"ACH" (space) message & send to 7575

پٹرول پمپوں کا عوام کے ساتھ کھلواڑ

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ‘وہ ایک الگ داستان ہے‘ لیکن پٹرول پمپ والے عوام کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہے ہیں‘ وہ انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت امر ہے۔ میں آپ کو اپنا تجربہ شیئر کئے دیتا ہوں ‘اس کے بعد آپ خود بھی دیکھئے گا کہ آپ کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ میں کئی برسوں سے جس پٹرول پمپ سے‘ ایک نمبر اور ایماندار سمجھ کر پٹرول ڈلواتا آ رہا تھا‘ اس کی حقیقت یوں کھلی کہ جب میں نے کسی اور پٹرول پمپ سے گاڑی کی ٹینکی فل کروائی۔ گاڑی بھروا کر میں اکثر میٹر ریڈنگ صفر پر کر دیتا ہوں‘ تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ گاڑی ایک لیٹر میں کتنے کلومیٹر کر رہی ہے۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب ریزرو لگنے کے بعد میں نے دیکھا کہ گاڑی نے پورے ایک سو کلومیٹر اضافی سفر طے کیا ‘جتنا کہ فل ٹینک میں گاڑی طے کرتی آ رہی تھی۔میں نے سوچا ہو سکتا ہے مجھے مغالطہ لگا ہو‘ کیونکہ جس پٹرول پمپ سے میں دو تین برسوں سے مستقل پٹرول ڈلواتا آ رہا تھا‘ اس کا عملہ خاصا خوش اخلاق اور مجموعی طور پر پٹرول پمپ کے بارے میں اچھی رائے ہی سنی تھی۔
میں نے اپنا یہ مغالطہ دور کرنے کے لئے اسی پرانے پٹرول پمپ سے ٹینک فل کروائی ۔ کوئی دس روز میں جب پٹرول ختم ہونے کا وقت آیا اور گاڑی کے سپیڈومیٹر پر ریزرو کی لائٹ جلی تو میں چونک پڑا۔ گاڑی کا میٹر ریڈر جو ریڈنگ بتا رہا تھا ‘وہ پورے ایک سو کلومیٹر کم تھی ۔میں نے سوچا ممکن ہے یہ میرا سراب ہو ‘ میں نے سپیڈو میٹر (اوڈومیٹر) پر صفر تاخیر سے کیا ہو اور اس سے قبل ہی ایک سو کلومیٹر گاڑی چل چکی ہو۔ یہ سارا مغالطہ دور کرنے کے لئے میں نے دوبارہ اسی پٹرول پمپ سے دوبارہ ٹینک فل کروایا‘ لیکن اس بار بھی گاڑی نے ایک سو کلومیٹر کا فرق بتایا۔ میری گاڑی ایک لیٹر میں اے سی کے ساتھ شہر میں بارہ تیرہ کلومیٹر کرتی ہے‘ اس لحا ظ سے سات آٹھ کلومیٹر پٹرول کم ڈالا جا رہا تھا۔ میں اس پٹرول پمپ پر گیا اور انہیں ساری روداد بتائی‘ لیکن وہ یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ وہ کم پٹرول ڈالتے ہیں۔ میں نے انہیں پٹرول پیمانے سے چیک کروانے کو کہا تو وہ مجھے سب سے آخر والے پوائنٹ پر لے گئے اور پٹرول کی مقدار چیک کروائی۔ پٹرول پورا ایک لٹر نکلا۔ میں حیران تھا یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔ میں وہاں سے نکلا تو راستے میں خیال آیا کہ انہوں نے سب سے آخر والے پوائنٹ سے ہی کیوں چیک کروایا۔ میں نے گاڑی واپس موڑی اور دوبارہ اسی پٹرول پمپ پر پہنچ گیا۔ میں نے کہا :مجھے اس پوائنٹ سے چیک کروائو‘ جس سے میں پٹرول ڈلواتا ہوں۔ انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم آپ کو ایک مرتبہ چیک کروا چکے ہیں ‘بار بار نہیں کروا سکتے۔ ہمارے سارے پوائنٹس ایک جیسے ہیں۔ میں نے کہا :میری تسلی نہیں ہوئی ‘اس لئے ایسا کرنا ضروری ہے‘ تاہم انہوں نے تعاون کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ میں نے وہاں کے منیجر کا نمبر لے کر فون کیا‘ لیکن وہ بھی اپنے عملے کی سائیڈ لے رہا تھا۔ میں وہاں سے نکل آیا۔ میری عادت ہے کہ میں ہر مہینے کی تیس یا اکتیس تاریخ کو ٹینک فل کرواتا ہوں‘ لیکن گزشتہ روز میں ڈیفنس والی سائیڈ پر تھا اور پٹرول اتنا کم تھا کہ شاید میں اپنے پسندیدہ پٹرول پمپ تک نہ پہنچ پاتا؛ چنانچہ میں نے ایک ہزار کا پٹرول ڈلوا لیا‘ جس سے گاڑی کی سوئی کچھ اوپر آ گئی۔ نہ جانے مجھے کیا سوجھی میں نے میں نے احتیاطاً اووڈو میٹر کو صفر پر کر لیا ۔میں وہاں سے شادمان آیا‘ مال روڈ گیا‘ مزنگ اور پھر واپس شادمان آ گیا۔ میں ابھی گاڑی پارک کر ہی رہا تھا کہ میری نظر گاڑی کے فیول گیج پر پڑی‘ میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ فیول گیج کی سوئی اپنے اختتامی پوائنٹ سے بھی نیچے پہنچ چکی تھی‘ جبکہ اووڈومیٹر صرف اٹھائیس کلومیٹر ظاہر کر رہا تھا‘ جبکہ میں نے ایک ہزار کا تقریباً ساڑھے آٹھ لیٹر پٹرول ڈلوانے کے بعد فاصلہ بھی اتنا ہی طے کیا تھا۔اُف میرے خدا! کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ گاڑی میں ساڑھے آٹھ میں سے صرف دولٹر پٹرول ڈالا گیا تھا ۔پورے چھ لیٹر کا فراڈ؟ میں وہاں سے سیدھا اپنے نئے مختص پٹرول پمپ پر گیا اور وہاں سے بھی ایک ہزار کاپٹرول ڈلوایا۔ ابھی تک گاڑی ساٹھ کلومیٹر چل چکی ہے جبکہ سوئی اپنے اختتامی نقطے سے اتنے فاصلے پر ہے کہ پچاس ساٹھ کلومیٹر مزید چل سکتی ہے۔ 
روزنامہ دنیا میں گزشتہ روز شائع ہونے والے چارٹ کے مطابق‘ گزشتہ چار ماہ کے دوران پٹرول کی قیمت میں بیس روپے اضافہ ہوا ہے۔ حکومت یہ اضافہ کیوں کر رہی ہے؟اس کا تعلق عالمی منڈی میں خام تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ہے ؟ڈالر کی اڑان سے ہے یا پھر آئی ایم ایف کے ساتھ کسی معاہدے سے؟یہ ایک الگ بحث ہے‘ لیکن خدا کے بندو اگر پٹرول مہنگا کرنے کی لاجک کو واقعی درست تسلیم کر لیا جائے تب بھی پٹرول پمپوں پر روزانہ عوام کی جس دیدہ دلیری سے جیبیں صاف کی جا رہی ہیں‘ اس کی کیا توجیہ پیش کی جا سکتی ہے؟ کیا پٹرول پمپ حکومت کی رِٹ یا دائرہ اختیار سے باہر ہیں؟ کیا انہیں من مانی کرنے کی سو فیصد آزادی حاصل ہے؟ کون سے ادارہ انہیں چیک کرتا ہے ‘ کون انہیں لائسنس دیتا ہے اور اس کے بعد ڈکیتیاں کرنے کے لئے کھلا چھوڑ دیتا ہے؟
