اب نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں ہونے والی دہشت گردی کو کیا نام دیا جائے کہ مرنے والے مسلمان اور مارنے والا غیرمسلم تھا۔
سوشل میڈیا پر ایک ہی آواز آ رہی ہے کہ اگر ایسا کسی مسلمان نے کیا ہوتا تو اب تک پوری دنیا میں مسلمانوں کی شامت آ چکی ہوتی اور انہیں دہشت گرد ڈکلیئر کرکے جنگ شروع کر دی گئی ہوتی۔ لیکن یہاں پر اس واقعے کے پیچھے ایک گوراہے۔ وہ کسی نائٹ کلب کو نشانہ نہیں بناتا بلکہ مساجد میں موجود نہتے مسلمانوں کو خون میں نہلاتا ہے‘ اس کے باوجود اس کی اس حرکت کو کوئی مغربی ملک مذہبی رنگ یا نام نہیں دیتا۔ میں نے اس واقعے کے بعد ایک غیر ملکی چینل کی ویب سائٹ دیکھی جہاں پر یہ کہا جا رہا تھا کہ سوشل میڈیا صارفین اس ویڈیو کو شیئر نہ کریں اور ساتھ ہی فیس بک وغیرہ سے کہا جا رہا تھا کہ وہ یہ ویڈیو ڈیلیٹ کر دیں۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اگر یہ ویڈیو جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے اور ہر غیر مسلم جب یہ دیکھتا ہے کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملے کرکے انہیں شہید کرنے والا کوئی مسلمان نہیں بلکہ ایک غیر مسلم ہے تو پھر اس سے صرف اور صرف مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کی عالمی پالیسی کو گزند پہنچتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس طرح آئے روز مسلمانوں اور مسلم تنظیموں پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اور انہیں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی سے جوڑ کر دیوار سے لگایا جا رہا ہے‘ اس طرح کے واقعات کے بعد کیامجرم ثابت ہونے والے غیر مسلموں کے خلاف بھی وہی کچھ کیا جائے گا؟ ماضی کے ایسے واقعات میں جب بھی امریکہ یا کسی اور ملک میں کسی نائٹ کلب یا میوزک کنسرٹ میں فائرنگ کا واقعہ ہوتا ہے اور اس کے پیچھے کوئی امریکی ہی نکلتا ہے تو اس امریکی کو دماغی مریض بنا کر پورے واقعے پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ فرض کریں کہ امریکہ کے کسی نائٹ کلب یا کسی گرجے یا مندر پر فائرنگ کا کوئی واقعہ پیش آئے اور ملزم مسلمان ہو تو کیا اس کو بھی ذہنی مریض قرار دیا جائے گا یا پھر امریکی حکام ہڑبڑا کر اٹھیں گے اور چند ہی منٹ میں مسلمانوں کو دہشت گرد اور مذہبی اقلیتوں کا دشمن قرار دے دیں گے؟ یقینا مسلمان کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ گزشتہ دنوں بھارتی پائلٹ ابھی نندن جب پاکستانی علاقے میں گرا اور اسے ہجوم نے مارنے کی کوشش کی تو فوجی جوانوں نے اسے چھڑایا اور بحفاظت وہاں سے نکال کر لے گئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی پاکستانی پائلٹ بھارت میں گرا ہوتا اور وہ ہندوئوں کے نرغے میں آیا ہوتا تو کیا بھارتی فوجی اسے ان سے چھڑاتے؟ وہ اس وقت تک خاموش رہتے جب تک پاکستانی پائلٹ کو شہید نہ کر دیا جاتا۔ آج بھارت میں کیا ہو رہا ہے؟ آئے روز مسلمانوں کو طرح طرح کے بہانوں سے مارا جا رہا ہے۔ کوئی بھی ہجوم کبھی بھی کسی مسلمان پر پل پڑتا ہے اور الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ اس نے گائے کا گوشت کھایا تھا۔ ایسی ویڈیوز انٹرنیٹ پر موجود ہیں کہ پولیس دور کھڑی تماشا دیکھتی ہے اور مسلمان طالب علموں کو بھارتی طالب علم تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ انہیں گھسیٹتے ہوئے سڑک پر لے جاتے ہیں اور ڈنڈے‘ لاتیں اور گھونسے مار مار کر شہید کر دیتے ہیں۔ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے۔ ہر دوسرے روز کشمیری نوجوانوں‘ بہنوں اور بوڑھوں کو بے دردی سے شہید کیا جاتا ہے۔ وہاں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون بھی بند کر دئیے جاتے ہیں لیکن پوری دنیا سوئی رہتی ہے۔ آج تک کسی امریکی صدر کو اس پر ایک حرف کہنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
خدا کی پناہ‘ دو مساجد پر فائرنگ کی گئی‘ 49 افراد جاں بحق ہو گئے‘ لیکن یورپ اور امریکہ کی زبانیں گنگ رہیں۔ انہوں نے اس انداز میں مذمت نہیں کی جس طرح ایسے کسی سانحے میں مسلمان کے ملوث ہونے پر کی جاتی ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آڈرن نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: جو آج ہوا سب اس کی مذمت کرتے ہیں، بہت سی معلومات ابھی سامنے نہیں لا سکتے۔ اسے اتفاق کہیں یا پھر کچھ اور کہ بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کے بیشتر کھلاڑی بھی انہی مساجد میں موجود تھے۔ کپتان تمیم اقبال کے مطابق بنگلہ دیشی ٹیم کے کھلاڑیوں نے بھاگ کر جان بچائی۔ مسجد میں موجود ٹیم کے تمام کھلاڑی محفوظ رہے۔ مشفق الرحمان بھی حملے میں بال بال بچے۔ ممکن ہے دہشت گردوں نے بنگلہ دیشی ٹیم کے لئے ہی ان مساجد کو نشانہ بنایا ہو لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہے؛ تاہم یہی واقعہ اگر پاکستان میں ہوا ہوتا تو کیا ہوتا؟ جیسا 2009ء میں ہوا تھا جب لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر لبرٹی گول چکر کے قریب گولیوں اور راکٹوں سے حملہ کیا گیا اور اس میں سری لنکن ٹیم تو محفوظ رہی لیکن ایک عشرے کے لئے پاکستان میں کرکٹ کا انتقال ہو گیا جسے بعد ازاں پی ایس ایل جیسے مقابلوں کے ذریعے زندہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ جس طرح پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ پر اس واقعے کے بعد پابندی لگائی گئی‘ لوگ پوچھتے ہیں کیا نیوزی لینڈ میں بھی کرکٹ کے میدان بھی اسی طرح ویران ہو جائیں گے؟ کیا آئی سی سی نیوزی لینڈ کو بلیک لسٹ کرے گی‘ جہاں عام لوگوں اور کرکٹروں کی جان محفوظ نہیں رہی؟ ایسا بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ دہشت گردی کرنے والے نے پورے واقعے کی لائیو کوریج کی ہو اور یہ ویڈیو چند سیکنڈ میں پوری دنیا میں پھیل گئی ہو۔ حملہ آور اس دوران ہیلمٹ پر لگے کیمرے سے ویڈیو بناتا رہا اور انٹرنیٹ پر براہ راست دکھاتا رہا۔
میرے خیال میں نیوزی لینڈ سانحہ دراصل امریکہ کے دہشت گردی کے ڈرامے سے متاثر ہو کر رونما کیا گیا‘ جس میں مسلمانوں کو ہمیشہ دہشت گرد اور اسلام کو انتہا پسندی سے جوڑنے کی کوششیں کی گئیں‘ لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے حالات بتاتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت ابھارنے والا امریکہ ایک روز خود بھی اسی نفرت کا نشانہ بنے گا۔ امریکہ میں ایک نائن الیون کیا ہوا پورے پندرہ سولہ برس سے مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی جاری ہے۔ عراق‘ افغانستان‘ شام کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کر کے کھنڈر بنا دیا گیا‘ پاکستان میں اسی ہزار لوگ اور فوجی جوان شہید ہو گئے‘ مسلم ممالک کی اکانومی‘ جو پہلے ہی کمزور تھی‘ اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے پر مزید تباہی کا شکار ہو گئی۔ مغرب نے مسلم ممالک سے اپنا پیسہ کھینچ لیا‘ اپنے ہاں سے مسلمانوں کو ملازمتوں سے نکال دیا اور ان کی زندگی اجیرن کر دی۔ نائن الیون میں تو تین چار ہزار لوگ مرے تھے لیکن کشمیر‘ فلسطین‘ شام‘ عراق اور دیگر مسلم ممالک میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ شہید کر دئیے گئے اور آج بھی کئے جا رہے ہیں‘ لیکن اس کے بارے میں نہ اقوام متحدہ کچھ کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی یورپی اور مغربی ممالک۔
کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ 28 فروری 2019 کو امریکی ایوان نمائندگان میں امریکی سیاستدان مسٹر بینکس نے ایک قرارداد پیش کی‘ جس میں جنوبی ایشیا میں موجود مذہبی گروہوں کے انسانی حقوق اور جمہوریت کو درپیش خطرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف بنگلہ دیش اور پاکستان میں جماعت اسلامی پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا گیا‘ بلکہ امریکہ میں موجود فلاحی تنظیمیں مثلاً اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (ICNA)‘ ICNA ریلیف‘ ہیلپنگ ہینڈ فار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ اور شمالی امریکہ کی مسلم اُمہ جیسی تنظیموں کو جماعت اسلامی اور اس سے منسلک ذیلی تنظیموں کے ساتھ روابط اور فنڈنگ پر پابندی کے دائرے میں لانے کی تجویز بھی دی گئی۔ یہ قرارداد منظور ہو گئی تو امریکہ میں اسلامی فلاحی تنظیموں پر پابندی لگ جائے گی جبکہ بنگلہ دیش اور پاکستان میں اس مذہبی جماعت کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ قرارداد میں بنگلہ دیش میں پیش آمدہ لرزہ خیز واقعات کا ذمہ دار جماعت اسلامی کو قرار دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ یہ جماعت ہندو‘ بدھسٹ اور مسیحی اقلیتوں کی آزادی کے خلاف ہے۔ میرے خیال میں اس قرارداد کے پیچھے امریکی مقاصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمانوں‘ مسلم ممالک اور مسلم تنظیموں کے گرد گھیرا مزید تنگ کیا جائے اور صرف مسلمان ہونا ہی ان کیلئے سب سے بڑا جرم بنا دیا جائے۔ گویا یہ جنگ دہشت گردی کے نہیں بلکہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ہے۔ ایسی قراردادیں آگ میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف پھیلائی گئی نفرت کی آگ سے خود امریکہ بھی محفوظ نہیں رہے گا کیونکہ ہاتھ سے لگائی گئی گرہیں کئی مرتبہ دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