میں نے چیونگم کا ریپر دو انگلیوں میں مروڑا‘ گاڑی کا شیشہ کھولا اور سڑک پر پھینکے ہی والا تھا کہ میری آنکھوں کے سامنے ایک خبر کا عکس آ گیا جو میں صبح ہی پڑھ کر نکلا تھا۔ خبر کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت نے سڑکوں پر کوڑا کرکٹ پھینکے اور زیبرا کراسنگ کے علاوہ یعنی غلط جگہ سے سڑک پار کرنے پر جرمانے عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا‘ کوئی بھی مجھے نہیں دیکھ رہا تھا۔ میں نے سوچا ابھی تو یہ قانون نہیں بنا لہٰذا اگر کسی نے دیکھ بھی لیا تو کیا ہو گا؛ تاہم ضمیر نے کچوکے لگانے شروع کر دئیے اور اپنا برطانیہ کا پہلا سفر یاد آ گیا۔ وہاں جا کر سب سے پہلے جس چیز نے حیران کیا تھا وہ یہی تھی کہ سڑکوں پر کچرا پھینکنے پر پچاس ڈالر جرمانہ ہوتا تھا اور ہم وطن واپس آ کر باہر کی مثالیں دیتے تھے کہ دیکھو برطانیہ کتنی ترقی کر گیا ہے کہ وہاں سڑکوں پر کوئی شخص تھوکنے یا کاغذ وغیرہ پھینکنے سے اس لئے باز رہتا ہے کہ نہ صرف وہاں کا قانون اسے منع کرتا ہے بلکہ اسے بچپن سے ہی سکول میں سکھایا جاتا ہے کہ صفائی پر عمل کرنا ہے۔ سڑک کو بھی صرف اُس جگہ سے پار کرنا ہے جہاں زیبرا کراسنگ کی لائنیں موجود ہوں۔ غالباً برطانوی قانون میں یہ بھی ہے کہ اگر کوئی بندہ زیبرا کراسنگ کے علاوہ کسی اور جگہ سے سڑک پارکرتا ہوا کسی گاڑی کے نیچے آ جائے تو قانون کے مطابق قصور وار پیدل سوار ہو گا چاہے اس کی جان ہی چلی جائے اور ڈرائیور کو کچھ نہیں کہا جا سکے گا۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اول تو بیرونی ممالک میں کوئی زیبرا کراسنگ کے علاوہ سڑک پار نہیں کرتا اور اگر کوئی کبھی کبھار ایسا کرے تو بھی ڈرائیور اخلاقاً اس کے لئے گاڑی آہستہ کر لیتے ہیں۔ یہاں حالات اس کے اُلٹ ہیں۔ یہاں تو زیبرا کراسنگ پر کھڑے وارڈنز کو وزیروں کی گاڑیاں ٹکر مار کر کچل دیتی رہی ہیں۔ لیکن وہ ماضی تھا۔ اب تبدیلی کا دور ہے۔ جو کہتے ہیں تبدیلی کہاں ہے‘ وہ دیکھتے جائیں اگلے چند ماہ میں اتنا کچھ نیا سامنے آنے والا ہے کہ سب حیران رہ جائیں گے۔ تبدیلی کا یہ عمل خود وزیراعظم عمران خان نے اپنے آپ سے شروع کیا ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے وزیراعظم ہائوس کے محل کی بجائے تین کمروں تک خود کو محدود کر لیا۔ ساتھ ہی انہوں نے تمام پرتعیش گاڑیاں نیلام کرنے کا حکم دیا۔ اس اقدام کا اتنا اثر ہوا کہ پورے ملک میں کئی وزرا اور گورنرز نے پروٹوکول لینے‘ بڑے گھروں میں رہنے اور سرکاری گاڑیوں کے استعمال سے خود کو روک لیا۔ عمران خان برسوں سے اپنی تقاریر میں یہ کہتے آ رہے تھے کہ جب ملک کے سب سے بڑے عہدے پر بیٹھا شخص چور ہو گا‘ جب وہ کرپشن کو جرم نہیں سمجھے گا اور جب وہ قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھے گا تو پھر اس کے نیچے وزرائے اعلیٰ‘ کابینہ ‘ بیوروکریسی اور سیاستدان بھی اُسی کے نقش قدم پر چلیں گے۔ جب بھی وہ کوئی جرم کرنے لگیں گے تو ان کا ضمیر سویا رہے گا اور وہ عوام کا پیسہ یوں لوٹیں گے جیسے مال غنیمت ہاتھ آیا ہو۔ یہاں کوئی علاقے کا کونسلر لگ جائے تو اس کی اکڑ دیکھنے والی ہوتی ہے تو وزیراعظم کے عہدے پر پہنچ کر تو انسان خود کو کس قدر طاقت ور محسوس کرتا ہو گا لیکن عمران خان جیسے ہی اس طاقت ور ترین عہدے پر پہنچے انہوں نے خود کو اتنا ہی لالچ سے دور کر لیا۔ آپ میری اس بات کو لکھ رکھیں اس اقدام کا اس قدر گہرا اثر ہو گا جو آنے والے دنوں میں ضرور سامنے آئے گا اور ہر طاقت ور عہدے پر بیٹھا شخص کوئی جرم کرتے وقت ایک مرتبہ ضرور سوچے گا کہ میرے ملک کا وزیراعظم اگر لالچی نہیں ہے اور اگر وہ سرکاری خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کو تیار نہیں تو پھر مجھے بھی خود کو اس سے باز رکھنا چاہیے ۔
عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم دوسرا پیغام عوام کو یہ دیا ہے کہ وہ کسی اپنے یا پرائے کی سفارش کریں گے نہ ہی کرپٹ کو چھڑانے کی کوشش کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر شخص چھوٹی موٹی کرپشن کرتے وقت بھی سو مرتبہ سوچ رہا ہے کہ اگر وہ پھنس گیااور چاہے اس نے پی ٹی آئی کے لئے انتخابی مہم ہی کیوں نہ چلائی ہو یا اس کے لئے کوئی قربانیاں دی ہوں‘ اس کی بھی جب کوئی سفارش نہیں مانی جائے گی تو پھر وہ کرپشن کیوں کرے گا۔ تیسرا سخت ترین پیغام عمران خان نے جو بحیثیت وزیراعظم بھارت کو دیا ہے اس سے جاندار پیغام ماضی میں کسی نے کم ہی دیا ہو گا۔ اپنے اقتدار کے آغاز میں انہوں نے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل جل کر چلنے کی بات کی اور بالخصوص بھارت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اگر دونوں ممالک کے تعلقات اچھے ہوں گے تو اس کا فائدہ دونوں ممالک کی معیشت ‘ عوام اور پورے خطے کو ہو گا؛ تاہم بھارت اپنی عادت کے مطابق ہٹ دھرمی سے باز نہیں آیا اور گزشتہ دنوں اس کے فوجی کمانڈر نے گیدڑ بھبکی کسی کہ وہ پاکستان میں کسی بھی وقت سرجیکل سٹرائیک کر سکتے ہیں۔ اس کا جواب بھی وزیراعظم عمران خان نے یوں دیا کہ بھارت کو اپنی نانی یاد آ گئی ہو گی جبھی تو بھارتی حکومت کی طرف سے یہ کہا جانے لگا کہ جب سے پاکستان میں نئی حکومت آئی ہے وہ بڑا جارحانہ انداز اختیار کر رہی ہے‘ حالانکہ خان صاحب اور ان کی حکومت کا انداز انتہائی متوازن تھا اور جب انہوں نے حلف اٹھایا تو کئی بھارتی کھلاڑیوں کو تقریب میں مدعو کیا جن میں سے سدھو پاکستان آئے۔ انہیں یہاں تک آفر کی گئی کہ بابا گرونانک کی ساڑھے پانچ سوویں برسی پر کرتار پور کا بارڈر کھول دیں گے۔ اگر بھارت اس پیغام کو جارحانہ کہتا ہے تو بھارت کی سوچ پر چار حرف ہی بھیجے جا سکتے ہیں۔ سدھو نے واپس بھارت جا کر پاکستان کے رویے اور یہاں سے ملنے والی محبت کی جس طرح تشہیر کی وہ بھارت کے منہ پر خود ایک طمانچہ بن کر لگی جس کے بعد بھارت کے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا کہ اس کے لیڈر بچگانہ بیانات دیں اور اپنے عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کریں۔گزشتہ روز وزیراعظم آزاد کشمیر کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ بھی بھارتی جارحیت اور بوکھلاہٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ہیلی کاپٹر پاکستان کی حدود میں ہی تھا لیکن بھارت جو ہر وقت زہر میں بجھا رہتا ہے‘ کو افراتفری پھیلانے کا ایک بہانے چاہیے تھا وگرنہ پاکستانی سول ہیلی کاپٹر کو کیا پڑی تھی کہ وہ بلاوجہ اور بغیر اجازت بھارتی سرحد میں داخل ہو جائے۔ بالفرض ایسی کوئی سرحدی خلاف ورزی ہو بھی جائے تو سیدھے فائر کھولنے سے پہلے بھی کئی اقدامات ہوتے ہیں جو اٹھائے جاتے ہیں لیکن بھارت کی عقل پر جمی مٹی کی دبیز تہہ اسے اتنا بھی سوچنے کی اجازت نہیں دیتی۔ عمران خان نے اگر بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بات کی تو ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس پیش کش کو پاکستان کی کمزوری نہ سمجھے۔وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے جس طرح پارلیمنٹ میں بھارت کو للکارا اور کشمیر پر جاندار موقف اختیار کیا اس طرح بھی ماضی میں کم ہی دیکھنے کو ملتا تھا۔
نئی حکومت بننے کے بعد پہلی مرتبہ اسلام آباد آیا ہوں۔ یوں لگ رہا ہے جیسے تبدیلی نے انگڑائی لے لی ہے۔ اسلام آباد کا موسم تبدیلی ہوا چاہتا ہے۔ میں نے اسلام آباد میں مختلف لوگوں سے دریافت کیا ۔ کیا پی ٹی آئی اور کیا نون لیگی‘ سبھی کی رائے تھی کہ اب یہ ملک ضرور بدلے گا کیونکہ جب وزیراعظم کو ہی دولت جمع کرنے کا شوق نہیں تو پھر وہ کسی اور کو کیوں ایسا کرنے دے گا۔ سڑکوں پر تھوکنے اور کچرا پھینکنے سے لے کر تجاوزات کے خاتمے تک اور خود کار کیمروں کے ذریعے سگنل کی خلاف ورزی سے لے کر دبئی میں موجود پانچ سو ارب پتی افراد کی غیر قانونی فہرست کی تیاری تک بہت کچھ تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ اطمینان رکھیں‘ کچھ لوگوں کی چیخیں ضرور نکلیں گی اور یہ ان چیخوں کو جذبات کے لحاف سے ڈھانپنے کی کوشش بھی کریں گے لیکن بات نہیں بنے گی کیونکہ وزیراعظم اب کوئی اور ہے اور یہ کوئی لالچی‘کرپٹ اور دولت کا پجاری نہیں بلکہ ہاتھ میں تسبیح تھامے ایک درویش صفت‘ پڑھا لکھااور بے غرض انسان ہے ‘ جو غلطی تو کر سکتا ہے لیکن بے ایمان ہر گز نہیں ہے۔