ابھی تو میں نے صرف پٹرول کی مقدار میں ڈنڈی مارنے کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ اس سے بھی سنگین مسئلہ پٹرولیم مصنوعات کے معیار کا ہے۔ جس طرح آج تک کوئی حکومت‘ کوئی عدالت اور کوئی ڈکٹیٹر یہ پتہ نہیں لگا سکا کہ دودھ میں کتنا دودھ اور کتنا پانی اور سرف ہوتا ہے‘ کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہم روزانہ جو پٹرول ڈلواتے ہیں اس میں پٹرول کتنا ہوتا ہے اور اس کی مقدار بڑھانے والے مصنوعی کیمیکل کتنے ہوتے ہیں۔ یہ مصنوعی کیمیکل گاڑی کے انجن کی جس طرح بربادی کرتے ہیں اور کس طرح بار بار خرابیاں لا کر گاڑی مالکان کو ورکشاپوں میں بھیج کر خوار کرتے ہیں یہ الگ لاوارث کہانی ہے ۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں کہ جن میں شہری ان پٹرول پمپوں کی چوری پکڑتے ہیں اور ساتھ ویڈیو بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہاں کا عملہ بدمعاشی کر کے صارفین کو زدوکوب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ 
یعنی وہ صارف جس کے حقوق کا خیال رکھا جانا چاہیے اسے آواز اٹھانے پر نشانِ عبرت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ رمضان کے مہینے کو بھی نہیں بخشا جاتا اور اس ماہ مبارک میں بھی رَج کر دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے۔ بات صرف پٹرول پمپوں تک محدود نہیں‘ ہر کاروباری طبقے میں یہ رواج عام ہو چکا ہے۔ ترازو میں ڈنڈی مارنے والے یہی مسلمان رات کو سجدے بھی کرتے ہیں‘ نذر و نیاز بھی تقسیم کرتے ہیں اور آخری عشرے میں عمرہ کی ادائیگیاں بھی کرتے ہیں لیکن ان کی عملی زندگی کا حال یہ ہے کہ یہ قوم ِ شعیب ؑ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور خدا کے قہر اور عذاب سے بھی نہیں ڈرتے۔ ایک طرف یہ خود کو بڑے حاجی‘ نمازی ظاہر کرتے ہیں اور دوسری طرف ہر وہ کام کرتے ہیں جس میں خدا کی ناراضی شامل ہوتی ہے۔ 
سمجھ نہیں آتی حکومت اس معاملے میں اتنی بے بس کیوں ہے؟ جس طرح فوڈ اتھارٹی والے معیاری اشیائے خورونوش کے لئے مختلف جگہوں پر چھاپے مارتے ہیں‘ ایسی ٹیمیں کیوں نہیں بنائی جاتیں جو پٹرول پمپوں پر روزانہ خفیہ چھاپے ماریں تاکہ پٹرول کے معیار اور مقدار کے حوالے سے عوام کی شکایات کو دور اور ان کاروباری مگرمچھوں کی کرپشن کو لگام ڈالی جا سکے۔ اسسٹنٹ کمشنر کراچی کی کئی ایسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جس میں وہ کراچی میں ایسے پٹرول پمپوں کو جرمانے اور سیل کر رہے ہیں جو مقدار اور معیار کے معاملے میں عوام کے ساتھ معاشی دہشت گردی کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ کراچی تک محدود نہیں رہناچاہیے ۔ پاکستان کے کونے کونے میں جہاں بھی پٹرول پمپ ہیں وہاں حکومتی ٹیموں کو روزانہ کی بنیاد پر چھاپے مار نے چاہئیں‘ تاکہ مہنگائی کے ستائے عوام کو کچھ تو ریلیف مل سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں