مشرف دور میں شوکت عزیز وزیراعظم بنے تو ایک اخبار میں ایک کارٹون شائع ہوا جس میں ایک چھوٹا بچہ معصومیت سے اس خواہش کا اظہار کرتا دکھائی دیا کہ وہ بڑا ہو کر بینکر بننا چاہتا ہے تاکہ وزیراعظم بن سکے۔ شوکت عزیز ایک عالمی بینک میں بیرون ملک اہم پوسٹ پر تعینات تھے کہ پرویز مشرف کی نظر ان پر جا پڑی۔ مشرف نے شوکت عزیز کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھا تو دیا لیکن موصوف بینکنگ کے اصولوں کو لے کر ملک چلانے کی اسی طرح ناکام کوشش کرنے لگے جس طرح کا کھیل چارٹرڈ اکائونٹنٹ اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ بن کر کھیلا۔ شوکت عزیز کے دور میں ٹریکل ڈائون اکانومی کی ایک ٹرم سامنے آئی۔ ہوتا یوں تھا کہ جب بھی ملکی معیشت کے حوالے سے منفی خبریں سامنے آتیں اور میڈیا میں ان پر تنقید کی جاتی‘ شوکت عزیز سامنے آتے اور بتاتے کہ دراصل معیشت کو ری شیپ کیا جا رہا ہے‘ یہ جھٹکے اسی لئے لگ رہے ہیں؛ تاہم عوام کو گھبرانے کی ضرورت نہیں‘ بہت جلد اکانومی میں بہتری کے اثرات اوپر سے نیچے کی جانب ٹریکل ڈائون کریں گے اور عوام بہتری محسوس کریں گے۔ شوکت عزیز کی پیش گوئی پچاس فیصد تو بالکل درست ثابت ہوئی‘ اکانومی میں بہتری تو آئی لیکن اس کے اثرات اوپری سطح سے شروع ہو کر وہیں تک محدود ہو گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ارب پتی کھرب پتی بن گئے جبکہ غریب طبقہ ٹریکل ڈائون پالیسی کا مطلب ہی ڈھونڈتا رہ گیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے کبھی ٹریکل ڈائون کا لفظ تو استعمال نہیں کیا لیکن ان کے بیانات اور تقاریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک میں ایسا نظام لانا چاہتے ہیں جس میں معیشت سے لے کر انصاف تک غریب عوام کو وہی فوائد اور حقوق ملیں جو مراعات یافتہ طبقے کو حاصل ہیں۔ فی الوقت حکومت کو بنے سوا سو دن ہوئے ہیں۔ اتنے کم وقت میں اس حکومت نے کم از کم کرپشن کے حوالے سے جو اقدامات اور اعلانات کئے ہیں اس میں اوپر سے نیچے تک کرپشن کے حوالے سے ایک واضح پیغام کامیابی کے ساتھ ٹریکل ڈائون ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور وہ یہ کہ ماضی میں جو ہو گیا سو ہو گیا‘ اب کرپشن‘ دھوکہ دہی اور سفارش بالکل نہیں چلے گی اور ہر کام میرٹ پر ہو گا۔ آپ ڈرائیونگ لائسنس کی ہی مثال لے لیں۔ پاکستان جیسے ملک میں ڈرائیونگ لائسنس بنوانا دنیا بھر سے زیادہ آسان شمار کیا جاتا تھا۔ لائسنس کے حصول کے لئے نہ تو لازمی ڈرائیونگ ٹیسٹ دینا پڑتا تھا اور نہ ہی کوئی ٹریفک کے نشانات اور اصولوں کی پروا کرتا تھا۔ جس نے لائسنس بنوانا ہوتا تھا وہ کسی کو بھیج کر کاغذ جمع کرا دیتا اور صرف تصویر کھنچوانے کے موقع پر متعلقہ سنٹر جاتا اور یوں سفارش یا ایجنٹوں کی مٹھی گرم کرنے سے لائسنس بن جاتا۔ حتیٰ کہ بااثر اور حکومتی شخصیات کے لئے تو ٹریفک پولیس کمپیوٹر لے کر ان کے دفتر یا گھر پہنچ جاتی اور وہیں ان کی تصویر اور انگوٹھے کے نشانات وغیرہ لے لئے جاتے لیکن آج یہ سب نہیں ہوتا اور میں خود اس کا عینی شاہد ہوں۔ پچھلے کئی دنوں سے ایک صاحب مجھ سے یہ تقاضا کر رہے تھے کہ میں ان کے دو بھانجوں کا لائسنس بنوا دوں۔ وہ چاہتے تھے کہ اس کے لئے نہ تو ان سے ڈرائیونگ ٹیسٹ لیا جائے اور نہ ہی ٹریفک نشانات کے حوالے سے کچھ پوچھا جائے۔ میں نے انہیں بہت سمجھایا کہ اب سب محتاط ہو چکے ہیں اور کوئی بھی کسی کی سفارش نہیں مانتا لیکن اس کا کہنا تھا کہ اب بھی سب کچھ چلتا ہے آپ بات تو کرکے دیکھیں۔ میں نے ایک دو کرائم رپورٹرز کو فون کرکے معاملہ ان کے گوش گزار کیا۔ آپ یقین کریں سبھی کا یہ کہنا تھا کہ یہ جو نئے سی ٹی او صاحب آئے ہیں انہوں نے تمام سنٹرز کو احکامات دئیے ہوئے ہیں کہ کسی کا بھی لائسنس بناتے وقت سفارش یا دبائو قبول نہ کیا جائے اور تمام کام میرٹ پر مکمل کیا جائے۔ میں نے اپنے دوست کو بتایا کہ سب نے ہاتھ کھڑے کر دئیے ہیں لیکن وہ بضد رہا۔ میں نے اسے ساتھ لیا اور ہم ایک ٹریفک سنٹر جا پہنچے۔ وارڈن کو ایک طرف بلایا اور پوچھا کہ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ جس سے ٹیسٹ دئیے بغیر لائسنس بن جائے تو وارڈن نے صاف کہا کہ پہلے ٹریفک کے نشانات بارے سوالات کے جواب دینا ہوں گے اور اس کے بعد ڈرائیونگ ٹیسٹ ہو گا جسے دو کیمروں سے ریکارڈ بھی کیا جائے گا۔ وہاں سے ہم باہر موجود ایجنٹوں کے پاس گئے تو انہوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر لئے اور کہا کہ وہ صرف فائل مکمل کروانے کیلئے بیٹھے ہیں اور اس کا تین چار سو روپے لیں گے لیکن لائسنس اب ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد ہی بنتا ہے۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ تمہارے بھانجوں نے لائسنس اگر گاڑی چلانے کے لئے بنوانا ہے تو اس میں ڈر کیسا ہے‘ انہیں گاڑی چلا کر دکھا دو لائسنس بن جائے گا۔ میرے دوست کو سمجھ آ گئی کہ اب کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
میں نے سوچا ہم لوگ اپنے ملک میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے سفارشیں ڈھونڈتے ہیں اور ساتھ میں ملک کو دبئی‘ لندن اور نیویارک جیسا بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ دبئی کو ہی دیکھ لیں۔ دبئی میں ڈرائیونگ لائسنس کا حصول جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہر چھ مہینے کے بعد آپ کو لائسنس جاری رکھنے کے لئے دوبارہ ٹیسٹ دینا پڑتا ہے۔ مخصوص تعداد میں چالان ہو جائیں تو آپ کا لائسنس مستقل طور پر کینسل بھی ہو سکتا ہے اور پھر بھی گاڑی سڑک پر لے آئیں تو آپ کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اگر آپ اپنی گاڑی گندی رکھتے ہیں اور سڑک پر لے آتے ہیں تو آپ کو دو سو ریال تک چالان ہوتا ہے۔ گاڑی دھلوانے کے لئے بھی مقامات متعین ہیں۔ آپ خود سے گاڑی دھو کر سڑک پر نہیں لا سکتے۔ یہ دبئی ایسے ہی دبئی نہیں بنا کہ رات کے دو بجے بھی سولہ برس کی لڑکی اکیلی کہیں آ جا سکتی ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ اس پر بری نظر ڈال سکے۔ یہ تو میں نے لائسنس کی ایک مثال دی ہے۔ آپ جس مرضی محکمے میں فون کر لیں۔ گاڑی کے ٹوکن ٹیکس سے لے کر زمینوں کی الاٹمنٹ تک ہر جگہ اب میرٹ لے رہا ہے ۔ آپ نے نئی ہائوسنگ سوسائٹی بنانی ہو‘ نقشہ پاس کرانا ہو‘ نیا کاروبار رجسٹر کرانا ہو‘ فرد نکلوانی ہو‘ ہر جگہ آپ کو ایک ہی جواب ملے گا کہ سسٹم کے تحت کام ہو گا اور جن لوگوں کو پرانی عادتیں پڑی ہوئی ہیں اگر وہ کوئی ہینکی پینکی کرنے کی کوشش کریں گے تو ان کے ساتھ بیٹھا ہی ان کی شکایت لگا کر انہیں اندر کروا دے گا۔ سوشل میڈیا نے الگ سے معاشرے کو ٹائٹ کر رکھا ہے۔ کوئی طاقتور کسی کمزور سے زیادتی کرتا ہے اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پہنچ جاتی ہے تو حکومت‘ نیب اور سپریم کورٹ میں سے کسی نہ کسی کے شکنجے میں پھنس جاتا ہے؛ چنانچہ آج عمران خان کی حکومت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اوپر بیٹھے حکمران اگر یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ سفارش‘ دبائو اور رشوت کے کلچر کو نہیں مانیں گے اور ہر کام ایک نظام‘ ایک قاعدے اور اصول کے تحت ہو گا تو اس سے نہ صرف ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو گا بلکہ اس کے اثرات اوپر سے شروع ہو کر نیچے ایک ریڑھی بان تک آئیں گے اور وہ دس روپے کی کرپشن کرتے ہوئے بھی سو مرتبہ سوچے گا۔
شوکت عزیز کی ٹریکل ڈائون پالیسی تو اپنا اثر نہ دکھا سکی تھی لیکن وزیراعظم عمران خان کی کرپشن روکنے کی مہم کے اثرات چند ماہ میں ہی ٹریکل ڈائون ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جہاں تک معیشت کو سنبھالا دینے کی بات ہے تو کرپشن میں کمی کے اثرات آہستہ آہستہ لامحالہ معیشت پر بھی اثر انداز ہوں گے‘ ہر محکمے اور ہر منصوبے میں شفافیت آنے سے اندرونی و بیرونی سرمایہ کار کا اعتماد بحال ہو گا‘ اور جب ہر شخص اور ہر ادارہ اپنا کام میرٹ پر کر رہا ہو گا تو پھر عوام کے ٹیکسوں کی ایک ایک پائی اپنی اصل جگہ پر لگے گی جس سے ستر برس سے زنگ آلود معیشت کی یہ گاڑی بالآخر حرکت کرنے لگے گی اور ایک بار یہ گاڑی چل پڑی تو پھر اس کی رفتار تیز کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