موجودہ حکومت پاکستانی تاریخ کی مضبوط ترین حکومت کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں مثلاً یہ کہ اپوزیشن میں موجود دو بڑی جماعتیں‘ جو عشروں سے اقتدار کے مزے لوٹتی اور ملک نوچتی رہیں ‘یہ اپوزیشن کرنے کی بجائے اب اپنی جان ‘ مال اور عزت بچانے کی فکر میں ہیں۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ80ء او ر90 ء کی دہائی میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا وجود ہی نہ تھا۔ حکومت جو کچھ دکھانا چاہتی تھی وہ سرکاری ٹی وی یا تین چار بڑے اخبارات کے ذریعے دکھا دیتی تھی‘ اس لئے ہر طرف سب اچھا نظر آتا تھا۔ تحقیقاتی رپورٹنگ کا رواج نہ تھا اور چند بڑے صحافی حکومت کی ڈائریکشن پر جو تجزیے اورخبریں دیتے تھے‘ انہی کو مستند مانا جاتا تھا۔ اقتدار کے ایوانوں میں کیا کھچڑی پک رہی ہے‘ فوج اور سول قوتوں میں کیا تنازعات چل رہے ہیں‘ اس کا پتہ اس وقت چلتا تھا جب آدھی رات کو خبر آتی کہ فوج نے اقتدار سنبھال لیا ہے‘ یا پھر کسی صدر یا جج نے حکومت کو چلتا کر دیا ہے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے اسی ماحول کا فائدہ اٹھا کر عوام کے ٹیکسوں اور بیرونی قرضوں کو ہڑپ کرنا شروع کر دیا اور آج جو پانامہ اور سرے محل سکینڈل کا شور مچا ہوا ہے یہ سب انہی ادوار میں کمائے اور بنائے گئے۔ ججوں اور جرنیلوں کو زیر بار لانے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے آزمائے گئے ‘ حتیٰ کہ من پسند فیصلے نہ آنے پر سپریم کورٹ پر حملے تک کئے جاتے رہے۔ اس وقت کس کے وہم و گمان میں ہو گا کہ وقت کی کبھی اُلٹی گنتی بھی شروع ہو سکتی ہے اور ایک ایسا شخص جو صرف ایک کرکٹ ورلڈ کپ کی جیت کے وقت کپتان کی حیثیت رکھتا تھا‘ وہ ایک دن اس ملک کا بھی کپتان بن جائے گا اور ان سارے چور اُچکوں کو ناکوں چنے چبوائے گا ۔ انسان اپنی چالیں چلتا ہے لیکن سب سے بہترین چال قدرت کی ہوتی ہے۔ خدا چاہے تو وقت مقررہ تک فرعون ایسوں کو بھی ڈھیل دے دے اور چاہے تو انہیں ان کے مال و زر سمیت سمندروں میں غرق کر دے۔ یہ مگر سمجھتے تھے ان کی بادشاہی یونہی چلتی رہے گی‘ یہ جائیں گے تو ان کے بچے ان کی جگہ لے لیں گے اور ان کے بیٹے‘ بیٹیاں‘ داماد‘ بھائی‘ بہن‘ کزن‘ چاچے‘ مامے سب بہتی گنگا میں یوں نہا رہے تھے جیسے یہ سب ان کے باپ کا مال ہو۔ یوسف رضا گیلانی نے تو اس کھیل میں وہ غضب ڈھایا کہ ایم بی بی ایس (میاں بیوی بچوں سمیت) کا لقب لے مرے۔ عمران خان کو وزیراعظم بنے محض سو دن گزرے ہیں مگر ان دولت کی ہوس کے ماروں کے لئے یہ سو دن سو برسوں کے برابر تھے‘ کیونکہ اس دوران ان کی ماضی کی ناجائز کمائی کا حساب بھی لیا جاناتھا‘ اسی لئے وہ ایک ایک دن گنتے رہے اور سو دن بعد یوں حکومت سے حساب مانگنے لگے جیسے گزشتہ پینتیس برس سے عمران خان حکومت میں تھے ۔ جس ملک کا بخیہ ان لوگوں نے تین عشروں میں ادھیڑا‘ وہ سو دنوں میں کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؟ یہ انہیں بھی اچھی طرح پتہ ہے‘ کیونکہ یہ سب ان کے ہاتھوں کی کمائی ہے اور شور مچانے کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہ اپنی کرپشن سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں ۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ سو دنوں میں تین چار مرلے کا مکان بھی مکمل نہیں ہوتا‘ حتیٰ کہ کسی یونیورسٹی کی تعمیر کے لئے پیپر ورک کے لئے بھی سو دن ناکافی ہیں‘ لیکن یہ سب عمران خان کی حکومت پر دبائو بڑھانے اور اسے بدنام کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے‘ کیونکہ عمران خان کی جنگ کرپشن کے خلاف ہے اور یہ سب کرپشن کے گاڈ فادرہیں۔
