مردان میں گزشتہ روز پولیس کو ایک عجیب درخواست موصول ہوئی۔ بیوی کی جانب سے اپنے شوہر کیخلاف درخواست میں کہا گیا تھا کہ وہ رات بھر موبائل استعمال کرتا رہتا ہے اور مختلف ویڈیو ایپلی کیشنز پر غیر لڑکیوں سے باتیں بھی کرتا ہے۔ پولیس نے شوہر کو گرفتار کرلیا۔
ایک عام انسان اوسطاً چار سے آٹھ گھنٹے روزانہ موبائل استعمال کرتا ہے۔ ہم دیگر نشوں اور جرائم کو رو رہے تھے کہ موبائل فون کے کثرت استعمال کا نشہ اور مقدمہ سامنے آ گیا۔ بچے اور جوان کیا‘ خواتین اور بوڑھے بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ کتب بینی تو پہلے ہی کم ہو چکی اب لکھنا لکھانا بھی ختم ہو چکا۔ خود سوچیں آخری مرتبہ آپ نے قلم کب استعمال کیا تھا۔ زمانہ طالب علمی میں؟ ہر کوئی کی بورڈ پر انگلیاں مار رہا ہے یا پھر موبائل پر۔ اب تو موبائل فون میں یہ سہولت بھی آ چکی ہے کہ آپ جو بولتے ہیں وہ سکرین پر لکھا جاتا ہے۔ یہ سہولت ہے یا مصیبت اس کا پتا اس وقت چلتا ہے جب مردان جیسی خبریں آتی ہیں۔ گاڑی چلاتے‘ لفٹ میں‘ راہ چلتے‘ کھانے کے دوران حتیٰ کہ تفریحی مقامات کی سیر کے دوران بھی موبائل فون جان نہیں چھوڑتا۔ اس وجہ سے نفسیاتی عارضے اور بے خوابی کی شکایات بڑھنے لگی ہیں۔ ہر کوئی بلا وجہ اپنے آپ کو اہم ترین سمجھنے لگا ہے اور موبائل فون کی ٹوں ہونے پر فوراً موبائل اٹھاتا ہے اور دیکھتا ہے اسے کس نے لائیک کیا‘ کس نے اس کی پوسٹ کو شیئر کیا یا کس نے فرینڈ ریکویسٹ بھیجی۔ آگے سے پتا چلتا ہے کہ کسی تھکے ہوئے گروپ میں کسی نے اپنی کوئی چیز شیئر کی ہے جس کا اس سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ یہ سب کرتے ہوئے کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے گھر میں کوئی بیمار ماں بھی ہے‘ اس کے پیارے بیوی بچے بھی جن کو اسے وقت دینا ہے۔ اگر کوئی طالب علم ہے تو اس نے کتاب کھول کر اس میں موبائل فون رکھا ہوتا ہے۔ والدین سمجھتے ہیں بچہ بڑی محنت کر رہا ہے‘ وہ ہزاروں میل دور کسی ملک میں موجود اجنبی سے ویڈیو کال کر رہا ہوتا ہے۔ والدین بھی کسی سے کم نہیں۔ ہر کسی کے پاس اپنا اپنا موبائل ہے اور میاں بیوی بھی موبائل فون کے ذریعے ہی ایک دوسرے کا حال جانتے ہیں۔ رہی سہی کسر نت نئی موبائل ایپلی کیشنز نے نکال دی ہے۔ جس طرح کسی زمانے میں یاہو کے چیٹ رومز ہوتے تھے اب اس طرح کی ویڈیو ایپلی کیشنز بن چکی ہیں جن میں ایک لڑکا یا لڑکی لائیو آن لائن ہو جاتا ہے اور باقی اس سے باتیں کرتے ہیں۔ فحش مذاق‘ اخلاق باختہ لطائف اور ڈانس وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ زیادہ تر رات کے وقت ہوتا ہے۔ اب جو بندہ رات کے تین چار بجے تک یہ سب کرے گا وہ صبح کی نماز یا سکول‘ کالج کے لیے کیسے بروقت اٹھے گا۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان یا مسلمانوں تک محدود نہیں‘ مغرب بھی اس بیماری کا شکار ہو چکا ہے۔ خاندانی زندگی نام کی چیز تو وہاں پہلے ہی موجود نہ تھی‘ اب موبائل فون نے انہیں مزید تنہا کر دیا ہے۔ جس کے سوشل میڈیا پر پانچ ہزار دوست ہیں‘ در حقیقت ان میں سے ایک بھی اس کا دوست نہیں ہوتا۔ وہ بیمار ہو جائے‘ اس کا کوئی عزیز فوت ہو جائے ان میں سے کوئی بھی اس کا حال پوچھنے یا افسوس کو نہیں آتا۔ سابق صدر مشرف کے سوشل میڈیا پر لاکھوں فین ہیں‘ ان کا خیال تھا جب وہ پاکستان آ کر سیاست شروع کریں گے تو ایئرپورٹ پر یہ لاکھوں فین استقبال کیلئے موجود ہوں گے۔ وہ ایئرپورٹ پر اترے تو سوائے آٹھ ملازم نما لٹکے چہروں کے کوئی بھی موجود نہ تھا؛ چنانچہ آپ کے اصل دوست اور غمخوار وہی ہیں جو آپ کے گھر اور آپ کے قرب و جوار میں رہتے ہیں۔ جن سے آپ ملتے رہتے ہیں اور جو آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ باقی سب مایہ ہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق اکثر لوگ موبائل فون کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ موبائل فون کے بغیر گزارتے ہیں اس کے بعد ان کے ہاتھوں میں کھجلی ہونے لگتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح ایک نشئی کا نشہ کچھ وقت کے بعد ٹوٹنے لگتا ہے۔ اس کا علاج وہ یہ بتاتے ہیں کہ ہر شخص کو چاہیے کہ جس طرح اس نے اپنی دیگر مصروفیات کا شیڈول مرتب کیا ہوتا ہے‘ موبائل فون کے استعمال کا بھی ایک شیڈول بنا لے۔ بہت سی بیماریاں اور مسائل صرف لائف سٹائل کی تبدیلی کی وجہ سے حل ہو جاتے ہیں۔ ان میں بلڈ پریشر‘ دل اور دیگر جسمانی و ذہنی امراض شامل ہیں۔ ہر چیز کا حل ڈاکٹروں کے پاس موجود ہے نہ ہی ان کی طرف بھاگنا چاہیے۔ وہ تو فیس لینے بیٹھے ہیں انہوں نے کیا کہنا ہے‘ کچھ نہ کچھ نسخے پر لکھ کر دو چار ہزار کما لیں گے۔ آپ کا مسئلہ اگر لائف سٹائل کی تبدیلی سے حل ہوتا ہے تو پیسہ برباد کیوں کریں۔ ایک شخص پیٹ درد کی شکایت لیکر ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ڈاکٹر نے معائنے کے بعد پوچھا رات کو کیا کھایا تھا۔ مریض بولا: جلی ہوئی روٹی۔ ڈاکٹر نے نسخے میں آنکھوں کے قطرے لکھ دئیے۔ مریض بولا: ڈاکٹر صاحب میں آنکھوں کی نہیں پیٹ کے درد سے آیا ہوں۔ ڈاکٹر بولا: اگر آنکھیں ٹھیک ہوتیں تو جلی ہوئی روٹی کھاتے؟ ہمارا مسئلہ بھی یہی ہے۔ اگر ہماری گردن اور کمر کے مہروں میں درد ہے‘ اگر ہمیں رات کو نیند نہیں آتی‘ اگر ہماری طبیعت میں چڑچڑا پن آ گیا ہے اور اگر ہمارے بچے دوسروں کے ساتھ میل جول نہیں کرتے اور ایک کونے میں موبائل لے کر پڑے رہتے ہیں‘ موبائل فون دیکھنے کے ساتھ ساتھ کھانا کھاتے ہیں اور معدہ اور آنکھیں خراب کر لیتے ہیں تو اس میں ڈاکٹر کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا اسے دماغ کی درستی کی دوائی نہیں لکھنا چاہیے؟
