماہر تھا۔ اس نے upwork اور اس جیسی دوسری ویب سائٹس پر اکائونٹ بنایا اور پانچ ڈالر فی گھنٹہ کے لئے اپلائی کر دیا۔ چند دن بعد اسے ایک کمپنی نے قدرتی مناظر پر مبنی دس خوبصورت وال پیپر بنانے کا کہا۔ اس نے یہ کام کر دیا اور یوں اس کی کمائی کا آغاز ہو گیا۔ اس کا کام انتہائی معیاری تھا جس کی وجہ سے اسے آرڈر بھی تیزی سے ملنے لگے۔ اس وقت وہ لڑکا نہ صرف لیب کی وہ نوکری چھوڑی چکا ہے بلکہ اس نے جگہ لے کر نو مزید لڑکے اپنے ملازم رکھے ہیں جو آن لائن فری لانس کام کرکے ہزاروں ڈالر ماہانہ کما رہے ہیں۔ پنجاب میں جو ای روزگار پروگرام شروع ہوا اس کی وجہ بھی یہی لڑکا بنا۔ اس کی کہانی جب سرکاری آئی ٹی آفیشلز تک پہنچی تو انہوں نے پنجاب میں وسیع پیمانے پر بے روزگار نوجوانوں کو ای روزگار ٹریننگ دینے کا فیصلہ کیا۔ پنجاب کے تئیس اضلاع میں ای روزگار سنٹرز قائم کئے گئے جہاں سے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بیروزگار نوجوان مرد و خواتین تربیت لے کر چند ماہ میں کل ایک لاکھ بارہ ہزار ڈالر کما چکے ہیں۔ فری لانسنگ کا آن لائن کاروبار بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کی کوئی سرحد نہیں اور نہ ہی آن لائن فری لانس کام کی کمی ہے۔ آپ ان میں سے کسی بھی فری لانس ویب سائٹ پر جائیں تو آپ کو ہزاروں آفرز نظر آئیں گی۔ کہیں کسی کو مختلف زبانوں میں ٹرانسلیشن کا کام درکار ہے‘ کہیں بلاگ رائٹنگ‘ بلاگز ایڈیٹنگ‘ سٹوری رائٹنگ‘ گرافکس ڈیزائننگ‘ پروف ریڈنگ‘سافٹ ویئر ڈیزائننگ‘ میڈیکل ٹرانسکرپشن‘ آڈیو سے تحریری شکل میں لانے کا کام غرضیکہ ہزاروں طرح کے کام آپ کے منتظر ہیں۔
ہمارے نوجوان اس ملک کی آبادی کا ساٹھ فیصد سے زائد ہیں۔ اس وقت الیکشن کی گہما گہمی ہے۔ بدقسمتی سے ان کی اکثریت حکومتوں کی جانب سے کسی معجزے اور نوکریوں کے پرمٹ کے انتظار میں بیٹھی ہے۔ انہیں اپنی قابلیت اور مہارتوں کا اندازہ ہی نہیں۔ پاکستان میں نوجوانوں کی اوسط عمر تئیس برس ہے‘ جبکہ امریکہ میں یہی عمر اڑتیس اور جاپان میں بیالیس سال ہے۔ نوجوانوں میں کام کا جذبہ اور توانائی زیادہ ہوتی ہے اور وہ نئے اچھوتے خیالات سامنے لاتے ہیں اس لئے ہر ملک میں نوجوانوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے نوجوان صرف ایم اے کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ دنیا بدل رہی ہے۔ روزگار کے مواقع اور تعلیم کے انداز بھی بدل رہے ہیں۔ ہمیں بھی ان کے ساتھ خود کو بدلنا ہے۔ جو نوجوان براہ راست آن لائن عالمی ویب سائٹس سے استفادہ کر سکتے وہ ای روزگار جیسے منصوبوں سے تربیت حاصل کرکے آمدنی کے نئے در کھول سکتے ہیں۔ اب وہ زمانے گئے جب سولہ جماعتیں اور محض کسی ایک نوکری پر ساری زندگی گزارا ہو جاتا تھا اور بعد میں پنشنیں لگ جاتی تھیں۔ اب جو خود کو زمانے کے ساتھ اپ ڈیٹ نہیں کرتا وہ زندگی تو کیا چار مہینے نہیں گزار سکتا کیونکہ روایتی نوکریاں ساری دنیا میں آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہیں اور وقت کے ساتھ جو نہیں چلے گا‘ اسے مشکلات کا سامنا کرنا کے لئے تیار رہنا چاہیے۔