زراعت میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے پوری دنیا میں غیرمعمولی نتائج حاصل ہو رہے ہیں‘ جس کی وجہ سے آئندہ چند برسوں میں زراعت ایک نئی شکل میں دیکھنے کو ملے گی۔ جدید ممالک میں تو پچاس فیصد کسان اب بھی آرٹی فیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت کو لاگت کم کرنے اور پیداوار اور منافع بڑھانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ کھیتوں کو پانی کتنا چاہیے‘ بیج کب بونے ہیں‘ پودوں کے درمیان فاصلہ کتنا ہونا چاہیے‘ پانی دینے کے لئے موٹر کب اور کتنی چلنی چاہیے‘ ان تمام عوامل کا فیصلہ اب مصنوعی ذہانت پر مبنی کمپیوٹر خودکار طریقے سے کر دیتا ہے۔ اسی طرح کمپیوٹر یہ بھی بتاتا ہے کہ فصلوں‘ پودوں اور پھلوں کی کٹائی کے لئے وہ کون سا موزوں وقت ہے جب وہ غذائی اعتبار سے اپنے عروج پر ہوں۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو بہترین غذائی اجزا پر مبنی تازہ اشیا ملتی ہیں اور فصلوں‘ پھلوں اور سبزیوں کے گلنے سڑنے اور پیداوار کم ہونے کا اندیشہ ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایسے شہری علاقے جہاں کاشتکاری کیلئے زمین کی کمی ہے‘ وہاں گھروں کی چھتوں‘ بالکونیوں حتیٰ کہ گھروں کے اندر کاشتکاری کے لئے ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جانے لگا ہے اور اس کے حیران کن نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ جدید ممالک حتیٰ کہ ایشیا کے کئی ترقی پذیر ممالک میں بھی لوگ اس اقدام کی وجہ سے نہ صرف اپنے کنبے کی ضروریات پوری کر رہے ہیں بلکہ سبزی اور پھل وغیرہ فروخت کرنے کے بھی قابل ہو رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی مدد لینا اس لئے بھی ضروری تھا کہ پوری دنیا میں خوراک کی پیداوار مجموعی طور پر تیزی سے کم ہو رہی تھی۔ اگر ہم اپنے ملک کی بات کریں تو پہلے یہاں دس مرلے کے گھر عام تھے‘ پھر بات پانچ مرلے سے تین مرلے تک جا پہنچی۔ ان گھروں میں پھر بھی تھوڑی بہت جگہ کاشتکاری کے لئے موجود ہوتی ہے لیکن اب تو عام گھروں کی بجائے بلند عمارتوں اور فلیٹس کا رواج چل پڑا ہے اور ان میں رہائش پذیر آبادی کے لئے خوراک کی ضروریات پوری کرنا ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب کھیتوں میں بیلوں کو ہل چلانے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ پھر جیسے جیسے آبادی بڑھی اور خوراک کی طلب میں اضافہ ہوا‘ ہل کی جگہ ٹریکٹروں اور جدید مشینری نے لے لی۔ فصل کاٹنے کے لئے پہلے ہاتھ سے درانتی کا استعمال کیا جاتا تھا‘ اب خود کار مشینیں نہ صرف فصل کاٹتی ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ منٹوں میں ان کی پیکنگ کا عمل بھی مکمل کر دیتی ہیں۔ ان عوامل سے جہاں زراعت کے شعبے کو خاطر خواہ فائدہ پہنچا‘ وہاں معیشت بھی مضبوط ہوئی ہے۔ پہلے جو کام سو بندے دس دن میں کرتے تھے وہ کام ایک مشین ایک دن میں کر دیتی ہے۔ جدید زرعی تحقیق سے ایسے بیج سامنے آ چکے ہیں‘ جن سے سارا سال پھل اور سبزیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں بھی زراعت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس ضمن میں بالخصوص پنجاب میں محکمہ زراعت اپنی پالیسی میں بہت سی تبدیلیاں لایا ہے اور پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے تعاون سے زراعت کو جدت کی نئی بلندیوں پر لے گیا ہے۔ ہمارے ہاں چھوٹے کسانوں اور زمینداروں کو قرضوں کی ہمیشہ سے ضرورت رہی ہے۔ ان قرضوں سے وہ بیج سے لے کر زرعی ادویات کی خریداری تک اور مشینری سے لے کر پانی و بجلی تک کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ تین چار سال قبل تک کاشتکاری کیلئے قرضے لینے کا عمل پیچیدہ اور دشوار تھا‘ کسان محدود پیمانے پر قرضہ حاصل کر سکتے تھے اور زرعی مشینری اور ادویات وغیرہ کی خریداری کے لئے قرضے آسانی سے نہیں ملتے تھے‘ جس کی وجہ سے کسانوں کو بہت کم منافع حاصل ہو پاتا تھا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے یہ سارے مسائل حل ہوتے چلے گئے۔ قرضہ حاصل کرنے کے عمل کو کاغذوں سے نکال کر کمپیوٹرائزڈ کیا گیا۔ قرضوں کی تقسیم اور درخواست گزار کی تصدیق کے عمل کو آن لائن اور محفوظ بنایا گیا۔ پہلے عام کاغذ پر مبنی سادہ پاس بکیں ملتی تھیں جنہیں الیکٹرانک پاس بکس میں تبدیل کیا گیا۔ کسانوں کے لئے دوسرا بڑا مسئلہ کاشتکاری سے متعلق آگاہی میں کمی تھا۔ چونکہ تقریباً ہر شخص کے پاس موبائل فون موجود ہے؛ چنانچہ کسانوں کو موبائل فون پیغامات کے ذریعے بیج بونے‘ ادویات کے چھڑکائو اور دیگر معاملات کے بارے میں آگاہی کا عمل شروع کیا گیا۔ پہلے کسان قرض کے حصول کے لئے سرکاری دفاتر اور بینکوں کے کم از کم آٹھ چکر لگاتے تھے جو ڈیجیٹل نظام کے لاگو ہونے کے بعد کم ہو کر دو رہ گئے۔ اسی ای کریڈٹ نظام کے ذریعے اب تک ساڑھے چار لاکھ افراد میں چونتیس ارب روپے کے قرضے تقسیم کئے جا چکے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں کم از کم 33 فیصد کسانوں جبکہ 9 فیصد خواتین کسانوں کو قرضے دئیے گئے۔