موبائل فون سے چھٹکارے کا علاج بھی موبائل فون ہی کر سکتا ہے۔ اس کے لئے آپ موبائل فون سے ایک ایپلی کیشن ڈائون لوڈ کریں جو آپ کے موبائل کے استعمال کا دورانیہ مانیٹر کرتی ہو۔ آپ جتنا وقت اسے اٹھائیں گے یا آن رکھیں گے یہ وہ وقت ریکارڈ کر لے گی۔ اسے دیکھتے ہوئے روزانہ اس کا استعمال گھٹائیں۔ دوسرا کام یہ کریں کہ کاغذ اور قلم کا استعمال بڑھائیں۔ ایک ڈائری پاس رکھیں اور اس میں اپنے فون کے استعمال کا روزانہ کا چارٹ بنائیں۔ اس میں لکھیں کہ آپ فون سننے کے علاوہ کون کون سا کام کتنی مرتبہ اور کتنے دورانیے کے لئے کریں گے۔ کون سی ایپلی کیشن آپ کا زیادہ وقت لے رہی ہے اس ایپلی کیشن کو ڈیلیٹ کریں۔ تیسرا یہ کہ فون کو تھوڑے فاصلے پر رکھیں خاص طور پر رات کو سوتے وقت۔ اتنا دور کہ اٹھ کر دو قدم چلے بغیر آپ اسے پکڑ نہ پائیں۔ اس طرح آپ اسے تبھی استعمال کریں گے جب کوئی کال آئے گی۔ چوتھا اور سب سے اہم یہ کہ غیرضروری نوٹیفکیشن بند کر دیں۔ بالخصوص سوشل میڈیا کے کیونکہ یہ تو ہر سیکنڈ بعد آتے ہیں ‘آپ لامحالہ فون اٹھاتے ہیں اور اس کے بعد آپ کو یاد بھی نہیں ہوتا کہ آپ نے فون کیوں اٹھایا تھا‘ کہاں نکل گئے اور کتنا وقت ضائع کر دیا۔ پانچواں یہ کہ ہمیشہ ایک نئی کتاب اپنے پاس رکھیں۔ یہ آپ کی میز یا بستر پر قریب جبکہ موبائل کم از کم پانچ فٹ دور ہو۔ جب بھی آپ کا موبائل اٹھانے کا نشہ بیدار ہو آپ فوراً وہ کتاب اٹھا لیں‘ اس طرح آپ کا نشہ بھی پورا ہو جائے گا اور کتب بینی بھی زندہ ہو جائے گی جبکہ چلنے پھرنے کے دوران ایک موٹے دانوں یا بٹن والی تسبیح جیب میں رکھیں اور جونہی ہاتھ موبائل کی طرف بڑھے‘ یہ تسبیح نکالیں اور اسمائے حسنیٰ پڑھنا شروع کر دیں‘ اس سے آپ کے روزمرہ کاموں میں برکت ہو گی‘ مشکلات اور وسوسے ختم ہوں گے اور ہاتھوں کی کھجلی بھی دور ہو جائیگی۔ چھٹا یہ کہ خود کو سمجھائیں کہ موبائل آپ کیلئے بنا ہے آپ موبائل کے لئے نہیں۔ خود کو بتائیں کہ آپ کو بار بار نوٹیفکیشن اس لئے نہیں مل رہے کہ آپ دنیا کے اہم ترین انسان ہیں بلکہ یہ سوچیں کہ یہ نوٹیفکیشن گدھوں تک کو آتے ہیں۔ عقلمند انہیں محدود رکھتے ہیں جبکہ بیوقوف ہر نوٹیفکیشن پر فون کی جانب لپکتے ہیں اور ساتواں اور آخری کام یہ کریں کہ ان لوگوںکی فہرست بنائیں جو آپ کے انتہائی قریبی اور مہربان ہیں۔ ان سے ملنا جلنا شروع کریں۔ انہیں کھانے پر بلائیں‘ ان سے گپ لگائیں اور پرانی یادیں تازہ کریں؛ تاہم خبردار! عزیزوں اور یار دوستوں کی ان سہانی محفلوں میں موبائل فون قریب بھی نہ پھٹکنے پائے!