بجلی چوری روکنے کے لیے جہاں وزیر اعظم کا دبنگ اعلان سامنے آیا ہے وہیں مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کے عمران خان کے نام سرمایہ کاری کے خط نے بھی دھوم مچا رکھی ہے۔ گزشتہ ایک دو ہفتوں سے شدید دھند کے باعث چند علاقوں میں بجلی کا شارٹ فال ہوا تو وزیراعظم نے فوری نوٹس لیتے ہوئے کابینہ کا اجلاس طلب کیا اور ہدایات جاری کیں کہ فوری طور پر گیس کی کمی پوری کی جائے۔ ساتھ ہی بجلی چوروں کے خلاف مہم تیز کرنے کا حکم دیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں ایک سو بیس ارب روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے جس میں عام کنڈا ڈالنے والی جھگیوں سے لے کر فیکٹریوں اور ملوں کے مالکان تک سبھی ملوث ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا محکمے کے سرکاری عملے کے ملوث ہوئے بغیر بجلی چوری کی جا سکتی ہے اور اگر نوے فیصد چوری میں بجلی افسران و اہلکار ملوث ہیں تو پھر حکومت کو ایسے کیا اقدامات کرنے چاہئیں جن سے ان افسران اور اہلکاروں کی کرپشن آشکار ہو سکے‘ کیونکہ ممکن ہی نہیں کہ کسی ایسے گھر کے گرمیوں کے بل میں ماہانہ صرف تیس چالیس یونٹ آ رہے ہوں جس میں دو تین ایئرکنڈیشنر بھی چلتے ہوں اور متعلقہ سب ڈویژن کے میٹر انسپکٹر سے لے کر ایس ڈی او تک کو اس کا علم نہ ہو۔ اتنا تو دس برس کا بچہ بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے کیونکہ بجلی کے ہر بل میں پورے سال کی ادائیگی‘ یونٹس اور بل کی تفصیل ہوتی ہے۔ اسے دیکھنے پر چند سیکنڈ میں معلوم ہو جاتا ہے کہ اس میٹر کے ساتھ سلوک کیا ہو رہا ہے۔ اگر کسی گھر میں ایک اے سی بھی لگا ہو اور اسے رات کو آٹھ گھنٹے اور دن میں دو گھنٹے بھی چلایا جائے تو اس کا بل آٹھ ہزار روپے سے کم نہیں آ سکتا‘ لیکن اگر آپ کو کسی ایسے گھر کا بل ملے جس میں ایک یا ایک سے زیادہ ایئرکنڈیشنر لگے ہوں لیکن اس کا گرمیوں کا بل دو اڑھائی ہزار سے زیادہ نہ آتا ہو تو سمجھ جائیں اس گھر کے مالک کا میٹر ریڈر کے ساتھ یارانہ چل رہا ہے۔ ہم فیکٹری یا بڑی ملز نہیں بلکہ ایک عام چھوٹے گھر کی بات کررہے ہیں اور اس یارانے کی وجہ سے گھر کا مالک چوبیس گھنٹے نہیں تو سولہ سے اٹھارہ گھنٹے اے سی ضرور چلائے گا کیونکہ جب اس کا بل ہی دو اڑھائی ہزار پر فکس ہو چکا ہے تو اسے کیا پڑی ہے کہ بچت کرتا پھرے۔ چنانچہ اگر اس یارانے سے ہونے والے سرکاری نقصان کا اندازہ لگائیں تو معلوم ہو گا کہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے ڈیڑھ ٹن کا اے سی چلنے سے اگر مہینے کے بارہ سو یونٹ آتے ہوں جبکہ بجلی چور مالک صرف دو سو یونٹ کی ادائیگی کر رہا ہو‘ تو ایسے ہر گھر سے ایک ہزار یونٹ کی بجلی چوری کی جا رہی ہے۔ ایسے یارانوں کے باعث بہت سے میٹر ریڈروں کی زندگیاں بدل چکی ہیں۔ ان کی تنخواہ تو صرف تیس چالیس ہزار ہوتی ہو گی لیکن اوپر کی کمائی سے یہ ٹھاٹھ کی زندگی گزارتے ہیں اور رشتہ داروں کے نام پر بنگلے اور گاڑیاں خرید لیتے ہیں۔ کمائی کا کچھ حصہ یہ ایس ڈی او اور دیگر افسران و اہلکاروں کو بھی دیتے ہیں لیکن ایس ڈی او ایکسیئن وغیرہ کی اصل کمائی فیکٹری یا بڑی ملوں سے آتی ہے۔ اسی لیے ہر کرپٹ ایس ڈی او کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی پوسٹنگ کچھ وقت کے لیے فیکٹری ایریا میں ہو جائے۔ فیکٹریوں میں صرف بجلی ہی نہیں بلکہ گیس کا استعمال بھی عام صارفین سے کئی ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے جہاں لیسکو کے افسران کی موجیں لگ جاتی ہیں وہیں سوئی ناردرن والے بھی اَنھی مچا دیتے ہیں۔ ایسے علاقوں میں اگر کسی ایس ڈی او کی پوسٹنگ صرف دس ماہ کے لیے بھی ہو جائے تو وہ اتنے پیسے ''کما‘‘ لیتا ہے کہ اگلے بیس سال کا خرچ نکل آتا ہے۔ عام گھروں کے برعکس فیکٹریوں اور ملوں کا ماہانہ بل کروڑوں میں آتا ہے؛ چنانچہ اگر ایس ڈی او پانچ کروڑ کا بل ایک کروڑ ظاہر کرکے خود ماہانہ ایک کروڑ بھی وصول کرے تو فیکٹری مالک کو تین کروڑ کی بچت ہو گی اور اگر صرف ایسی دس فیکٹریوں کے ساتھ یہ یارانہ طے پائے تو دس ماہ میں اکیلا ایس ڈی او دس کروڑ کما لیتا ہے اور قومی خزانے کو پچاس ساٹھ کروڑ کا چونا لگا دیتا ہے۔ بجلی چوری کی کئی دیگر اقسام بھی ہیں جیسے میٹر کو آگ لگانا‘ میٹر ریورس اور سلو کرنا‘ کمرشل میٹر پر ڈومیسٹک یا سرکاری لوڈ لاگو کرنا وغیرہ؛ چنانچہ حکومت نے اگر بجلی چوری کے خلاف مہم شروع کر دی ہے تو پھر اسے اصل کھرا پکڑنا ہو گا۔ بجلی چوروں کو پکڑنا کافی نہیں‘ جب تک بجلی چوری کروانے والے اندر نہیں ہوں گے تب تک بجلی چوری روکنا ممکن نہیں اور بجلی چور چند افسران اور اہلکار نہیں بلکہ یہ پورا مافیا بن چکا ہے جو ایک منظم نیٹ ورک کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک جتنے بھی بجلی چور پکڑے گئے ہیں‘ ان میں کبھی بھی واپڈا یا لیسکو اہلکار یا افسران کو سزا نہیں ہوئی اور اگر ہوئی ہو گی تو ایسے اِکا دُکا کیسوں میں جہاں کوئی اہلکار افسران سے بالا بالا کام ڈال رہا ہو گا۔ حکومت نیب اور اینٹی کرپشن کے ذریعے ایک نوٹس جاری کرے‘ جس میں کہا جائے کہ جس علاقے سے بجلی چوری کی کوئی رپورٹ سامنے آئی تو اس علاقے کے ایس ڈی او اور ایکسیئن کو گرفتار کر لیا جائے گا اور ساتھ ہی عوام کے لیے ایک موبائل ایپ بنائی جائے جس میں وہ شکایت درج کرا سکیں اور اپنے محلے میں جن گھروں میں انہیں شک ہو کہ بل بہت کم آ رہا ہے یا ادائیگی کے بغیر بھی میٹر چل رہا ہے اس کا پتا‘ تصویر‘ میٹر نمبر یا ریفرنس نمبر کے ساتھ اس موبائل ایپلی کیشن میں ڈال دیں اور سب ڈویژن کا نام لکھ دیں۔ اس موبائل ایپ میں آنے والی شکایات کی نگرانی اور عمل درآمد کے لیے وزیر اعظم خصوصی ٹاسک فورس بنائیں جو ہفتہ وار اور ماہانہ بنیادوں پر انہیں رپورٹ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت بڑی فیکٹریوں‘ ہوٹلوں‘ ملوں‘ نجی ہسپتالوں‘ بینکوں‘ کارخانوں اور شاپنگ پلازوںکے ماضی کے کم از کم دس برسوں کی ادائیگیوں کا ریکارڈ طلب کرے اور خصوصی ٹیموں کے ذریعے ان کے بجلی کے لوڈ وغیرہ کا آڈٹ کرائے اور جہاں کہیں عدم توازن نظر آ ئے وہاں نہ صرف اس عمارت کی بجلی منقطع کر دی جائے اور بھاری جرمانہ و سزا دی جائے بلکہ اس علاقے میں گزشتہ دس برسوں میں تعینات ایس ڈی او‘ ایکسیئن‘ ایس ای اور اس سے اوپر کے افسران کو بھی کٹہرے میں لایا جائے‘ ان کی ماہانہ تنخواہوں اور ان کے اثاثوں کا موازنہ کیا جائے اور جس جس نے قومی خزانے کو لوٹا ہے اسے شکنجے میں لایا جائے۔ یہی کام سوئی ناردرن گیس کے افسران کے ساتھ کیا جائے کیونکہ بجلی و گیس چوروں کی سرپرستی کرنے والوں کا خمیازہ عام افراد اور گھرانوں کو بھگتنا پڑتا ہے اور چوری ہونے والی بجلی کی لاگت بھی ان کے بلوں میں مختلف ٹیکسوں اور بجلی کی اضافی قیمت کی شکل میں عائد کر دی جاتی ہے۔
کرپشن کے خلاف جاری اسی جنگ کا نتیجہ ہے کہ بل گیٹس جیسے لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں‘ جس سے پاکستان واقعتاً بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔ وگرنہ بل گیٹس جیسے شخص کو کیا پڑی تھی کہ وہ دنیا کے دوسو ملک چھوڑ کر پاکستان کا رخ کرتا۔ بل گیٹس جیسے لوگ جو دنیا کے ڈیڑھ سو ممالک کو خریدنے کی سکت رکھتے ہیں‘ غالباً پاکستان میں اگر کوئی انہیں چارم نظر آیا ہے تو وہ عمران خان اور ان کا کرپشن کے خلاف عزم ہے۔ ویسے تو پاناما پر نواز شریف کی برطرفی اور جیل میں جانا ہی کرپشن مافیا کے خلاف کامیابی کا بڑا ثبوت تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اس مہم میں تیزی آ رہی ہے۔ پاکستان میں گریجوایٹ نوجوانوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور بل گیٹس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں سرمایہ کاری کر کے اس فوج سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس میں جو اسلام آباد نیشنل یونیورسٹی بنی ہے اسے بھی بل گیٹس کے تعاون سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بڑی یونیورسٹی بنایا جا سکتا ہے۔ اگلے چند ہفتوں میں چند ایسی بڑی عالمی کمپنیاں پاکستان کا رُخ کرنے والی ہیں جن سے بھارت اور بھارت نواز سیاسی جماعتوں کو شدید مرچیں لگنے کا اندیشہ ہے۔ ان کا ذکر انشاء اللہ آئندہ کالموں میں۔