آپ ذرا سوچیں کہ جس شخص کی سارے سال کی کمائی ایک طوفان یا سیلاب کی نذر ہو جائے وہ کس کیفیت سے گزرتا ہو گا؟ پاکستان جیسے ملک میں موسموں کے تغیر و تبدل کی وجہ سے بھی کسانوں کو سنگین مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسانوں کے معاشی استحکام اور تحفظ کیلئے آن لائن انشورنس سکیم کے اجرا کے بعد سے اڑھائی لاکھ کسانوںکو زرعی انشورنس حاصل ہوئی جس سے وہ کاشتکاری جاری رکھنے کے قابل ہوئے۔ اسی طرح بعض عوامل کے باعث کاشت کی پیداواری لاگت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ چھوٹے کسان کے لئے کام جاری رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ کسانوں پر ایسے بوجھ کو کم کرنے اور انہیں ریلیف دینے کے لئے سبسڈی دی جاتی ہے۔ لیکن چند سال قبل تک یہ سبسڈی بھی بالواسطہ اور روایتی طریقوں سے دی جاتی تھی جو مطلوبہ وقت پر ملتی تھی اور نہ ہی یہ دیکھا جا سکتا تھا کہ سبسڈی درخواست گزار تک پہنچی بھی یا نہیں۔ اس مقصد کیلئے ڈیجیٹل کوپن شروع کئے گئے اور کسانوں کے لئے موبائل اکائونٹ کے ذریعے سبسڈی کا حصول ممکن بنایا گیا۔ اب کسان کسی بھی قریبی موبائل ایزی پیسہ شاپ سے سبسڈی حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح بار دانہ کے اجرا اور حصول کے عمل کو آن لائن کرنے سے بدنظمی کم ہوئی۔ اس سال اپریل میں محکمہ خوراک پنجاب کو گندم کی سرکاری خریداری مہم کے حوالے سے باردانہ کے حصول کیلئے مجموعی طور پر ساڑھے آٹھ لاکھ درخواستیں موصول ہوئیں‘ جن کی تصدیق کیلئے پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی نے ریونیو ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی۔ سکروٹنی کے بعد فہرستیں پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے ڈیش بورڈ پر لگائی گئیں اور کوئی شخص ضرورت سے زائد باردانہ حاصل نہیں کر سکا۔ آپ باردانہ میں ٹیکنالوجی کے استعمال کا فائدہ ملاحظہ کریں کہ جس بجٹ میں تین لاکھ کسانوں کو باردانہ ملتا تھا‘ پی آئی ٹی بی کے آن لائن نظام کے باعث اُسی بجٹ میں گزشتہ برس ساڑھے چھ لاکھ کسانوں کو باردانہ ملا اور یہ سلسلہ تین سال سے جاری ہے۔ اس سے قبل ایک شخص دوسروں کا حق مار کر زیادہ باردانہ حاصل کر لیتا تھا‘ اور تین چار لاکھ افراد محروم رہ جاتے تھے۔
زراعت ملک کی ریڑھ کی ہڈی شمار کی جاتی ہے۔ اس کا رقبہ 23 ملین ایکڑ سے زائد ہے‘ جو کل ملکی رقبے کا اٹھائیس فیصد بنتا ہے۔ ہمارے ملک میں ہر قسم کی غذائی اشیا کی پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ اس کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی زراعت سے وابستہ ہے۔ بالفاظ دیگر ہماری قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 30 فیصد سے بھی زیادہ ہے؛ تاہم جس تیزی سے یہاں ہائوسنگ سیکٹر زرعی زمینوں کو ہڑپ کر رہا ہے‘ اس سے ہمیں خوراک کی پیداوار میں پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پنجاب میں زراعت کے میدان میں ہونے والی ترقی اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو دیگر صوبوں تک پھیلانے سے ہم نہ صرف خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہو سکتے ہیں بلکہ خوراک کی برآمدات میں بھی اولین ممالک میں شامل ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں خبر آئی کہ لاہور میں دس مرلے کے گھروں کے سامنے دو درخت لگانے لازمی قرار دیے گئے ہیں وگرنہ مکان مالک اور ہائوسنگ سوسائٹی کو جرمانہ ہو گا۔ یہ اچھا اقدام ہے‘ اسی طرح گھروں میں آئوٹ ڈور اور اِن ڈور فارمنگ کو بھی لازمی قرار دیا جانا چاہئے اور ٹماٹر‘ پیاز‘ دھنیا‘ پودینہ وغیرہ جیسی اشیا جن کے لئے بہت زیادہ جگہ درکار نہیں ہوتی‘ کو گھروں میں کاشت کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ لوگ اس بارے میں آگاہی اور طریقہ کار جاننے کے لئے خود بھی یو ٹیوب وغیرہ سے مدد لے سکتے ہیں۔ ویسے بھی مہنگائی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے‘ لوگوں کو اب اس طرف آنا ہی پڑے گا۔