کیلیفورنیا میں دو برس قبل دودھ کا فیڈر چھوڑنے والا بچہ ارب پتی کیسے بنا‘ یہ انتہائی دلچسپ داستان ہے۔
کیلیفورنیا میں مقیم ایک جوڑے کے ہاں سات برس قبل ایک بچہ پیدا ہوا۔ انہوں نے اس کا نام رایان رکھا۔ اس کا والد انجینئر اور والدہ سکول میں کیمسٹری پڑھاتی تھی۔ جس طرح آج کل کے بچے ایک ہاتھ میں فیڈر لئے موبائل پر کارٹون دیکھتے ہیں‘ رایان کو بھی یوٹیوب پر کارٹونز اور کھلونوں کی ویڈیوز دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ جب وہ پانچ برس کا ہوا تو اس نے ایک یوٹیوب چینل کو دیکھ کر اپنی والدہ سے کہا کہ ہم ایسی ویڈیو کیوں نہیں بناتے۔ اس کے والدین نے سوچا اگر ہم اس کے بچپن کی ویڈیوز یوٹیوب پر ڈالیں گے تو اس سے اس کے بچپن کی یادیں بھی محفوظ ہو جائیں گی‘ امریکہ اور فلپائن میں اس کے دوست اور رشتہ دار بھی انہیں دیکھ سکیں گے اور رایان کی خواہش بھی پوری ہو جائے گی۔ اس مقصد کے لئے تین برس قبل انہوں نے یوٹیوب پر ایک چینل بنایا۔ رایان کے لئے ڈھیر سارے نئے کھلونے لائے اور ہر ہفتے دو تین ویڈیو بنا کر ڈالنا شروع کر دیں۔وہ عموماً ویک اینڈ پر یہ ویڈیوز بناتے جن میں رایان نئے نئے کھلونوں سے کھیلتا اور ان سے محظوظ ہوتا دکھائی دیتا۔ جن دنوں رایان سکول جاتا اس دوران اس کے والدین ان ویڈیوز کی ایڈیٹنگ کرتے اور انہیں دلچسپ گرافکس سے مزین کر کے یوٹیوب پر ڈال دیتے۔ چند مہینوں میں انہوں نے محسوس کر لیا کہ صارفین کی بہت زیادہ تعداد ان ویڈیوز میں دلچسپی لے رہی ہے۔ صرف تین ماہ میں ان کے چینل کے سبسکرائبر ز کی تعداد پانچ لاکھ تک جا پہنچی تھی۔ اس دوران کھلونوں کی ایک کمپنی نے ان کے ساتھ رابطہ کیا اور نئے کھلونے دینے اور رایان کے ذریعے ان کی پروموشن کا معاہدہ کر لیا۔ اس کے بعد رایان کے چینل کا گراف انتہائی تیزی سے بلند ہونا شروع ہو گیا۔ رایان کی کئی ویڈیوز ایسی تھیں جنہیں کروڑوں مرتبہ دیکھا گیا حتیٰ کہ ایک ویڈیو کو ایک ارب ستر کروڑ مرتبہ دیکھا گیا۔ یعنی دنیا کی سات ارب آبادی میں سے پونے دو ارب نے یہ ویڈیو دیکھی اوریہ دنیا میں انتالیسیوں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویڈیو بن گئی۔ اس ویڈیو میں رایان ایک کھلونا قلعے میں مختلف کھلونوں سے کھیلتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی معصومانہ شرارتیں‘ رنگ برنگے کھلونے اور خوبصورت پکچرائزیشن دیکھنے والوں کو آنکھ تک جھپکنے نہیں دیتی۔ پوری دنیا کے بچے اس کے دیوانے بنتے چلے گئے اور روزانہ سکول سے واپسی پر سب سے پہلے اس کی نئی ویڈیو دیکھتے اور پھر کھانا کھاتے۔ رایان کے والدین نے یہ کام صرف ایک شوق کی خاطر شروع کیا تھا۔ اس سے قبل انہوں نے آج تک کوئی ویڈیو اپ لوڈ نہیں کی تھی لیکن اب انہیں اس قدر آمدنی ہونے لگی تھی جس سے ان کی زندگی کا رخ ہی تبدیل ہو چکا تھا۔ رایان کی والدہ نے سکول کی ملازمت بھی چھوڑ دی اوردونوں میاں بیوی مکمل طور پر رایان کو وقت دینے لگے۔انہوں نے ایک بڑا گھر لے لیا۔ ایک کمرے کو کھلونوں سے بھر دیا اور ایک کو سٹوڈیو بنا دیا۔ آہستہ آہستہ ویڈیوز میں رایان کی دو ننھی بہنیں بھی شامل ہو گئیںجس سے یہ فیملی چینل اور بھی مقبول ہو گیا۔ گزشتہ دنوں عالمی جریدے فوربز نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ رایان کے یوٹیوب پر 17 کروڑ فالوورز ہو چکے ہیں اور اُس نے ایک سال کے دوران ویڈیوز شیئر کر کے 17 کروڑ یورو کمائے جو پاکستانی کرنسی کے حساب سے 2 ارب 69 کروڑ روپے بنتے ہیں۔کمائی جانے والی رقم کا ایک حصہ رایان کے لئے ایک بینک اکائونٹ میں محفوظ ہو رہا ہے جو اسے اٹھارہ سال کی عمر کے بعد ملے گا۔ رایان کے چینل کو کمائی دو طرح سے ہوتی ہے۔ ایک‘ ان اشتہارات سے جو ویڈیوز سے پہلے اور اس کے دوران چلتے ہیں اور دوسرا ان کمپنیوں سے جو اپنے کھلونے مارکیٹ میں لانے سے پہلے رایان کی ویڈیوز کے ذریعے لانچ کرتے ہیں۔ اس سے دیگر بچوں میں ایسے کھلونوں کے لئے زیادہ رغبت پیدا ہوتی ہے اور ایک ہی دن میں ایسی ویڈیوز کئی کروڑ بار دیکھی جانے سے ایسے کھلونے پلک جھپکتے میں بک جاتے ہیں۔
میں نے گزشتہ چند ماہ میں کئی کالم فری لانسنگ پر لکھتے ہیں۔ یہ رایان صاحب جو دودھ پینے کی عمر میں اربوں روپے کما رہے ہیں‘یہ بھی فری لانسنگ کی ایک قسم ہے۔ اللہ کے فضل سے پاکستان میں دو تین لاکھ نوجوانوں کے سوا ننانوے اعشاریہ نوے فیصد آبادی بشمول جغادری صحافیوں‘ کالم نویسوں‘چھاتہ بردار اور حقیقی اینکرز اورانویسٹی گیٹو رپورٹرز کو پتہ تک نہیں کہ فری لانسنگ کس بلا کا نام ہے اور اگر کسی کو معلوم ہے تو انتہائی سطحی حد تک۔ مجھے کل مدینہ منورہ سے ایک ٹی وی چینل نے ٹاک شو میں فون پر لینے کے لئے رابطہ کیا تاکہ میں رایان کی اس خبر اور فری لانسنگ پر تبصرہ کر سکوں لیکن مجال ہے کہ میں نے آج تک پاکستان میں کسی چینل کو اس موضوع پر بات کرتے دیکھا ہو۔ چینلز یا اینکر کو سوائے گورنر ہائوس کی دیواروں‘ مرغیوں انڈوں اور پانامہ کیسوں کے سوا کوئی موضوع ہی نظر نہیں آتا۔ سب کے سب کنوئیں کے مینڈک کی طرح شام سے رات گئے تک قوم کا سر چبانے میں لگے ہیں لیکن انہیں رایان جیسی شاندار اور اُچھوتی خبریں اٹریکٹ نہیں کرتیں۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ دنیا میں یوٹیوب اور فری لانسنگ سے آج سات برس کے بچے اربوں ڈالر کما رہے ہیں اور ہم نے مل کر انفارمیشن ٹیکنالوجی کو کچرے کے ڈبے میں ڈال رکھا ہے۔سات سالہ ریان نے بل گیٹس کی اس بات کو سچ ثابت کر دکھایا ہے کہ اگر آپ غریب پیدا ہوئے ہیں تو یہ آپ کا قصور نہیں ہے‘ لیکن ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی آپ غربت کے ہاتھوں مرنے پر مجبور ہیں تو پھر یہ واقعی آپ کا قصور ہے۔ آج حکومت نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں دینا چاہتی ہے ‘ فری لانسنگ کی مدد سے یہ ٹاسک جلد پورا ہو سکتا ہے۔ جو نوجوان انگلش سے ترجمہ کرنا جانتے ہیں‘ جو ویڈیو ایڈیٹنگ‘ آڈیو ٹرانسکرپشن‘ گرافک ڈیزائننگ‘ فوٹوگرافی‘ پروف ریڈنگ اور سٹوری رائٹنگ کر سکتے ہیں وہ فری لانسنگ کر کے گھر بیٹھے ماہانہ لاکھوں کما سکتے ہیں۔ میں لاہور میں ایک بندے کو جانتا ہوں جو انہی کاموں سے فری لانسنگ سے یومیہ ایک لاکھ کما رہا ہے اور کام بڑھنے پر چار مزید بندے رکھ لئے ہیں۔ اسی طرح کئی پاکستانی یوٹیوب تفریحی‘ نیوز اور علمی چینلز سالانہ تیس کروڑ تک کما رہے ہیں ۔ان چینلز کو لائیک کرنے والے صارفین کی تعداد دس سے بیس لاکھ تک ہے۔ فری لانسنگ سے حکومت چاہے تو ایک سال کے اندر دو کروڑ نوکریاں پیدا کر سکتی ہے اور اس کے لئے چاہیے کیا ؟ ایک کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ کنکشن اور ایک اچھا فری لانسنگ ٹرینر جو انہیں انٹرنیٹ سے پیسے کمانے کا طریقہ اور گُر بتا سکے۔ امریکہ میں ساڑھے پانچ کروڑ ‘ بھارت میں پچاس لاکھ اور بنگلہ دیش میں پندرہ لاکھ افراد گھر بیٹھے فری لانسنگ سے اربوں روپے کما رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی ڈیڑھ لاکھ نوجوان کسی نہ کسی طرح فری لانسنگ سے وابستہ ہیں لیکن اگر حکومت وسیع پیمانے پر ملک کے کونے کونے میں موجود ہر کالج‘ ہریونیورسٹی میں فری لانسنگ سنٹر بنا دے تو یہ تعداد کروڑوں میں جا سکتی ہے۔امریکہ میں اس وقت چوبیس فیصد افراد نوکری چھوڑ کر فری لانسنگ کر رہے ہیں اور یہ تعداد دس برس میں چوہتر فیصد ہو جائے گی۔ پاکستان میں فری لانسنگ کے سرکاری سطح پر صرف دو پروگرام چل رہے ہیں جن میں سے ایک پنجاب میں ای روزگار اور وفاق میں ڈیجی سکلز کے نام سے چل رہا ہے جبکہ چند ہفتے قبل سابق چیئرمین نیوٹیک ذوالفقار چیمہ نے پنجاب آئی ٹی بورڈ کے ساتھ ای روزگار پروگرام کی طرز پر پورے ملک میں فری لانسنگ سیٹ اپ بنانے کا معاہدہ کیا اور میری خوش نصیبی ہے کہ جب یہ معاہدہ سائن ہو رہا تھا‘میں بھی تقریب میں موجود تھا۔ تاہم سات سالہ رایان کی اس خبر نے گویا بجلی کا گیارہ ہزار وولٹ کا جھٹکا لگاکر یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہمیں اپنی رفتار اور ترجیحات کو تیز تر کرنا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک کمرے میں بیٹھ کر والدین اور ان کا بچہ یوٹیوب کی مدد سے کروڑوںڈالر کما سکتے ہیں تو پھر ہم بائیس کروڑ افراد بشمول ساڑھے بارہ کروڑ نوجوان انٹرنیٹ سے آمدن کیوں نہیں حاصل کر سکتے؟ ہم اپنے نوجوانوں کو آخر نو سے پانچ بجے کی روایتی نوکریاں کرانا‘ دفتروں میں جوتے چٹخوانا اور بیروزگاری کا جام کیوں پلانا چاہتے ہیں؟کیا ہمارا میڈیا ایسے ایشوز کو وقت اور اہمیت دینا گوارا کرے گا؟