بچوں میں مقابلے کا رجحان ہونا چاہیے لیکن اس کے بعض اوقات بہت زیادہ منفی اثرات بھی سامنے آتے ہیں۔ بچے سمجھتے ہیں جو پہلی دوسری اور تیسری پوزیشن لے لیتا ہے وہی کامیاب ہے اور کلاس کے باقی بچے نالائق ہیں چاہے تیسری اور چوتھی پوزیشن میں ایک نمبر کا ہی فرق ہو۔ پوزیشن کی اس دوڑ میں بچے نمبر تو لے جاتے ہیں لیکن بہت کچھ کھو دیتے ہیں جس کا احساس انہیں عملی زندگی میں جا کر ہوتا ہے۔ مقابلے کی دوڑ دراصل گھریلو زندگی میں ہی شروع ہو جاتی ہے۔ ایک گھر میں اگر پانچ بچے ہیں تو ان میں جو زیادہ نمبر لیتا ہے‘ کسی امتحان‘ کھیل کے کسی مقابلے میں پوزیشن لے لیتا ہے تو والدین اس بچے کو دیگر کی نسبت زیادہ شاباش دیتے ہیں جس سے باقی بچوں میں حسد کا عنصر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ فن لینڈ اور سنگاپور جیسے ممالک میں اس بات کا احساس کرتے ہوئے نمبروں کی دوڑ کو ویسے ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ وہاں سکولوں میں صرف استاد ہی نہیں ہوتے بلکہ ماہر نفسیات بھی بغور بچوں کی نصابی اور غیرنصابی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اس بنیاد پر رپورٹ مرتب کرتے ہیں۔ بچوں میں بڑھتے ہوئے ذہنی دبائو اور مقابلے کی دوڑ کے باعث بچوں کی جسمانی نشوونما بھی متاثر ہوتی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر وہاں اب بچوں کو آپس میں ایک دوسرے سے آگے لے جانے کی بجائے ان کی انفرادی تربیت پر توجہ دی جا رہی ہے۔یہاں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ پاکستان کے سکولوں میں درجنوں قسم کے مختلف نصاب پڑھائے جا رہے ہیںجس کی وجہ سے انتہائی بے ہنگم قسم کا ٹیلنٹ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ہر کسی کو ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی پڑی ہے لیکن یہ کوئی نہیں دیکھ رہا کہ اسے اپنی بہتری کے لئے کیا کرنا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی خامیاں تلاش کرے اور انہیں بہتر کرتے ہوئے اپنی شخصیت کو نکھارے‘ ہر کوئی دوسرے کی خامی کو ابھارتے ہوئے اسے پیچھے چھوڑنے کی کوشش میں ہے۔
بچوں کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ان کا زندگی میں مقابلہ کسی اور سے نہیں بلکہ خود اپنی ذات سے ہے۔اگر وہ اپنی ذات کو پہچان گئے او ر اگر انہوں نے اپنی پسند‘ اپنے شوق‘ اپنی خوبیوں اور اپنی کمزوریوں کو پا لیا تو پھر وہ مضبوط ترین انسان بن جائیں گے۔ انسان زندگی کی آخری سانسوں تک اپنی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ جتنی جلدی وہ اپنے آپ کو پا لیتا ہے اتنی ہی جلدی کامیابی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔اس کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی زندگی کا ہر آنے والا دن گزرے دن سے بہتر بنائے۔ اس کا ہر آنے والا ہفتہ‘ مہینہ اور سال گزرے ہوئے ہفتے‘ مہینے اور سال سے بہتر ہوتا جائے گا تو خودبخود اس کی زندگی میں وہ تمام تبدیلیاں آ جائیں گی جن کے ذریعے کوئی بھی انسان ایک کامیاب انسان کہلا سکتا ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی کامیاب شخص کی زندگی دیکھ لیں‘ آپ کو اس کا ہر آنے والا کل گزرے ہوئے کل سے زیادہ بہتر نظر آئے گا۔ آپ دنیا کی معروف کار ساز کمپنیوں کی مثال لے لیں۔ آج سے ستر برس پہلے جو گاڑی بنائی گئی تھی وہ آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ کم خوبیوں والی دکھائی دے گی۔ ان ستر برسوں کے درمیان اس گاڑی کے پندرہ بیس ماڈل آئے ہوں گے ‘ ہر ماڈل تین چار برس بعد تبدیل ہو جاتا رہا ہو گا اور ہر آنے والے ماڈل میں خرابیاں دور کر کے نئے فیچر متعارف کروائے گئے ہوں گے۔ انسان کی کامیابی بھی انہی خطوط پر ممکن ہے۔ آپ کسی صنعتکار‘ کسی معروف کھلاڑی اور کسی مشہور گلوکار کو دیکھ لیں‘ ان کی زندگی کے ابتدائی قدم انتہائی معمولی دکھائی دیں گے۔ کامیابی اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے میں ایک طویل اَن دیکھی داستان ہو گی جو ان کے علاوہ کسی اور کو معلوم نہیں ہو گی لیکن یہ لوگ اپنے ہر دن کو پہلے سے بہتر بناتے گئے‘ جو خوبیاں تھیں انہیں مزید پالش کر کے بہتر کرتے رہے اور جو خامیاں تھیں انہیں دور کرنے کی تگ و دو میں لگے رہے‘ یہاں تک کہ انہیں قدرت نے لائم لائٹ میں آنے کا موقع دے دیا۔
