جو لوگ ڈیم کے لئے پیسہ جمع کرنے کی مہم کا مذاق اڑا رہے ہیں ان کے گھر کا اگر پانی بند کر دیا جائے تو چند گھنٹوں کے اندر اندر ان کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔
ایسے لوگ نہ جانے کس دنیا میں رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں عوامی مفاد کے بڑے منصوبے اسی طرح مکمل ہوتے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں جو قرضوں اور دہشت گردی کا شکار ہوں اور اگر یہاں اس انداز میں بھی یہ مسئلے حل ہو جائیں تو غنیمت سمجھیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ دنیا میں سب سے زیادہ چندہ دینے والا ملک امریکہ ہے۔ سال 2017ء میں امریکی شہریوں نے 390 بلین ڈالر چیریٹی کی مد میں دئیے اور یہ رقم تعلیم‘ عوامی خدمات‘ صحت‘ فلاحِ معاشرہ‘ آرٹ‘ کلچر اور ماحولیات کے لئے دی گئی۔ اس رقم سے صرف غریب ممالک ہی نہیں بلکہ خود امریکہ میں بھی ایسے درجنوں مسائل حل کئے جاتے ہیں جن کے لئے وہاں ہزاروں تنظیمیں بنی ہوئی ہیں اور سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر لوگ چیریٹی سے ان مسائل کے حل کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکہ کی کئی جدید ریاستیں ایسی ہیں جہاں لاکھوں افراد کے پاس چھت نہیں۔ یہ لوگ سڑک کنارے کھلے آسمان تلے سوتے ہیں۔ صبح اٹھ کر بھوک کے لئے کچرے دانوں میں جھانکتے ہیں اور سر درد کی گولی کے لئے بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ جیسی سپر پاور ریاست اتنی کمزور ہے کہ وہ چند لاکھ لوگوں کو گھر نہیں دے سکتی اور اسے بھی چندوں اور خیرات سے ہی ایسے مسائل حل کرنا پڑتے ہیں اور اگر امریکہ جیسا ملک چھوٹے چھوٹے مسائل اپنے بجٹ سے حل نہیں کر سکتا اور اس نے اس مقصد کے لئے قانونی طور پر چیریٹی تنظیموں کو یہ اجازت دے رکھی ہے کہ وہ پیسہ جمع کر کے ان مسائل کے حل کے لئے ہاتھ بٹائیں تو پھر پاکستان جیسا ترقی پذیر اور دہشت گردی کا شکار ملک کیسے اپنے بجٹ کے اندر رہ کر ساڑھے چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والا ڈیم بنا سکتا ہے۔ یہ تو سر سے پائوں تک پہلے ہی قرضوں میں دھنسا ہوا ہے۔ اگر عمران خان کی حکومت بڑے ممالک سے قرضے مانگتی تو اس پر یہ تنقید ہوتی کہ وہ ڈیم بنانے کے لئے غیروں کے آگے ہاتھ پھیلا رہی ہے اور اب جبکہ اپنے لوگوں کو اس کار خیر میں حصہ ڈالنے کا کہا گیا ہے تب بھی کئی لوگوں کو خارش پڑ گئی ہے اور وہ تنقید کر رہے ہیں کہ یہ قومی منصوبہ چندوں سے کیونکر مکمل کیا جائے گا۔ ایسے لوگ 'آٹا گوندھتی ہو تو ہلتی کیوں ہو‘ کے مصداق کسی بھی طرح مطمئن نہیں ہوتے اور ہر اقدام میں سے کیڑے نکالنے کو تیار رہتے ہیں۔ یہ لو گ پانی کی قدر جانتے ہیں نہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوامی اہمیت کے ہنگامی منصوبے کیسے مکمل کئے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے عوام سے ڈیم کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالنے کی جو اپیل کی ہے‘ وہ انہوں نے اپنے لئے یا اپنی سیاسی جماعت کے لئے نہیں کی بلکہ ہمارے مستقبل اور نسلوں کی بقا کے لئے کی ہے اور ہم ہیں کہ بے پر کی اڑانے میں لگے ہیں۔
ڈیم بنانے کے لئے چودہ کھرب یا چودہ ہزار ارب روپے کی ضرورت ہے۔ بظاہر یہ بہت بڑی رقم ہے لیکن جب حوصلے بلند ہوں تو کچھ بھی ناممکن نہیں رہتا۔ یہ دو عشروں کی بات ہے جب عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال شروع کیا تو کیا انہیں ایسی ہی باتیں نہیں کی گئیں؟ بہت سے لوگوں نے انہیں کہا کہ اگر ایک مرتبہ عمارت کھڑی ہو بھی گئی‘ اس میں مشینری آ بھی گئی تو اسے چلانے کے لئے سالانہ اربوں روپے کہاں سے آئیں گے؟ اوپر سے مفت علاج کی سہولت کے ساتھ کیسے یہ سب ممکن ہو گا۔ عمران خان نے اُس وقت ان کی یہ باتیں سن کر ہار مان لی ہوتی تو آج نہ شوکت خانم ہوتا اور نہ ہی ہزاروں غریب لوگ کینسر کا مفت علاج اپنے ہی ملک میں کرا رہے ہوتے۔ عمران خان اگر وزیر اعظم بنے ہیں تو انہی مریضوں کی دعائوں سے بنے ہیں۔ وگرنہ جتنی سیاسی غلطیاں انہوں نے کیں ان کی جماعت آج بھی ایک سے زیادہ سیٹ نہ جیت سکتی۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ آج لاہور کے بعد پشاور اور کراچی کا بھی شوکت خانم کینسر ہسپتال زیر تعمیر ہے۔ یہ سلسلہ پھیل رہا ہے۔ یہ لوگوں کے تعاون سے ہی چل رہا ہے۔ جو اس کار خیر میں حصہ ڈال رہے ہیں وہ اپنی دنیا اور آخرت سنوار رہے ہیں۔ ڈیم کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ جس طرح شوکت خانم ہسپتال میں بچوں‘ بوڑھوں‘ جوانوں اور خواتین نے بڑھ چڑھ کر فنڈ ریزنگ میں حصہ لیا‘ کپتان کی آواز پر یہ ڈیم کی تعمیر کے لئے بھی اسی جذبے سے لڑتے نظر آئیں گے۔ اس وقت بھی کپتان نے انہیں مایوس نہیں کیا تھا آج بھی نہیں کرے گا۔ اس وقت بھی کپتان نے ان کی ایک ایک پائی کی حفاظت کی تھی آج بھی اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ڈیم بنا کر چھوڑے گا اور جو بھی اس میں حصہ لے گا‘ اس کے دئیے گئے پیسے کی وہ حفاظت کرے گا۔ وہ بھاشا ڈیم بھی بنائے گا اور کالا باغ ڈیم بھی‘ جو صرف چار سال میں بنایا جا سکتا ہے اور جس کی فزیبلٹی بھی مکمل ہے۔
پاکستان کی آبادی اس وقت بیس اکیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے تیرہ کروڑ کے پاس موبائل فون موجود ہے۔ ان تیرہ کروڑ میں سے پانچ کروڑ ایسے ہیں جو ہر ماہ اوسطاً دو ہزار روپے کا موبائل کارڈ لوڈ کرواتے ہیں اور اسے فیس بک‘ یو ٹیوب اور گھنٹوں ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اگر یہ پانچ کروڑ لوگ ایک ماہ کے لئے‘ صرف ایک ماہ کے لئے صرف دو ہزار روپے فی کس ڈیم فنڈ میں دے دیں تو ایک کھرب روپے جمع ہو سکتے ہیں جس سے کام کا آغاز ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اوورسیز پاکستانیوں سے درخواست کی ہے کہ وہ کم از کم ایک ہزار ڈالر فی کس جمع کرائیں۔ دنیا بھر میں اوورسیز پاکستانیوں کی تعداد اسی سے نوے لاکھ ہے۔ ان میںہزاروں ایسے بھی ہیں جو کھرب پتی ہے اور ایسے بھی جو مشرق وسطیٰ کے ممالک میں معمولی نوکری کر کے گزارہ کر رہے ہیں۔ اگر اسی لاکھ اوورسیز پاکستانی ایک ہزار ڈالر فی کس فنڈ میں عطیہ کریں تو یہ آٹھ کھرب پاکستانی روپے بنتے ہیں جن سے ڈیم بنانے کی نصف سے زیادہ لاگت کا خرچ نکل آتا ہے۔ فیس بک پر سینکڑوں ایسی ویڈیوز آ رہی ہیں جن میں لوگ ایک ہزار ڈالر سے زیادہ بھی جمع کروانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ مسئلہ پیسوں کا نہیں‘ پیسے تو کسی بھی طرح جمع ہو جائیں گے۔ مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو بھارت ایسے ممالک کے پے رول پر ہیں اور عوامی مفاد کے منصوبوں کو شروع ہونے سے ہر قیمت پر روکنا چاہتے ہیں۔ یہ ہر اس اقدام کے خلاف ہیں جس سے پاکستان مستحکم ہوتا نظر آتا ہو۔ آپ خود سوچیں کہ اگر کسی گھر میں چھ افراد کسی ایسے علاقے میں رہ رہے ہوں‘ جہاں پانی کی قلت ہو اور آئے روز دور دراز سے پانی لانا پڑتا ہو‘ وہاں اگر پانچ افراد یہ کہیں کہ ہم زمین کھود کر موٹر لگوا لیتے ہیںاور پانی کو زمین سے نکال کر ٹینکی میں ذخیرہ کر لیتے ہیں تاکہ ہمیں روزانہ پانی بھرنے کے لئے دور دراز کی مشقت نہ اٹھانی پڑے اور ان میں سے ایک شخص اس عمل کی مخالفت کرنا شروع کر دے تو کیا اس کی عقل پر ماتم نہیں کیا جائے گا؟ پانی اس خطے میں تیزی سے کم ہو رہا ہے جس سے ماحول کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہو‘ وہاں کون سی فصل ایسی ہے جو پانی کے بغیر نمو پا سکتی ہے۔ وزیراعظم نے فنڈ قائم کر کے اس قوم کو بچانے کی ایک امید پیدا کی ہے۔ یہ امید ٹوٹنے سے بچانے کے لئے ہم سب کو آگے بڑھنا ہے۔ شکر کریں کہ وزیراعظم نے فنڈ بنایا ہے‘ یہاں چین جیسا ملک اور کوئی چینی حکمران ہوتا تو وہ عوام کو ایک وقت سے زیادہ کی روٹی کھانے کی اجازت نہ دیتا‘ ہر گھر میں ایک سے زیادہ بلب جلانے پر پابندی لگ جاتی‘ حکمران اور عوام سب اپنے پیٹ پر بھاری پتھر باندھ لیتے اور لوگوں کو اس وقت تک دوسری روٹی کھانے اور دوسرا بلب جلانے کی اجازت نہ ملتی جب تک بچائے گئے پیسوں سے ڈیم کی تعمیر مکمل نہیں ہو جاتی۔ دوسری طرف ہم ہیں‘ جو اپنے ہی ہاتھوں اپنا اور اپنے بچوں کا گلا گھونٹنے اور انہیں پیاس سے بلک بلک کر مارنے کے لئے بضد ہیں۔