ایک کسان کے بیٹے کو تعلیم حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا۔ وہ کاشتکاری میں اپنے باپ کے ساتھ مل کر خوب محنت سے کام کرتا اور تحصیل علم میں بھی منہمک رہتا۔ جس روز امتحان دینے وہ شہر آیا تو پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ اس کا قد چھوٹا تھا مگر لمبے لمبے جوتے پہن رکھے تھے۔ سر پر بڑا سا عمامہ باندھے اور ہاتھ میں ایک موٹی لاٹھی لئے وہ کمرہ امتحان میں داخل ہوا تو وہاں موجود ہر فرد اسے دیکھ کر ہنسنے لگا۔ دوسرے طلبہ اس کا مذاق اڑانے اور اس پر فقرے چست کرنے لگے۔ اس نے سارا منظر دیکھا اور ہر فقرہ سنا مگر جواب دینے کے بجائے خاموش رہا یہاں تک کہ ممتحن کے سامنے پیش ہونے کی اس کی باری بھی آ گئی۔سب کا خیال تھا کہ یہ احمق بدو ممتحن کے سوالوں کا کیا جواب دے گا جسے ڈھنگ کے کپڑے بھی پہننے نہیں آتے۔ وہ اٹھا اور بڑے اعتماد کے ساتھ ممتحن کے سامنے جا بیٹھا۔ کمرہ امتحان میں موجود سب افراد ہمہ تن اس کی جانب متوجہ ہو گئے۔ سب توقع لگائے بیٹھے تھے کہ وہ کوئی نہ کوئی احمقانہ حرکت کر کے ان کو قہقہے لگانے کا موقع دے گا مگر وہ ان لوگوں سے لا تعلق تھا۔ اس کی نظر ممتحن اور توجہ سوالات پر تھی۔ اس نے ہر سوال کا جواب اس اعتماد کے ساتھ دیا کہ ممتحن بھی حیران رہ گیا۔ اس کی ذہانت‘ حاضر جوابی اور طرزِ استدلال سے ممتحن اور دیگر اساتذہ بہت متاثر ہوئے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ گائوں کا یہ غریب و نادار اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس لڑکا اس طرح اپنی قابلیت کا سکہ سب پر بٹھا دے گا۔ نتیجہ آیا تو اس لڑکے نے اول پوزیشن حاصل کی ۔ اس کا مذاق اڑانے اور اس پر فقرے کسنے والے اب اس پر رشک کر رہے تھے۔ سب جان گئے کہ آدمی کی اصل قدر و قیمت اس کے لباس اور فیشن میں نہیں بلکہ علم و ذہانت میں ہے۔
آج اگر ہم مذکورہ بالا مثال کو دنیا کے ممالک کے سامنے رکھ کر دیکھیں تو ہمیں چین اور جاپان جیسے وہ ملک جو ساٹھ ستر برس پہلے تباہ و برباد تھے اور جن کی حالت قابل رحم تھی‘ علم دوست پالیسی اور محنت کے باعث اس قدر ترقی کرتے نظر آتے ہیںکہ آج دنیا کی معیشت ان دو ممالک کے رحم و کرم پر ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر ہم مسلمان ممالک کی بات کریں تو یہ تعلیم اور علم کا زیور بانٹنے کی بجائے عیاشیوں کی دلدل میں اترتے گئے‘ یہ تیل اور قدرت ذخائر کی فروخت سے اپنی معیشت کو چلاتے رہے اور بالآخر اندر سے کھوکھلے ہوگئے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ایک وہ زمانہ بھی تھا کہ جب مسلمانوں کے حکمران نظام الملک طوسی جیسے ہوا کرتے تھے جو علم کی قدر و منزلت سے خوب واقف تھے۔ نظام الملک نے تعلیم کو عام کرنے کے لئے اس قدر مدرسے تعمیر کئے کہ بادشاہ نے اسے ایک دن بلا کر کہا کہ بابا!( بادشاہ چھوٹی عمر کا تھا اس لئے وہ وزیر کو عز ت سے بابا کہتا تھا) آپ مدرسوں پر جو پیسہ خرچ کر رہے ہیں اگر وہ فوج پر کیا جائے تو دنیا فتح کی جا سکتی ہے۔ نظام الملک نے اس موقع پر جو جواب دیا وہ آج بھی حکمت و دانش کا بہترین نمونہ ہے۔ نظام بولا: بیٹا! تم جو فوج بھرتی کرو گے اس کے تیر چند گز سے زیادہ دور نہ جا سکیں گے لیکن میں اہل علم کی جو فوج تیار کر رہا ہوں اس کی سوچوں اور دعائوں کے تیر آسمانوں کے بھی پار چلے جائیں گے۔
