ذوالفقار احمد چیمہ پاکستان کا بڑا نام ہیں۔ وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ جس محکمے میں بھی گئے اسے نہ صرف فعال کیا‘ بلکہ ترقی کی بلندیوں پر لے گئے۔ وہ محکمہ پولیس میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے۔ بطور آئی جی موٹرویز موٹر وے پولیس کا نظام جدید تربنایا۔ بہترین مصنف اور لکھاری ہیںاور آج کل نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن کے سربراہ ہیں۔ کمیشن کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں واقع ہے اور قیام کا مقصد عوام کو ہنر مند بنانا اور روزگار کے مواقع مہیا کرنا ہے۔ ذوالفقار چیمہ اس مقصد میں بھی خاصے کامیاب رہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا پینسٹھ فیصد نوجوان ہیں۔ ان بارہ کروڑ نوجوانوںمیں سے اسی فیصد بیروزگار ہیں۔ ان اسی فیصد بیروزگاروں میں سے پچاس فیصد ماسٹرز ڈگری ہولڈرز‘ جبکہ بقایا میٹرک سے بھی نیچے ہیں۔ ذوالفقار چیمہ کا ہدف یہی وہ نوجوان ہیں ‘جنہیں کم تعلیم کے باعث معقول نوکری نہیں ملتی اور یہی نوجوان پھر بے راہ روی اور جرائم کی دنیا سے اپنا رشتہ جوڑ لیتے ہیں۔ نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن مختلف کورسز آفر کرواتا ہے‘ جن میں ویلڈنگ سے لے کر کمپیوٹر گرافکس تک شامل ہیں اور جن کی تکمیل کے بعد کوئی بھی شخص نوکری یا اپنا کام شروع کر سکتا ہے۔چھ ماہ کے تربیتی کورس کے دوران نوجوانوں کو وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ یہ کمیشن اڑھائی لاکھ افراد یا خاندانوں کو تربیت دے چکا ہے۔ذوالفقار چیمہ پاکستان کو سنگاپور کی طرز پر آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ ایک کروڑ آبادی والے سنگاپور کی سالانہ ایکسپورٹ 570ارب ڈالر‘ جبکہ پاکستان کی بمشکل بیس ارب ڈالر ہیں۔ اس کی بڑی وجہ وہاں کی ہنرمند لیبر ہے جو اپنے ہاتھ سے کام کو عار نہیں سمجھتی‘ جبکہ ہمارے آج بھی ایسے لوگوں کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔ سنگا پور ہی نہیں ‘بلکہ ملائشیا ‘ فلپائن‘ جرمنی‘ ترکی وغیرہ میں بھی لوگ بیروزگاری پر حکومتوں کو کوستے نہیں‘ بلکہ ہنر حاصل کر کے معیشت کا فوری حصہ بن جاتے ہیں۔
گزشتہ روز مجھے ذوالفقار چیمہ صاحب کا فون آیا۔ وہ میرے فری لانسنگ پر لکھے گئے چند کالمزپر مجھ سے بات کرنا چاہتے تھے۔ جب ان کے پی اے نے مجھ سے ای میل میں میرا نمبر مانگا ‘تو میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ مجھے ا ن کے فون کرنے کا مقصد اسی وقت معلوم ہو گیا۔ چیمہ صاحب نے مجھ سے ان کورسز کے بارے میں دریافت کیا‘ جن کو سیکھ کر نوجوان فری لانسنگ کر کے پیسہ کما سکتے ہیں۔ میں نے چیمہ صاحب کو ان کی طلب کردہ تفصیلات بھیج دیں اور انہیں تجویز دی کہ وہ فری لانسنگ کو اپنے نیٹ ورک کا حصہ بنائیں ‘کیونکہ اس میں آپ بیرونی دنیا کے لئے کام کرتے ہیں اور اربوں ڈالر کا زرمبادلہ لا سکتے ہیں۔ اس کمیشن کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ مختلف تعلیمی اور کاروباری اداروں کے ساتھ اٹیچ ہیں اور ہر صوبے اور ہر ضلعے میں نوجوان تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ کئی عالمی ادارے بھی نیوٹیک کی معاونت کر رہے ہیں‘ تاہم یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ فری لانسنگ کے کورسز کرنا کافی نہیں‘ زیادہ اہم ان ویب سائٹس سے کام حاصل کرنے کا فن ہے‘ جو ہر کسی کو نہیں آتا اور جس کے لئے ایک خاص تربیت درکار ہوتی ہے۔ بہت سے نوجوان ایسے ہیں ‘جنہیں فوٹو شاپ ‘پروگرامنگ یا ٹرانسلیشن کرنا آتی ہے اور وہ فائیور یا فری لانسر ویب سائٹس پر اکائونٹ بھی بنا لیتے ہیں‘ لیکن انہیں کام ہی نہیں ملتا۔ کیوں؟ کیونکہ وہ اس فن سے نا آشنا ہوتے ہیں‘ جس کے ذریعے کلائنٹ کو اپنے جال میں لانا ہوتا ہے۔ فائیور یا کسی اور فری لانس ویب سائٹ پر اکائونٹ بنانا انتہائی آسان ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ جی میل کے لئے نیا اکائونٹ پانچ منٹ میں بنا لیتے ہیں ۔ زیادہ تر نوجوان فری لانسنگ سے متعلق غیرمعمولی آمدنی کی ہوشربا حقیقی داستانیں سن کر یہ سمجھتے ہیں کہ فائیور پر اکائونٹ بنانا ہی شاید کافی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی شاپنگ سنٹر میں کوئی دکان کھول لیں‘ لیکن نہ ہی آپ کی دکان کا کوئی ڈھنگ کا نام ہو‘ نہ ہی باہر کوئی بورڈ لگا ہو‘ آپ نے دکان کی بناوٹ اور سجاوٹ پر بھی کوئی توجہ نہ دی ہو‘ آپ غیر اہم چیزیں شو کیس میں سجا کر بیٹھے ہوں‘ جبکہ زیادہ فروخت ہونے والی پر کشش اشیا نظروں سے اوجھل ہوں‘ آپ کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کسٹمرز سے بات کیسے کرنی ہے‘ آپ اشیا کی قیمتوں کو بار کوڈ سکینر سے سکین کرنے کی بجائے سادہ کاغذ پر لکھ کر کچی رسیدیں بنا رہے ہوں‘ آپ کے پاس اچھے سیلز مین نہ ہوں‘ دکان میں موزوں روشنی نہ ہو‘ گاہک کے بیٹھنے کا انتظام نہ ہو تو آپ خود سوچیں ایسی دکان میں کون آئے گا اور کیوں خریداری کرے گا۔ انٹرنیٹ پر کام کرنے اور عام زمینی کاروبار میں چند باتیں مشترک ہیں‘ وہ آپ نے ہر حال میں پوری کرنی ہیں۔ فائیور پر اکائونٹ بنا لینا کافی ہوتا ‘تو آج لاکھوں لوگ ارب پتی ہو چکے ہوتے۔ ہزاروں نوجوان ایسے ہیں جو روزانہ سو دو سو ڈالر کما رہے ہیں‘ لیکن ہم یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کن لوازمات کو پورا کر رہے ہیں۔ بہت سے غیر معمولی ذہین نوجوان ایسے ہیں جو بغیر کسی تربیت کے صرف یوٹیوب اور انٹرنیٹ کے بلاگز وغیرہ پڑھ کر کامیابی سے فری لانسنگ کر رہے ہیں‘ لیکن ہر کوئی غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل نہیں ہوتا؛ چنانچہ ایسے افراد کے لئے گزشتہ دور میں پنجاب میں فری لانسنگ یا انٹرنیٹ پر کام کر کے پیسہ کمانے کے لئے صوبائی سطح پر ای روزگار تربیتی پروگرام شروع کیا گیا۔ فی الوقت یہ پروگرام پنجاب کے 23 اضلاع میں مختلف سنٹرز میں چل رہا ہے ۔ لاہور میں ایسے چار سنٹرز ہیں‘ اسی طرح دیگر شہروں میں مختلف کالجز اور یونیورسٹیز میں یہ سنٹرز قائم ہیں ‘جہاں فری لانسنگ کی ساڑھے تین ماہ مفت تربیت دی جاتی ہے۔ کامیاب ماہر فری لانسرز کے لیکچرز‘ تربیتی ورکشاپس اور سوال و جواب کے سیشنز رکھے جاتے ہیں‘ جن سے نوجوانوں کو اس فن سے آگاہی میں مدد ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ای روزگار میں تربیت لینے والے نوجوان دوران تربیت ہی پیسہ کمانے لگتے ہیں۔ کئی مثالیں ایسی ہیں کہ بہت سے لڑکے لڑکیوں نے تین ماہ کے دوران دس لاکھ سے بھی زائد رقم کمائی‘ جبکہ بعض پاکستانی فری لانسر تو سالانہ دس کروڑ بھی کما رہے ہیں۔ گزشتہ سال شروع ہونے والے اس پروگرام میں اب تک ساڑھے تین ہزار بیروزگار مرد و خواتین چار کروڑ سے زائد آمدن حاصل کر چکے ہیں‘تاہم یہ تعداد مزید بڑھنی چاہیے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ یہ پروگرام میگا پراجیکٹ کے طور پر شروع ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں نیشنل ووکیشنل ٹریننگ کمیشن اور پنجاب آئی ٹی بورڈ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پی آئی ٹی بی کامیابی کے ساتھ یہ پروگرام چلا رہا ہے‘ جبکہ نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن کے پاس ملک بھر میں تربیتی سنٹرز کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے؛ چنانچہ یہ دونوں اگر ہاتھ ملا لیں‘ تو سالانہ ہزاروں کی بجائے لاکھوں افراد فری لانسنگ کی طرف آ سکتے ہیں ۔ ای روزگار پروگرام میں ایک نوجوان مہینے میں تیس سے اسی ہزار کما رہا ہے‘ جبکہ یومیہ اوسط کمائی تیس ڈالر ہے‘ اگر ایک سال میں دس لاکھ افراد تربیت حاصل کر لیں اور تیس ڈالر روزانہ کمائیں تو یہ دس ارب ڈالر بنتے ہیں ‘جو ہماری کل برآمدات کا پچاس فیصد ہیں۔اس طرح پی ٹی آئی حکومت کو نوکریوں کا ہدف بھی پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ متوقع وزیراعظم عمران خان نے ابتدائی اقدامات میں معاشی بہتری اور روزگار کے مواقعوں کا ذکر کیا ہے‘ اگر وہ فری لانسنگ کو گھر گھر پھیلانے میں کامیاب ہو گئے تو ان کے یہ دونوں اہداف پورے ہو جائیں گے‘روزگار کے لاکھوں مواقع بھی حاصل ہو جائیں گے اور ان سے حاصل ہونے والے اربوں ڈالرز سے ملک کی معاشی حالت بھی بہتر ہو جائے گی؛ چنانچہ میری نظر میں ان دو بڑے مقاصد کے حصول کیلئے عمران خان کی نظر میں جو دو اہم ترین افراد ہیں‘ وہ نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ذوالفقار احمد چیمہ اور چیئرمین پی آئی ٹی بی ڈاکٹر عمر سیف ہیں‘ عمران خان اگر انہیں اوپننگ کے لئے لے آئیں تو ان دو قابل شخصیات کی مدد سے اپنی حکومتی اننگ کا آغاز انتہائی جاندار اور تیز ترین انداز سے کر سکتے ہیں۔