ان سو دنوں میں جو سب سے بڑی کامیابی ہوئی ہے وہ کرپشن پر سزا کا خوف ہے‘ جو اوپر سے نیچے تک سرایت کر چکا ہے۔ حکومت تو حکومت‘ سپریم کورٹ اور نیب بھی کبھی اتنی فعال نہیں دکھائی دیں جتنی آج کل ہیں۔ ہائوسنگ سوسائٹیاں ہوں‘ ناجائز تجاوزات ہوں‘ سول ٹھیکے ہوں‘ پٹرول پمپوں کی لیز ہو‘نوکریوں پر بھرتیاں ہوں‘فنڈز کے اجرا کا معاملہ ہو‘ اداروں کے سربراہان کی تعیناتیاں ہوں‘ غرض ہر جگہ ادارے اور ان میں موجود افسران اور چوکیدار تک انتہائی محتاط ہو چکے ہیں۔ کوئی کسی چپڑاسی تک کی سفارش نہیں کر رہا کہ کل کلاں نیب نے بلا لیا‘ بات کھل گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ پہلے لوگ اشارہ توڑتے یا ٹیکس نہ دیتے وقت یہ عذر پیش کرتے تھے کہ جب ملک کے سربراہ کرپٹ ہیں تو ہمیں کیوں چھوٹی موٹی کرپشن کا حق حاصل نہیں؟ ماضی میں عوام کے سامنے کوئی ایسی مثال نہ تھی جس پر وہ عمل کرتے بلکہ وہ اپنے حکمرانوں کے رنگ میں رنگتے چلے گئے۔ تحریک انصاف کی حکومت کی مضبوطی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اسے فوج اور عدلیہ کا مکمل تعاون حاصل ہے۔جبکہ ماضی میں خود نواز شریف اور ان کی صاحبزادی اپنی ہی فوج کی راہ میں کانٹے بکھیرتی رہیں۔ آج توتحریک انصاف کے کسی ایم این اے یا وزیر پر بھی کرپشن کا کوئی کیس فائل ہوتا ہے تو اسے بھی اسی کڑے احتساب سے گزرنا پڑ سکتا ہے اور کئی معاملات میں پڑ رہا ہے ۔ایئرپورٹ پر ایک وزیر نے پی آئی اے کے افسر کے ساتھ بدتمیزی کی تو سپریم کورٹ میں اسے معافی مانگنا پڑی۔ اسی طرح کراچی میں ایک راہ گیر کو تھپڑ مارنے پر پی ٹی آئی کے عمران علی شاہ کو پارٹی کی جانب سے کڑے احتساب کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سب ماضی میں کہاں ہوتا تھا؟ ماضی میں تو چودہ افراد وزیراعلیٰ پنجاب کی رہائش گاہ سے چند فرلانگ دور دن دہاڑے کیمروں کے سامنے بھون دیے گئے‘ لیکن کسی ایک بھی سیاستدان یا بیوروکریٹ کو احتساب کے لئے پیش نہیں کیا گیابلکہ الٹا لواحقین پر ہی پرچے کٹوا دئیے گئے۔ یہ سب تو چاہتے ہی یہی تھے کہ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہتا اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہ ہوتا۔ لیکن قدرت نے عمران خان کی شکل میں ان کے لئے ایک ایسی قوت کو تیار کیا تھا جس سے ٹکرا کر سومنات کے بڑے بڑے بت بھی ٹوٹتے چلے گئے۔ یہی عمران خان جب اپوزیشن میں تھا تو ایسی مضبوط اور نڈر اپوزیشن کر کے دکھائی کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی نظر آئی ہو۔ جس پانامہ کے بارے میں سابق وزیر خواجہ آصف نے کہا تھا کہ لوگ اسے وقت کے ساتھ بھول جائیں گے اسے عمران خان نے ہی زندہ رکھا اور جو بالآخر حکمرانوں کے زوال کی وجہ بنا۔ ہرچیز کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ دو تین سال قبل کون کہہ سکتا تھا کہ نواز شریف جیل میں اور عمران خان اقتدار میں ہوں گے۔ معیشت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ آج اگر حالات خراب ہیں تو کیا آئندہ تین چار سال بھی ایسا ہی رہے گا؟ وقت کا پہیہ اُلٹا چل پڑا ہے۔ اصل مسئلہ معیشت کی گاڑی کی سمت درست کرنا ہے۔ ڈالر کی وقتی اڑان وقتی مسائل تو لا سکتی ہے‘ لیکن جس انداز میں حکومت کام کر رہی ہے‘ یہ گاڑی شروع میں ہچکولے کھائے گی‘ یہ بار بار رُکے گی‘ جھٹکے مارے گی لیکن بالآخر نارمل ہوتی چلی جائے گی ‘کیونکہ حکمرانوں کی نیت میں فتور ہے اور نہ ہی وہ اس ملک کو لوٹنا چاہتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے جب پانامہ کا کیس شروع ہوا تھا تو لوگ پہلی پانچ سات سماعتوں کے بعد عدالتوں کو کوستے تھے کہ وہ ابھی تک فیصلہ کیوں نہیں دے رہیں اور نواز شریف کو اندر کیوں نہیں کرتیں۔ قانون کا اپنا طریقۂ کار ہے۔ جس طرح یہ سیاسی اونٹ کسی کروٹ بیٹھا ہے اسی طرح معیشت کا طوفان بھی تھمے گا‘ گرد بیٹھے گی اور آہستہ آہستہ بہتری کے آثار بھی نمایاں ہوتے دکھائی دیں گے۔ یہ تو پھر اتنی بڑی ریاست کا معاملہ ہے ‘آپ خود سوچیں کہ کسی مارکیٹ میں کوئی نیا جنرل سٹور بھی کھلتا ہے تو وہ بھی چھ مہینے سال نقصان میں چلتا ہے اور اگر مالک کی نیت اور کارکردگی اچھی ہو تو وہ اسے آخر کار منافع بخش بنا ہی لیتا ہے۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے لئے زیادہ بہتر یہی ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی بجائے اپنے دن گنیں اور اپنا حساب دینے کے لئے تیار ہو جائیں‘کیونکہ جس عمران خان سے میں واقف ہوں ‘ وہ میچ کی آخری بال تک لڑنا جانتا ہے‘ وہ سیاست کی طرح معیشت کی بازی بھی پلٹ سکتا ہے اور ابھی تو صرف سو دن یا پانچ اوور مکمل ہوئے ہیں‘ پینتالیس اوورزکا کھیل تو ابھی باقی ہے !