سمن آباد جس کا شمار کبھی لاہور کی پرسکون اور صاف ستھری آبادی میں ہوتا تھا‘ اب غیر ضروری کمرشلائزیشن اور ٹریفک کے ہیجان کے باعث علاقہ غیر میں تبدیل ہو چکا ہے اور اس کی بنیادی وجہ استعمال شدہ گاڑیوں کی خریدو فروخت کرنے والے وہ کار ڈیلر ہیں جنہوں نے سمن آباد موڑ سے لے کر سمن آباد گول چکر تک مین روڈ پر موجود رہائشی عمارتوں کو پرانی گاڑیوں کے کھنڈروں اور جنجال پورہ میں تبدیل کر دیا ہے ۔ خداکی پناہ ہے سینکڑوں کی تعداد میں گھرگاڑیوں کے شو رومو ں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور جن لوگوں کی مین روڈ پر کوٹھیاں تھیں ان کی زندگی مکمل عذاب بنا دی گئی ہے۔ شہریوں کوپورے ہفتے کے بعد اتوار کا ایک دن چھٹی اور سکون کے لئے ملتا ہے لیکن اس روز سمن آباد کی مین روڈنو گوایریا بن جاتی ہے اور وہ اپنے گھروں میں محصور ہو نے پر مجبور ہوتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ وہاں ٹریفک وارڈنز کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے ‘لیکن وارڈن وہاں کیا کریں گے کہ جب تاجر اپنے شو روموں کے سامنے موجود بیس فٹ کی سروس روڈ پر بھی اپنی گاڑیاں لگا لیں گے جہاں سے لوگوں کے لئے پیدل گزرنا بھی محال ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اسی بے ہنگم زندگی کے باعث اپنے گھر اونے پونے داموں بیچنے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔یہ بھی تاجروں کی ایک چال تھی جس کے باعث وہ ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا گھر خریدتے چلے گئے۔سمن آباد موڑ سے اورنج ٹرین کا ٹریک گزر رہا ہے اور گلشن راوی اور ملتان روڈ سے ٹریفک کا ایک بڑا حصہ اقبال ٹائون جانے کے لئے سمن آباد سے گزرتا ہے لیکن گاڑیوں کے جنجال کے باعث منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ اتوار کے روز بھی درجنوں وارڈنز یہاں تعینات کرنا پڑتے ہیں لیکن صورتحال قابو میں نہیں آتی۔
سمن آباد کی موجودہ حالت کو دیکھ کر یہاں گزرا ہوا بچپن اور وہ پندرہ سولہ برس یاد آتے ہیں جب یہاں ہر جانب سکون کا بسیرا تھا ‘ خوبصورت باغات تھے اور ان کی دیکھ بھال بھی ہوتی تھی۔ اب یہ باغات بھی اجڑ گئے ہیں اور مقامی آبادی کا بھی کوئی پرسانِ حال نہیں رہا ۔ سمن آباد ماڈل ٹائون کی طرز پر بڑی خوبصورتی سے ڈیزائن کیا گیا علاقہ تھا‘ جس کے چاروں طرف رِنگ روڈ کی طرز پر ایک سڑک مستطیل کی شکل میں موجود ہے‘ لیکن بدقسمتی سے یہ سڑک اکثر جام رہتی ہے کہ اس کی ایک جانب شادی ہال اور بینکوں کی بھرمار ہے‘ دوسری جانب باربی کیو اور برگر والی دکانوں نے قبضہ کر رکھا ہے جبکہ دو اڑھائی کلومیٹر کی مین روڈ کارڈیلرز کے نرغے میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مچھلی منڈی شہر سے باہر منتقل کی جا سکتی ہے‘ بھینسیں اور مویشی منڈی باہر نکالی جا سکتی ہیں تو پھر کار تجاوزات کے اس گڑھ کو غیر قانونی قرار دینے اور شہر سے باہر منتقل کرنے میںکیا مضائقہ ہے؟ اگر تو کارڈیلرشو روم کے اندر گاڑیاں کھڑی کر کے کاروبار کرتے تو اور بات تھی لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ جس شخص نے گاڑی خریدنے آنا ہے وہ گاڑی کہاں کھڑی کرے گا؟ کیا ایل ڈی اے یامحکمہ ایکسائز نے اس کے لئے کوئی جگہ یا پلان مختص کیا؟ اگر کیا تو وہ جگہ اور پلان کہاں ہے؟ جن رہائشی مکانات کو کمرشل مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دی گئی کیا اس میں تمام قانونی پہلوئوں کو مد نظر رکھا گیا؟ کسی بھی دکان سے باہر ایک انچ کا بھی کمرشل استعمال غیر قانونی ہے تو کیا مقامی تاجروں کے خلاف پوری پوری سروس روڈز بند کرنے پر کوئی کارروائی کی گئی؟ ایک چھوٹے سے تنگ علاقے میں اتنی بڑی کمرشلائزیشن ایکٹویٹی کے لئے منظوری کس نے دی اور مقامی آبادی اور راہگیروں کے مسائل پر کیا ایکشن لیا گیا‘ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب تبدیلی حکومت نے تلاش بھی کرنا ہے اور حل بھی کرنا ہے ۔ مقامی تھانے کا اس سلسلے میں کردار انتہائی پراسرار ہے کیونکہ ان کار شو رومز کے درمیان کسی بیکری کے باہر بھی کوئی شخص گاڑی کھڑی کرتا ہے تو اس کی گاڑی یہ تاجر لفٹر سے اٹھا کر تھانے بند کرا دیتے ہیں کہ یہ شخص گاڑی اپنے طور پر وہاں آنے والے گاہکوں کو فروخت کر رہا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ان کے اپنے شو رومز کے باہر خریداروں کی گاڑیاں کھڑی کرنے کی جگہ نہیں ہوتی اس لئے جہاں جہاں کوئی گاڑی کھڑی دکھائی دیتی ہے یہ مقامی تھانے کی ملی بھگت سے اسے اٹھوا دیتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شوروموں سے باقاعدہ طور پر ماہانہ نذرانے دئیے جاتے ہیں جس کے بدلے میں پولیس ان کا خاص خیال رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سارے عمل میں ریاست کی رِٹ ‘ قانون اور سب سے بڑھ کر شہری حقوق کہاں ہیں؟ مسئلہ تب بھی پیدا نہ ہوتا اگر کمرشلائزیشن کرتے وقت قوانین کا خیال رکھا جاتا ‘مثلاً :یہ کہ شو روم کا کل رقبہ اگر دس مرلے پر محیط ہے تو اس میں فروخت کیلئے گاڑیاں کھڑی کرنے کی جگہ چھ مرلہ اور کم از کم چار مرلے ان گاڑیوں کی پارکنگ کیلئے مخصوص ہوتی جن پر خریداروں نے گاڑی کا معائنہ کرنے یا خریدنے کے لئے آنا ہوتا ہے جبکہ فی الوقت تاجروں نے ایک فیصد جگہ بھی پارکنگ کیلئے نہیں چھوڑی ۔مین روڈ پر لفٹر اور پولیس کھڑی ہوتی ہے اور وہاں کوئی بھی شخص گاڑی کھڑی نہیں کر سکتا۔ کرے گا تو اسے فوری گرفتار کر کے پرچہ دے دیا جائے گا۔ یہ بھی کھلی بدمعاشی اور شہریوں کے حقوق پر ڈاکہ ہے۔ اتوار کے روز جو ہزاروں لوگ اپنی گاڑیوں پر خرید و فروخت کے لئے آتے ہیں ان کے ساتھ مقامی انتظامیہ اور پولیس کا بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ وہ سروس روڈ پر گاڑی کی جگہ ڈھونڈتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے وہاں بھی شو روم والوں کی گاڑیاں کھڑی ہیں‘ مین روڈ پر پارکنگ کی اجازت نہیں تو پھر خریدار اپنی گاڑی کہاں کھڑی کرے؟کیا وہ بیس میل دور سے پیدل آئے؟ ایل ڈی اے اور محکمہ ایکسائز کا اس سلسلے میں کیا کردار ہے یہ بھی سامنے آنا چاہیے کیونکہ اس قسم کی بے ہنگم منصوبہ بندی کی کسی طور بھی اجاز ت نہیں دی جا سکتی اور وہ بھی نئے پاکستان میں۔
گاڑیوں کے شو روم جیل روڈ اور مولانا شوکت علی روڈ پر بھی موجود ہیں لیکن وہاں کبھی بھی اس قسم کی بے قاعدگیاں نظر نہیں آئیں۔ میاں اسلم اقبال جو اب صوبائی وزیرصنعت و تجارت بھی ہیں‘ اس حلقے سے خصوصی نسبت رکھتے ہیں۔ اب جبکہ وہ اقتدار و اختیار رکھتے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ وہ فوری طور پر سمن آباد کا حسن بحال کرنے کا اعلان کریں اور تمام کار شو رومز کو شہر سے باہر کھلی جگہ پر منتقل کرنے اور وہیں پر اتوار بازار لگانے کا پابند کریں۔ شو رومز اگر یہیں برقرار رکھنے ہیں تب بھی اتوار بازار شہر سے باہر ہی منعقد کیے جائیں۔ اس کے علاوہ ہر شو روم کے اندر ہی کم از کم چالیس فیصد حصہ پر پارکنگ کی جگہ چھوڑی جائے۔ سروس روڈ پر ڈیلرز کی گاڑیاں کھڑی کرنے پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور شاپنگ اور دیگر مصروفیات کے لئے آنے والے شہریوں کو پولیس کے ذریعے ہراساں کرنے کا سلسلہ فوری بند کیا جائے۔ جو شو روم ان قوانین پر عمل نہ کریں انہیں فوری سیل کر دیا جائے۔ مقامی پولیس اور تاجروں کی ملی بھگت کو ختم کیا جائے اور پولیس کو امن و امان قائم رکھنے تک کے لئے پابند کیا جائے کیونکہ اس طرح کی کمرشل سرگرمیوں سے پولیس کے لئے رشوت کے نئے ذرائع کھلتے ہیں اور وہ اپنے اصل فرائض سے غافل ہو جاتی ہے۔ اتوار کے روز مقامی کار شو روم بند رکھے جائیں اور ڈیلروں کو پابند کیا جائے کہ اس روز وہ تمام گاڑیاں رائے ونڈ روڈ یا شہر سے باہر دیگر کھلی جگہوں پر لے جائیں اور وہاں بڑے پیمانے پر کار میلہ لگاکر فروخت کریں۔شہر کے دیگر علاقوں کے شو روم بھی وہیں مرکزی جگہ پر اتوار بازار میں اپنی گاڑیاں لائیں۔ اس سے نہ صرف مقامی تاجروں کی گاڑیوں کی فروخت میں کئی گنا اضافہ ہو گا اور حکومت کو ٹیکس حاصل ہو گا بلکہ شہریوں کو پرانی گاڑی کی خریداری اور معائنے میں کہیں زیادہ آسانی ہو گی ‘پارکنگ پر جھگڑے بھی ختم ہو جائیں گے اور سمن آباد جو کبھی پھولوں اور باغوں کی جنت کے طور پر جانا جاتا تھا‘ اپنے اصل حسن میں واپس آ جائے گا۔