ہم میں سے اکثر لوگ ویک اَپ کال کا مطلب نہیں سمجھتے۔
تیس پینتیس برس قبل جب پاکستان میں کمپیوٹر کا رواج عام نہیں تھا تو زیادہ تر اخبارات و جرائد میں کتابت ہاتھ سے ہوتی تھی۔ کمپیوٹر آیا تو بڑے اخبارات نے اردو پبلشنگ سسٹم بنوایا اور سرخیاں اور تفصیل لکھنے کا جو کام کاتب کرتے تھے‘ اس کی جگہ کمپیوٹر اور ٹائپسٹ نے لے لی۔ اس دور میں اخبارات بہت کم تھے اور اس کی ایک وجہ کاتبوں کی کمی تھی۔ آپ پورے پاکستان میں اچھے خطاط اور کاتبوں کو ہاتھ کی انگلیوں پر گن سکتے تھے۔ ان میں ایسے بھی تھے جن کی پوری زندگی اسی فن میں گزری۔ اخبارات‘ رسائل و جرائد سب ان کے محتاج تھے اور وہ جس کو چاہتے اپنی مرضی کے مطابق کام کر کے دیتے۔ کمپیوٹر آیا تو اردو سافٹ ویئر بھی ایجاد ہو گیا۔ پرنٹ میڈیا میں کاتبوں کی جگہ ٹائپسٹوں نے لے لی اور کاتب بیروزگاری کی دلدل میں اترنے لگے۔ زیادہ تر کاتب عمر کے اس حصے میں تھے کہ ان کیلئے کمپیوٹر سیکھنا آسان نہ تھا جبکہ کئی ایک کمپیوٹر کو کوسنے اور طعنے دینے لگے؛ تاہم جو صفحہ ایک کاتب ایک گھنٹے میں لکھتا‘ کمپیوٹر سے وہی تحریر دس منٹ میں ٹائپ ہونے لگی۔ طرح طرح کے نئے فونٹ بھی آ گئے۔ کورل ڈرا اور فوٹو شاپ سافٹ ویئرز نے ڈیزائننگ کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور اخبارات کے کلر پیج اور لیڈیں‘ سب کام کمپیوٹر پر ہونے لگا۔ جن کاتبوں نے کمپیوٹر سیکھ لیا ‘ان کا تو روزگار بچ گیا لیکن جو کاتب کمپیوٹر کو کوستے رہے اور اخباری مالکان کو برا بھلا کہتے رہے‘ ان کا روزگار چھوٹ گیا اور نوبت فاقوں تک آ گئی۔ یہ لوگ ویک اَپ کال کا مطلب نہیں سمجھے تھے۔ قدرت نے ہر چیز اور ہر نظام کو وقت مقررہ کے لئے بنایا ہے۔ کچھ دیر بعد ایک نئی چیز ایک نیا نظام اس کی جگہ لے لیتا ہے۔بظاہر اس میں بحران دکھائی دیتا ہے لیکن وہ وقتی اور عارضی ہوتا ہے۔ آپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں‘جب تک کمپیوٹر نہیں آیا تھا پاکستان میں اخبارات‘ جرائد اور رسائل کی تعداد چند سو بھی نہ تھی‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ کام وقت کے ساتھ ساتھ اضافی سرمائے کا بھی متقاضی تھا۔ ہر کام مینوئل طریقے سے ہوتا تھا'پلیٹیں مینوئل لگتی تھیں‘ فور کلر صفحہ نکالنا پورا درد سر ہوتا۔ کاپی پیسٹر انتہائی طویل اور باریک عمل کے ذریعے کاپی کو پریس میں چھپنے کے لئے بھیجنے کی خاطر تیار کرتا۔ کمپیوٹر نے یہ سارے جھنجٹ ختم کر دئیے۔ پورے کے پورے اخبار کی ایک پی ڈی ایف فائل بننے لگی جو انٹرنیٹ سے چند سیکنڈ میں سیدھی پریس میں جانے لگی ‘ جس کے بعد اس کی پلیٹیں بننے اور چھپائی میں چند منٹ لگتے۔ کاتبوں کی جگہ اردو پروگرام اِن پیج نے لے لی جو بازار سے بیس روپے کی سی ڈی میں عام ملنے لگا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ٹائپنگ اور کمپیوٹر سے انڈسٹری کو نقصان پہنچا یا فائدہ؟ اس کا اندازہ آپ کمپیوٹر اور اردو پروگرام کے عام ہونے کے بعد شائع ہونے والے اخبارات و جرائد کی تعداد سے لگا لیجئے۔ تنہا کراچی میں صبح اور شام کے ملا کر سات سو چھوٹے بڑے اخبارات ‘جرائد و رسائل شائع ہو رہے ہیں۔ لاہور میں بھی یہ تعداد سینکڑوں میں ہے۔کمپیوٹر آنے سے قبل اگر کاتبوں کی کل تعداد دو سو تھی تو کمپیوٹر اردو پروگرام کے بعد ٹائپسٹوں کی تعداد ہزاروں میں جا پہنچی۔ زیادہ تر کاتبوں کے بچوں نے ہی کمپیوٹر اور ٹائپنگ سیکھی اور سیدھا اخبار میں جا بیٹھے۔ اخبارات کی تعداد بڑھنے سے کئی طرح کے کاروباروں کو فائدہ پہنچا اور پرنٹ میڈیا میں بزنس کا حجم بھی کئی گنا بڑھ گیا۔ کمپیوٹر کی وجہ سے ہر کام تیزی سے ہونے لگا جس کی وجہ سے اخبارات کے لئے نئے سٹیشنز نکالنا آسان ہو گیا اور رات کے آخری پہر تک آنے والی خبر سے مزین تازہ اخبار دور دراز جگہوں پر جانے لگا۔ اس سے قبل ڈاک کی کاپیاں شام سے قبل ہی مکمل کرنا پڑتیں یا پھر ان کا رواج عام نہ تھا لیکن کمپیوٹر اور اردو پروگرام کے آنے سے گویا کایا ہی پلٹ گئی۔
اب ہم میڈیا انڈسٹری کے موجودہ بحران کی طرف آتے ہیں۔بظاہر یہ تاثر سامنے آ رہا ہے کہ میڈیا سے جبری برطرفیاں حکومت کی جانب سے اشتہاروں کی مد میں کٹوتی کا نتیجہ ہیں لیکن اس میں حقیقت پانچ فیصد سے زیادہ نہیں۔ اگر حکومت میڈیا پر کٹ نہ بھی لگاتی اور سابق دور کی طرح اندھا دھند ریوڑیاں بانٹتی رہتی تب بھی یہ صورتحال سامنے آنا ہی تھی۔
اس کی وجہ وہ ویک اَپ کال ہے جو ہمارے بیروزگار نوجوان اسی طرح نہیں سمجھ رہے جیسے تیس چالیس برس قبل کچھ کاتب نہیں سمجھے تھے۔ اس وقت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ بھی ایک میڈیا وجود میں آ چکا ہے اور وہ ویب اور سوشل میڈیا ہے۔ آج امریکہ جیسا ملک یہ ماننے پر مجبور ہے کہ ویب اور سوشل میڈیا اتنا بڑا پلیٹ فارم بن چکا ہے کہ پرنٹ او ر الیکٹرانک میڈیا اس سے بیس فیصد خبریں لینے پر مجبور ہیں اور یہ بھی سن لیں کہ میڈیا انڈسٹری کے حالات صرف پاکستان میں ہی خراب نہیں بلکہ گارڈین جیسے کئی معروف اخباروں کی ویب سائٹس پر ادارہ چلانے کے لئے باقاعدہ چندے کی اپیلیں کی جاتی ہیں۔اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو آپ دی گارڈین کی ویب سائٹ پر جا کر دیکھ سکتے ہیں جہاں انہوں نے باقاعدہ پانچ‘ دس اور بیس ڈالر کے ڈونیشن کی اپیل کا لنک دیا ہوا ہے۔ وہاں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے دنیا بھر سے انہیں اخبار چلانے کے لئے ڈونیشن دیے ہیں۔اب مسابقت اتنی بڑھ چکی ہے کہ میڈیا پہلے کی طرح منافع بخش نہیں رہے۔ چنانچہ بیروزگاری کے دبائو میں آ کر غلط قدم اٹھانے یا پچھتانے سے بہتر ہے کہ قدرت کی ویک اَپ کال کو سمجھا جائے ۔اگر ایک دروازہ بند ہوا ہے تو قدرت نے یوٹیوب‘ گوگل ایڈ سینس اور فیس بک تشہیری پروگراموں کی شکل میں کئی نئے دروازے بھی تو کھول دیئے ہیں اور اگر آپ کو یہ پتہ لگ جائے کہ میاں چنوں‘ ڈسکہ یا میر پور کے ایک گھر کے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھا ایک نوجوان یوٹیوب پر معلوماتی یا تفریحی چینل بنا کر اس سے کتنے پیسے کما رہا ہے تو آپ کے ہوش اڑ جائیں گے۔ سادہ سا فارمولا یہ ہے کہ اگر کسی ویڈیو کو ایک ہزار لوگوں نے دیکھا ہے تو اس چینل کو اس ویڈیو سے ایک ڈالر ملا ہو گا۔ یو ٹیوب نے ایک سال قبل پاکستان کے لئے مونیٹائزیشن یعنی پیسے کمانے کا دروازہ کھولا تھا۔ اس وقت سے اب تک سینکڑوں پاکستان اس پر تفریحی‘ معلوماتی اور تجزیاتی چینل بنا چکے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق پانچ برس بعد دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی گھروں سے ٹی وی کیبل اتروا چکی ہو گی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹی وی پر آپ وہ دیکھتے ہیں جو ٹی وی آپ کو دکھانا چاہتا ہے جبکہ یوٹیوب پر آپ وہ دیکھتے ہیں جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ آپ کے ٹرینڈز اور پسند کو مدنظر رکھ کر آپ کیلئے ویڈیوز سامنے لاتا رہتا ہے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ یوٹیوب پر کام کرنے کے لئے کوئی تعلیمی معیار درکار نہیں بلکہ آپ اچھوتے اور نت نئے آئیڈیاز اور معیاری ویڈیوز بنا کر کمائی کر سکتے ہیں۔ دو تین لوگ مل کر آرام سے معیاری چینل چلا سکتے ہیں جس کے صارفین پوری دنیا کے اربوں لوگ ہوں گے۔ اس کے لئے کوئی مہنگے لائسنس بھی درکار نہیں۔ صرف ایک کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ اور صلاحیت چاہیے ہوتی ہے جس سے مہینے کے بیس ہزار کی بجائے بیس لاکھ بھی کمائے جا سکتے ہیں۔اسی طرح فیس بک نے بھی تشہری پروگرام شروع کر دیا ہے اور آپ کے بلاگز اور ویڈیوز پر آپ کو پیسے حاصل ہوتے ہیں۔میں اس موضوع پر لکھتا رہوں تو دس قسطیں بھی ناکافی ہوں گی لہٰذا بات صرف اتنی سمجھانا مقصود ہے کہ چاہے کوئی بیروزگار صحافی ہو یا عام بیروزگار نوجوان‘ سب کے لئے کمائی اور کیریئر کے مواقع اور راستے اب بدل رہے ہیں اور جو ان نئے راستوں پر چلنے کی بجائے صرف واویلا کرنا چاہتا ہے‘جو دس لاکھ روزانہ کمانے کی بجائے دس ہزار ماہانہ کی نوکری کرنے پر ہی مصر ہے تو وہ وقت کی ویک اَپ کال تلے اس طرح روندا جائے گا کہ اسے پچھتانے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