وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ میٹرک میں دو مرتبہ فیل ہوا تو باپ نے ایک فیکٹری میں ڈال دیا۔ وہ سارا دن فیکٹری میں کام کرتا اور شام کو دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کے لئے نکل جاتا۔ کچھ ہی عرصے بعد اسے فیکٹری سے موٹر سائیکل مل گئی تاکہ وہ سامان کی مارکیٹنگ کے لئے گھوم پھر سکے۔ اس کے پاس پرانی طرز کا بٹنوں والا موبائل فون تھا۔ وہ شہر میں مختلف لوگوں سے ملتا تو سب کے پاس ٹچ سکرین والا موبائل دیکھتا۔ وہ بھی ایک بڑی سکرین والا موبائل فون لینا چاہتا تھا تاکہ دوستوں کی طرح سیلفیاں لے سکے‘ سوشل میڈیا پر پوسٹ کر سکے‘ گانے اور فلمیں دیکھ کر دل لبھا سکے اور دوستوں‘ رشتے داروں پر رعب جما سکے۔ اس نے موبائل خریدنے کے لئے باپ سے پیسے مانگے لیکن اس کے پاس پیسے کہاں تھے۔ نوجوان نے فیکٹری سے قرض مانگا‘ دوستوں سے ادھار پکڑا اور بیس ہزار والا خوبصورت موبائل فون خرید لایا۔ وہ فون کو بڑی احتیاط سے استعمال کرتا۔ سکرین کو صاف رکھنے کے لئے اس نے ایک خاص قسم کا کلینر اور ململ کا کپڑا خریدا۔ وہ روزانہ تین چار مرتبہ سکرین پر سپرے کرتا‘ ململ کا کپڑا نکالتا اور سکرین کو اچھی طرح صاف کرتا۔ ایک دن اس کے چھوٹے بھائی نے اس سے موبائل فون مانگا اور گیم کھیلنے لگا۔ اس دوران اچانک گھر کی بیل بجی‘ وہ دروازے تک جانے کے لئے اٹھا ہی تھا کہ فون اس کے ہاتھ سے گر گیا۔ خوش قسمتی سے فون نیچے پڑی جوتی پر گرا ‘اس لئے بچ گیا۔ نوجوان نے غصے میں آ کر اپنے بھائی کو دو تھپڑ جڑ دئیے جس سے گھر کا ماحول ناخوشگوار ہو گیا۔ نوجوان کو اب مسلسل یہ ڈر رہنے لگا تھا کہ کہیں موبائل فون گرنے سے سکرین ٹوٹ گئی تو اس کا فون ٹکے کا نہیں رہے گا۔ موبائل فون کو نقصان سے بچانے کے لئے اس نے اس کا ایک باڈی کور خریدا‘ جبکہ سکرین کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھنے اور رگڑ سے بچانے کے لئے اس نے الگ سے ایک گلاس پروٹیکٹر لگوا لیا۔ یہ کور اور پروٹیکٹر اس نے بارہ سو میں خریدے۔ وہ مطمئن ہو گیا کہ موبائل فون محفوظ ہو چکا ہے۔ یہ اس کی بھول تھی۔ کوئی دو ہفتے بعد ہی فون کا سکرین گلاس پیروٹیکٹر اپنی جگہ سے اکھڑنے لگا۔ وہ بڑا پریشان ہوا۔ فوراً دکان پر گیا اور چار سو روپے کا نیا سکرین پروٹیکٹر لگوا لیا۔ دکاندار نے اسے بتایا کہ یہ پروٹیکٹر کم از کم ایک مہینہ چلے گا۔ وہ گھر آ گیا؛ تاہم یہ والا سکرین پروٹیکٹر بھی کچھ دنوں بعد اکھڑنے لگا۔ وہ دکاندار کے پاس گیا اور کہا کہ وہ اسے اچھے والا سکرین پروٹیکٹر دکھائے۔ دکاندار نے کہا کہ وہ ایک ہی مرتبہ معیاری چیز لگوا لے تاکہ روز روز کا مسئلہ ختم ہو۔ دکاندار نے اس کی قیمت بارہ سو روپے بتائی۔ نوجوان نے کچھ کم کرنے کا کہا‘ جس پر ایک ہزار روپے میں سودا ہو گیا اور وہ نیا پروٹیکٹر لگوا کر گھر آ گیا۔ ایک دن اس کے باپ نے پوچھا کہ وہ ہر ماہ اسے تنخواہ کے پیسے دو تین ہزار کم کیوں دے رہا ہے۔ نوجوان نے باپ کو بتایا کہ دفتر والے اس کی تنخواہ سے بہانے بہانے سے کٹوتیاں کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ یہ سارے پیسے موبائل کی خوبصورتی‘ اس میں چلنے والے انٹرنیٹ اور اس کی سکرین کو بچانے والے پروٹیکٹر کو خریدنے پر لگا رہا تھا۔ ایک روز وہ فیکٹری سے واپس گھر آ رہا تھا کہ ایک ٹریفک وارڈن نے اسے روک لیا اور ہیلمٹ نہ پہننے پر چالان کر دیا۔ نوجوان نے وارڈن کے ساتھ بحث و تکرار شروع کر دی۔ تھوڑی ہی دیر میں اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ نوجوان کا موقف تھا کہ وہ ایک غریب ملازم ہے‘ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ ہیلمٹ خرید سکے مگر وارڈن نے ایک نہ سنی اور چالان کاٹ دیا‘ جس پر وہ دلبرداشتہ ہو گیا اور پٹرول نکال کر موٹر سائیکل پر چھڑکنے کی کوشش کی۔ وہ اسے آگ لگانا چاہتا تھا لیکن لوگوں کا جم غفیر اکٹھا ہو گیا اور بیچ بچائو کروا دیا۔ پولیس اسے تھانے لے گئی؛ تاہم اگلے روز اس کی ضمانت پر رہائی ہو گئی۔ ایک دن وہ چھٹی کے روز موٹر سائیکل اڑاتا ہوا جا رہا تھا کہ اچانک اس کی موٹر سائیکل کا اگلا پہیہ گاڑی کو اوورٹیک کرتے ہوئے گاڑی کے پچھلے بمپر کو چھو گیا جس سے موٹر سائیکل بے قابو ہو کر گر گئی‘ اور نوجوان سڑک پر کئی فرلانگ تک پلٹیاں کھاتا چلا گیا‘ اس کا سر سڑک کنارے فٹ پاتھ سے ٹکرایا‘ خون کا ایک فوارہ اُبلا اور وہ چند منٹ میں وہیں ساکت ہو گیا۔ اس کے دماغ کا بھیجا سڑک پر دُور دُور تک بکھر چکا تھا۔ پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو نوجوان کی لاش کے ساتھ ہی اس کا موبائل فون بھی پڑا تھا۔ پولیس افسر نے جھک کر موبائل فون اٹھایا۔ موبائل فون کی سکرین پر خراش تک نہیں آئی تھی‘ شکر ہے موبائل فون بچ گیا تھا۔
جب سے ہیلمٹ نہ لینے پر پنجاب میں چالان شروع ہوئے ہیں‘ ہمارے نوجوان بے چین اور سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا خیال ہے ہیلمٹ کا قانون موجودہ حکومت کی نوجوانوں کے خلاف بہت بڑی سازش اور ان پر ظلم ہے۔ طالب علموں کا موقف ہے‘ وہ فیسیں دیں‘ کتابیں خریدیں‘ موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوائیں یا ہیلمٹ خریدیں جبکہ شادی شدہ افراد بھی مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں۔ ان کے خیال میں موجودہ حکومت نے ہیلمٹ کی پابندی کرکے عوام پر بہت بڑا معاشی بوجھ ڈال دیا ہے‘ اور ہیلمٹ خریدنا تو دور کی بات‘ ان کے لئے تو گھر کی دال روٹی چلانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ میں ایسے لوگوں کی آرا سنتا ہوں تو مجھے ان پر ہنسی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ تمام لوگ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں‘ ان کے لئے ہر آنے والے دور میں گزارا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور یہ اپنے روزمرہ کے اخراجات کے لئے ایک دوسرے سے مانگ تانگ کر کام چلا رہے ہیں‘ لیکن یہ بھی درست ہے کہ یہ سب لوگ ایک عدد موبائل فون کے بھی مالک ہیں۔ غریب ہو یا امیر‘ آج بارہ ہزار تنخواہ والے شخص کے پاس بھی کم از کم دس ہزار والا اینڈرائڈ فون موجود ہے جسے وہ ہر تیسرے چوتھے ماہ بدلتے بھی رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ موبائل فون انٹرنیٹ پیکیج خریدنے پر لگا دیتے ہیں اور اپنے موبائل فونوں کو خراش سے محفوظ رکھنے کے لئے ہر ماہ سینکڑوں ہزاروں روپے کے سکرین پروٹیکٹر لگوا لیتے ہیں لیکن جب اپنے دماغ‘ اپنی کھوپڑی اور اپنے سر کو بچانے کی باری آتی ہے‘ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ سر کی چوٹ سے بچنے کے لئے ہیلمٹ پہننا لازمی ہے تو وہ آستینیں چڑھا لیتے ہیں‘ وہ مرنے مارنے پر اُتر آتے ہیں اور غربت‘ مہنگائی اور بیروزگاری کے طعنے اور دلیلیں دے دے کر حکومت کو لتاڑنا اور کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا ہم ایسے معاشرے کو ترقی یافتہ اور ایسے عوام کو سمجھدار عوام کہہ سکتے ہیں‘ جہاں حکومت عوام کو سر کی چوٹ سے بچانا چاہتی ہو اور وہ جواب میں حکومت کو گالیاں دیتے ہوں اور اپنی موٹر سائیکل کو آگ لگانے حتیٰ کہ خود سوزی پر اتر آتے ہوں۔ عجیب بات ہے کہ یہی لوگ قرض لے کر سود پر پچاس ہزار سے سوا لاکھ روپے تک کی موٹر سائیکلیں خرید لیں گے‘ یہ دس ہزار سے ایک لاکھ روپے والا مہنگا موبائل فون بھی رکھ لیں گے‘ لیکن دو ہزار والا معیاری ہیلمٹ نہیں خریدیں گے اور جب خدانخواستہ انہیں حادثے میں سر پر چوٹ لگے گی تو ان کے لواحقین ہسپتالوں میں جا کر ڈاکٹروں کے خلاف احتجاج اور دھرنا شروع کر دیں گے کہ انہوں نے ان کے پیاروں کو بچانے کی ٹھیک طرح سے کوشش نہیں کی۔ یہ کبھی اپنے گریبان میں جھانکیں گے نہ ہی خود سے یہ سوال کریں گے کہ اگر وہ موبائل فون کی سکرین کو بچانے کے لئے ماہانہ سینکڑوں روپے سکرین پروٹیکٹر خریدنے پر خرچ کر سکتے ہیں تو پھر اپنی کھوپڑی کے ٹکڑوں کو سڑک پر بکھرنے سے بچانے کے لئے زندگی میں ایک مرتبہ چند ہزار کا معیاری ہیلمٹ کیوں نہیں خرید سکتے؟ کیا ایسے تمام لوگ مجھے یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ ہیلمٹ نہ پہن کر اپنے پیارے بیوی بچوں اور بوڑھے ماں باپ کو سڑک پر بکھرے دماغ کے بھیجے دکھا کر کس آزمائش میں ڈالنا چاہتے ہیں‘ وہ کیوں انہیں روتا‘ تڑپتا اور سسکتا دیکھنا چاہتے ہیں؟