آج کے طالب علم کو بھی انہی خطوط پر محنت کی ضرورت ہے نہ کہ نمبروں کی دوڑ میں اپنی شخصیت کو مخصوص دائرے میں قید کرنے کی۔ آپ نے گزشتہ دنوں بی اے کا رزلٹ بھی دیکھ لیا ہو گا جس میں پینتالیس فیصد طالب علم ہی امتحان پاس کر سکے۔ اس سے دو ہفتے قبل میٹرک کا رزلٹ آیا جس میں ستر فیصد سے زائد طلبا پاس ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ یہ جن بچوں نے میٹرک میں ستر اسی فیصد نمبر لئے وہ بی اے میں جا کر فیل کیوں ہو گئے؟ موجودہ حکومت اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش میں ہے اور شاید اگلے چند برسوں میں میٹرک کے سالانہ امتحانات کا طریقہ کار بھی تبدیل کر دیا جائے کیونکہ جو نظام بچوں کو رٹے لگانے پر مجبور کر رہا ہے اور آگے چل کر وہی بچے ایف اے ‘ بی اے اور ایم اے میں تیس فیصد نمبر لینے میں کامیاب نہیں ہو پاتے ۔بچوں کو نمبروں کی دوڑ سے نکالنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ بچے یہ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں کہ شاید نمبر لینا ہی مکمل کامیابی ہے۔ اسی لئے وہ سال کے آخر میں پرانے گیس پیپر حل کر کے معروف سوال اور پرچے حل کر لیتے ہیں اور چند ماہ پڑھ کر اچھے نمبر لے لیتے ہیں۔ مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا خوف ان پر حاوی رہتا ہے اور جب تک رزلٹ نہیں آ جاتا ان کی جان سولی پر اٹکی رہتی ہے۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ سکولوں میں بچوں کی اخلاقی تربیت کا اہتمام شروع کیا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ انہوں نے صبح سے رات گئے تک ایک دن کیسے گزارنا ہے۔ کیسے اپنا سکول کا کام کرنا ہے ‘ گھر والوں کو کتنا وقت دینا ہے‘ کھیل اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ کیسے لینا ہے‘ والدین‘ رشتہ داروں اور اقرباسے کیسے پیش آنا ہے۔ گھر میں کوئی مہمان آ جائے تو اسے کس طرح ریسیو کرنا ہے۔ والد کا کوئی دوست آ جائے تو اس کا کس طرح ادب کرنا ہے۔ کھانا کھا کر برتن اٹھانے ہیں یا وہیں چھوڑ کر اٹھ جانا ہے‘ ٹائی کیسے باندھنی ہے‘ سڑک پر کچرا نہیں پھینکنا‘یہ سب بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن ان کے بارے میں تربیت نہ ہونے سے بچوں میں آگے چل کر جو برے اثرات رونما ہوتے ہیں وہ انتہائی بھیانک ہوتے ہیں۔ یہی بچے جنہیں پڑھانے اور جنہیں ٹاپ پوزیشنیں لیتے والدین دیکھنا چاہتے ہیں وہی بچے جب بڑے ہو کر کچھ بن جاتے ہیں تو انہی والدین کو آنکھیں دکھانے لگتے ہیں‘ والدین کے دوستوں کا ادب کرنا ‘ رشتہ داروں کے حقوق پورا کرنا‘ یہ سب انہیں بوجھ لگتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس بچے کو والدین اپنی خون پسینے کی کمائی لگا کر بڑا کرتے ہیں وہ اچھی نوکری تو لگ جاتا ہے لیکن والدین کو عزت دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ تب انسان سوچتا ہے کہ آخر اس سے کون سی ایسی کسر رہی گئی جس کی اسے سزا مل رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ہمیں یہ سب نہیں سکھا سکتا۔ یہ سب والدین نے ہی انہیں سکھانا ہے۔یہ وہ باتیں ہیں جو نسل در نسل منتقل ہونی ہیں اور اگر یہ سلسلہ ایک جگہ رک جائے تو پھر باقی صرف مادیت پرستی رہ جاتی ہے۔اس طرح بچے کاروباری ایمپائر تو کھڑی کر لیں گے لیکن ماں باپ کے سامنے ادب سے کھڑے نہیں ہو ں گے‘ انہیں دنیا تو جھک کر سلام کرے گی لیکن وہ خود اپنے والدین کو سلام کرنے کو تیار نہیں ہوں گے؛ چنانچہ مقابلے کی دوڑ میں اپنے بچوں کو لگانے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ جو فصل آج آپ اپنے ہاتھوں سے بو رہے ہیں کل کو آپ نے خود ہی اسے کاٹنا ہے۔آج اگر بچوں کی انفرادی اور اخلاقی تربیت کو بہتر بنا لیں گے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی خامیوں کو دور کرتے جائیں گے تو وہ خودبخود وہ سب بن جائیں گے جو آپ چاہتے ہیں لیکن اگر آپ نے انہیں دوسروں کو روندتے ہوئے صرف اور صرف ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لئے زور لگانے کا کہا تو پھر اس دوڑ میں وہ پہلے نمبر پر آ کر بھی عملی زندگی میں ناکام ہو جائیں گے ۔