آج آپ دنیا کے ترقی یافتہ اور کامیاب ممالک کی فہرست اٹھا لیں ‘ آپ کو دور دور تک کہیں کوئی مسلمان ملک نظر نہیں آئے گا۔ کبھی وقت تھا جب مسلمان علم و فنون میں بہت آگے تھے مگر آج صورتحال تبدیل ہو چکی۔ آج دنیا کے دو سو سے زائد ممالک ہیں لیکن تعلیم کے میدان میں برطانیہ پہلے نمبر ‘ امریکہ دوسرے‘ کینیڈا تیسرے‘جرمنی چوتھے اور فرانس پانچویں نمبر پر ہے۔یہ پانچوں ممالک اس وقت دنیا کی معیشت ‘ خارجہ پالیسی اور سمت کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ عراق‘ شام اور افغانستان جیسے کسی ملک پر چڑھائی کرنی ہو تو یہ پانچوں میز پر بیٹھتے ہیں اور مشترکہ فوج بنا کر حملہ کر دیتے ہیں۔ مسلمان ممالک کو دیکھیں تو یہ سب کسی نہ کسی کشمکش یا بے چینی کا شکار ہیں۔ ہر مسلمان ملک غیر مستحکم اور انتشار میں ڈوبا ہوا ہے۔ کوئی نہ کوئی تحریک‘ شورش‘ دہشت گرد‘ علاقائی یا لسانی تنظیمیں ان کے لیے مسائل کا باعث ہیں۔کسی کو یہ فکر نہیں کہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ہم کتنے پیچھے رہ گئے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی تو دور کی بات ان ممالک میں حکومتیں ہی پوری طرح فعال نہیں ہو سکیں۔ جہاں جمہوریت ہے بھی تو برائے نام۔سیاسی عدم استحکام کے باعث جمہوری ممالک کی معیشتیں بھی روبہ زوال ہیں۔ ایسے حالات میں جب پوری کی پوری معیشت ڈوب رہی ہو‘ تو تعلیم کا بیڑا غرق ہونا بھی لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شعبہ لے لیں آپ کو یہودی ہی ہر شعبے میں ٹاپ پوزیشنوں پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ طب کے شعبے کی گیارہ عظیم ترین ایجادات یہودیوں کے ہاتھوں ہوئیں۔ اگر جانس سالک پولیو ویکسین ایجاد نہ کرتا تو دنیا بھر میں روزانہ پندرہ لاکھ بچے (پیدائش کے پہلے تین سالوں میں)معذور ہو جاتے‘ اگر بروچ بلومبرگ ہیپاٹائٹس بی کا علاج دریافت نہ کرتا تو سالانہ دو کروڑ لوگ اس بیماری سے جان گنوا بیٹھتے‘اگر بنجمن روبن سرنج ایجاد نہ کرتا تو مریضوں کو انجکشن لگانا ممکن نہ ہوتا اور اگر ولیم کوف گردوں کی ڈائلیسز مشین ایجاد نہ کرتا تو آج ہر ساتواں شخص گردے فیل ہونے پر زندگی ہار جاتا۔ یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا‘ تاریخ کو بدلنے والی ایجادات بھی یہودیوں کے ہاتھوں ہوئیں۔ اگرسٹینلے میزر مائیکروپروسیسر نہ بناتا تو آج کمپیوٹر کا نام و نشان نہ ہوتا‘ اگر پیٹرشلز آپٹک فائبر کیبل نہ بناتا تو ٹیلی فون‘ ویڈیو کانفرنسنگ اور انٹرنیٹ کے نظام کا وجود نہ ہوتا۔