فری لانسنگ پر گزشتہ کالموں کے ردعمل میں مجھے سینکڑوں کی تعداد میں ای میلز موصول ہوئیں‘ جن میں کہا گیا: ہم بھی فری لانسنگ کرنا چاہتے ہیں‘ ہماری رہنمائی کریں۔ ان میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو پہلے سے جاب کر رہے ہیں لیکن محدود آمدنی‘ دفاتر کی پابندیوں اور کام کے دبائو کے مسائل سے دوچار ہیں جبکہ فری لانسنگ میں آپ اپنی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں‘ آپ کے سماجی تعلقات بھی متاثر نہیں ہوتے‘ آمدنی بڑھنے سے صحت اور لائف سٹائل بھی بہتر ہو جاتا ہے اور کام زیادہ ملنے پر آپ دیگر لوگوں کو بھی روزگار دے سکتے ہیں۔ اس بارے میں مزید جاننے سے قبل فری لانسنگ کے بارے میں چند حیران کن حقائق جان لیجئے جن سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ فری لانسنگ دنیا بھر میں کس قدر تیزی سے مقبول ہو رہی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔
فی الوقت امریکہ میں کل ورک فورس کا 36 فیصد یعنی پانچ کروڑ تیس لاکھ افراد فری لانسنگ کر رہے ہیں اور یوں امریکی معیشت میں سالانہ ایک اعشاریہ چار کھرب ڈالر زرمبادلہ کا اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ 2016ء کے مقابلے میں اسی مد میں کمائی جانے والی تیس فیصد زیادہ رقم ہے‘ جبکہ امریکہ میں فری لانسرز کی تعداد 2020ء تک 43 فیصد اور 2028 تک 84 فیصد ہونے کا امکان ہے۔ فری لانسنگ میں سینئر سافٹ ویئر ڈویلپر ایک گھنٹے کے ایک ہزار ڈالر یا ایک لاکھ روپے تک بھی کما رہے ہیں۔ اٹھاسی فیصد فری لانسرز کے مطابق فری لانسنگ روایتی نو سے پانچ بجے کی نوکری سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔61 فیصد فری لانسرز دو سے تین شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ خواتین فری لانسرز 25 ہزار ڈالر جبکہ مرد ڈیڑھ لاکھ ڈالر سالانہ کما رہے ہیں۔ 2016ء میں صرف فری لانسر ڈاٹ کام پر تین ارب ڈالر کی دس کروڑ سے زائد جابز پوسٹ کی گئیں۔ ایک سٹڈی کے مطابق گھر سے کام کرنے والے افراد کی کارکردگی میں تیرہ فیصد بہتری آئی جبکہ کمپنیوں کو اپنے سٹاف کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دینے سے اوسطاً دو ہزار ڈالر سالانہ کا فائدہ ہوا۔ فری لانس سے کاپی رائٹر اڑھائی سو ڈالر فی گھنٹہ تک کما رہے ہیں۔ جونیئر سافٹ ویئر ڈویلپر فری لانسنگ سے اوسطاً ایک لاکھ انیس ہزار ڈالر سالانہ جبکہ سینئر ڈیڑھ لاکھ ڈالر کما رہے ہیں۔ فری لانس گرافک ڈیزائنر اپ ورک اور پیپل پر آور جیسی ویب سائٹس سے 85 ڈالر فی گھنٹہ سے زائد کما لیتے ہیں۔ پے یونیر Payoneer ویب سائٹ فری لانسرز کو پیسے پاکستان سمیت دیگر ممالک کے بینکوں کے اکائونٹس میں منتقل کرتی ہے۔ اس نے حال ہی میں 170 ممالک کے 21 ہزار فری لانسرز کا سروے کیا‘ جس کے مطابق امریکہ میں ایک تہائی افراد فری لانسنگ کر رہے ہیں۔ صرف بھارت میں 15 لاکھ افراد اس سے وابستہ ہو چکے ہیں‘ جو آئندہ برس تک ایک کروڑ ہو جائیں گے۔ سروے کے مطابق فری لانسرز اوسطاً 19 ڈالر فی گھنٹہ کما رہے ہیں۔ یہ دو ہزار روپے فی گھنٹہ اور آٹھ گھنٹے کے حساب سے سولہ ہزار روزانہ بنتے ہیں۔ اگر یہ ہفتے کے پانچ دن کام کریں تو مہینے کے تین لاکھ روپے سے زائد بنتے ہیں۔ یہ تنخواہ دنیا کے اسی فیصد ممالک میں روایتی نوکریوں سے ملنے والی تنخواہ سے چھ گنا زائد ہے۔ پچاس فیصد فری لانسرز تیس برس سے کم عمر کے ہیں۔ سروے کے مطابق تعلیم یافتہ افراد زیادہ کما رہے ہیں۔ اکیس ہزار میں سے آدھے فری لانسرز روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق بھارت اور بنگلہ دیش دنیا کی تیزی سے پھیلتی فری لانسنگ معیشتیں ہیں۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ 35 فیصد فری لانسرز یورپ میں ہیں۔ دوسرے نمبر پر ایشیا 28 فیصد اور امریکہ 25 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ 77 فیصد مرد فری لانسرز جبکہ 23 فیصد خواتین فری لانسرز ہیں۔ 33 فیصد فری لانسرز کی عمریں تیس سے انتالیس برس کے درمیان ہیں۔ دس فیصد کی عمریں چالیس سے انچاس جبکہ چھ فیصد کی عمریں پچاس سے ستر برس کے درمیان ہیں۔ پچاس فیصد کی عمریں تیس برس سے کم ہیں۔ 25 فیصد فری لانسر ماسٹرز یا پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں‘ 54 فیصد بیچلرز جبکہ 20 فیصد کالج یا سکول کی عمر کے فری لانسرز ہیں۔ انٹرنیٹ پر فری لانس کے لئے کام جن ممالک سے زیادہ دیا جاتا ہے‘ ان میں شمالی امریکہ 68 فیصد‘ یورپ 51 فیصد‘ لاطینی امریکہ 21 فیصد‘ ایشیا 18 فیصد‘ آسٹریلیا 15 فیصد‘ مڈل ایسٹ 9 فیصد جبکہ افریقہ سے 7 فیصدکام دیا جاتا ہے۔ 57 فیصد فری لانسرز پندرہ ڈالر فی گھنٹہ یا اس سے کم لے رہے ہیں‘ جبکہ 14 فیصد تیس ڈالر فی گھنٹہ یا زیادہ چارج کرتے ہیں۔ فری لانسنگ میں آمدنی شعبوں کی مانگ کے حساب سے ہے۔ مثلاً آئی ٹی اور پروگرامنگ میں اوسط آمدن فی گھنٹہ 21 ڈالر ہے‘ جبکہ آئی ٹی سپورٹ 18 ڈالر‘ موبائل پروگرامنگ 22 ڈالر‘ ویب پروگرامنگ 21 ڈالر‘ ڈیٹا بیس پروگرامنگ 21 ڈالر‘ گیم پروگرامنگ 24 ڈالر اور ڈویلپر 23 ڈالر فی گھنٹہ لے رہے ہیں۔ اسی طرح ڈیزائن اینڈ ملٹی میڈیا میں اوسط آمدن 20 ڈالر فی گھنٹہ ہے‘ جس میں گرافک ڈیزائن کی 17 ڈالر‘ ویب ڈیزائن 21 ڈالر اور ملٹی میڈیا پروڈکشن کی 23 ڈالر ہے۔ ترجمہ‘ تحقیق کرنے اور لکھنے کی صلاحیت رکھنے والے بھی خوب کما رہے ہیں۔ ان کی اوسط فی گھنٹہ آمدن 16 ڈالر ہے۔ سیلز اور مارکیٹنگ میں اوسط آمدن 18 ڈالر فی گھنٹہ ہے‘ جس میں سوشل میڈیا کی 16 ڈالر‘ ایس ای او کی 19 ڈالر اور سیلز کی 18 ڈالر فی گھنٹہ ہے۔ فنانس اور مینجمنٹ میں اوسط آمدن 19 ڈالر فی گھنٹہ ہے۔ لیگل کنسلٹنٹ 28 ڈالر فی گھنٹہ کما رہے ہیں‘ جبکہ ایڈمنسٹریٹو اور کسٹمر سپورٹ میں گیارہ ڈالر فی گھنٹہ حاصل ہوتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ زیادہ عمر اور تجربہ کار لوگ زیادہ کما رہے ہیں۔ چالیس برس کی عمر تک کے افراد 20 ڈالر فی گھنٹہ جبکہ چالیس سے اوپر کے لوگ 27 ڈالر فی گھنٹہ تک کما رہے ہیں۔ 73 فیصد فری لانسرز آن لائن ویب سائٹس پر براہ راست کام کر رہے ہیں۔ 33 فیصد ایک دوسرے سے سن کر جبکہ بقایا سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے فری لانسنگ کا کام حاصل کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں 54 فیصد فیس بک کے ذریعے‘ چالیس فیصد لنکڈ اِن‘ اکیس فیصد گوگل پلس‘ 19 فیصد ٹویٹر‘ اٹھارہ فیصد انسٹاگرام اور 15 فیصد یوٹیوب کے ذریعے فری لانسنگ کے کام سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔
اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو اوسطاً ایک فری لانسر اس وقت چار ڈالر فی گھنٹہ کما رہا ہے۔ کچھ لوگ سو ڈالر یا اس سے زیادہ بھی کما رہے ہیں۔ پاکستان میں سب سے پہلے سرکاری سطح پر لوگوں کو آن لائن کام کرکے کمانے کی تربیت پنجاب آئی ٹی بورڈ کے ای روزگار پروگرام کے تحت دی گئی۔ اوسطاً ایک فری لانسر مہینے کا نو سو ڈالر کما رہا ہے‘ جبکہ ہزاروں فری لانسرز ایسے ہیں جو گرافک ڈیزائننگ یا پروگرامنگ وغیرہ کی تربیت لینے کے بعد خود سے آن لائن کام کر رہے ہیں‘ اور بآسانی دو سے تین لاکھ روپے ماہانہ کما رہے ہیں۔ وفاقی سطح پر فری لانسنگ کی تربیت کا ایک پروگرام Digiskillsیکم فروری 2018ء کو شروع ہوا تھا۔ یہ پروگرام پی آئی ٹی بی کے ای روزگار پروگرام کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے شروع کیا گیا۔ ای روزگار پروگرام کے تحت پنجاب کے 23 شہروں میں موجود سنٹرز میں تربیت دی جاتی ہے جبکہ ڈیجی سکلز میں تربیت صرف آن لائن دی جاتی ہے۔ آپ ویب سائٹ سے رجسٹرڈ ہو کر گھر بیٹھے ایک وقت میں دس میں سے دو کورس لے سکتے ہیں۔ یہ پروگرام وسیع پیمانے پر نئے سرے سے شروع ہونا چاہیے کیونکہ ابھی تک کسی کو اس کا پتہ ہی نہیں چلا جبکہ ہر سال بیروزگار افراد کی تعداد میں پندرہ بیس لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں نوجوانوں کو بڑی تعداد میں روزگار دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس جماعت کو ووٹ اور سپورٹ بھی نوجوانوں سے ہی زیادہ حاصل ہوئی ہے۔ فری لانسنگ ایسا شعبہ ہے جو حدود و قیود سے آزاد ہے۔ ضرورت صرف نوجوانوں کو سکھانے‘ ان کے سکلز کو پالش کرنے اور تھوڑی سی رہنمائی کرنے کی ہے۔ اس منصوبے میں حکومت کا پیسہ برائے نام لگے گا جبکہ نتائج لاکھوں نوکریوں اور اربوں ڈالر کے زرمبادلہ کی صورت میں نکلیں گے۔ دیکھنا یہ ہے متوقع وزیراعظم عمران خان اس بارے میں کیا قدم اٹھاتے ہیں۔