لیوزلینڈ نیوکلیئر چین ری ایکشن کا فارمولا نہ بناتا تو ایٹم بم نہ بن پاتا۔ آپ یہودیوں کی معاشی طاقت بھی دیکھ لیجئے۔ آج دنیا کے دس بڑے کاروبار یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی کولڈ ڈرنکس کمپنی ایک یہودی کی ملکیت ہے جس کی روزانہ آمدنی پاکستان کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ انٹرنیٹ کا سب سے بڑا سرچ انجن گوگل دو یہودی طالبعلموں لیری پیج اور سرجی بن نے بنایا تھا۔ 'ڈیل‘ کمپیوٹرز فروخت کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ اس کا سربراہ مائیکل ڈیل ایک یہودی ہے۔دنیا کے تمام بینکوں‘ موبائل فون کمپنیوں‘ ایئرپورٹس اور ملٹی نیشنل اداروں میں جو سافٹ ویئر استعمال ہو رہا ہے اسے لیری ایلسن نے بنایا۔ یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا‘ بچوں کیلئے خشک دودھ کے ڈبے ‘ویڈیو ٹیپ ریکارڈر‘ ٹیلی فون مائیکروفون‘ سائونڈ موویز حتیٰ کہ ٹریفک لائیٹس اور سٹین لیس سٹیل کے برتن تک یہودیوں کے ہاتھوں ایجاد ہوئے ۔ آپ تعلیمی میدان بھی دیکھ لیجئے۔ ستاون مسلم ممالک میں کل ملا کر پانچ سو یونیورسٹیاں ہیں جبکہ عالمی معیار کی گنتی کی دو چار یونیورسٹیاں ہوں گی جبکہ امریکہ میں پانچ ہزار سات سو اٹھاون یونیورسٹیاں ہیں۔ ہر دس لاکھ مسلمانوں میں سے دو سو تیس سائنسدان بنتے ہیں جبکہ امریکہ میں ہر دس لا کھ میں سے پانچ ہزار سائنسدان تیار ہو رہے ہیں جن میں تریسٹھ فیصد یہودی ہیں۔ آج امریکی خارجہ پالیسی‘ امریکی معیشت اور امریکی حساس اداروں میں یہودیوں کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا‘ آج یہودیوں کی منشا کے بغیر اقوام متحدہ کوئی اعلامیہ تک جاری نہیں کرتی‘ آج عرب ممالک سے لے کر امریکہ کے صدر تک کا انتخاب یہودیوں کے دستخطوں کا محتاج ہے اور آج امریکہ کو چھینک تک مارنے کیلئے یہودیوں کی اجازت لینا پڑتی ہے۔ آخر یہودی اتنے مضبوط کیسے ہوئے؟میں جب یہودیوں کی کامیابیوں کی بنیاد تلاش کرتا ہوں تو مجھے علم دوستی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ یہودیوں نے ثابت کر دیا کہ علم کے ہتھیار کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو اس سے طاقت کے ان گنت چشمے پھوٹتے ہیں اور انسان ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے ،جہاں سے وہ دنیا میں امن بھی پھیلا سکتا ہے اور تباہی بھی‘ محبت کے پھول بھی بکھیر سکتا ہے اور لاشوں کے انبار بھی ۔ ڈیڑھ ارب انسانوں کواپنے بوٹ پالش کرنے پر بھی لگا سکتا ہے اور انسانوں کو حیوانیت سے اُٹھا کر انسانیت کے درجے پر بھی پہنچا سکتا ہے لیکن یہ بات ہم مسلمانوں کی سمجھ میں نہیں آ سکی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی قدرت سے یہی سوال پوچھ رہے ہیں: مسلمان دنیا میں پیچھے کیوں ہیں‘ یہ دوسروں کے محتاج کیوں ہیں؟